مختلف اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا یہ رپورٹ چھاپ رہے ہیں کہ حکومت دہلی اقلیتوں یا صرف مسلمانوں کے بارے میں سروے کرارہی ہے یا یہ کہ اس نے دہلی اقلیتی کمیشن کو اس طرح کا سروے کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ صوبائی الیکشن جلد ہی آنے والا ہے۔اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئےراقم السطور نے بہ حیثیت چیئر مین دہلی اقلیتی کمیشن ایک بیان میں کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ حکومت دہلی اس قسم کا کوئی سروے کرا رہی ہے لیکن حکومت دہلی نے دہلی اقلیتی کمیشن سے اس طرح کا کوئی سروے کرانے کو بھی نہیں کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن اپنے ۱۹۹۹کے ایکٹ کے مطابق اقلیتوں کے مسائل کے حل کرنے، اقلیتوں کے حق میں اقدامات کرنے اور اس سلسلے میں حکومت دہلی کو مشورے دینے کا پوری طرح مجاز ہے تاکہ اقلیتوں کے ساتھ عادلانہ معاملہ کیا جائے۔ اس قانونی ضرورت کے تحت کمیشن ہر سال دہلی حکومت کے مختلف اداروں اور پبلک سیکٹر کمپنیوں سے ان میں کام کرنے والے اقلیتی افراد کے اعدادوشمار حاصل کرتا ہے اور ان کو اپنی سالانہ رپورٹ میں شائع کرتا ہے ۔ یہ رپورٹ حکومت دہلی کو پیش کی جاتی ہے اور دہلی اسمبلی میں بھی پیش ہوتی ہے۔پہلے ہم پندرہ ،سولہ اداروں سے اعداد وشمار حاصل کرکے بطور نمونہ ان کو پیش کرتے تھے لیکن اس سال ہم نے حکومت دہلی کے تمام اداروں اور صوبۂ دہلی میں کام کرنے والی تمام پبلک سیکٹر کمپنیوں کو خط لکھا کہ وہ اپنے یہاں کام کرنے والے اقلیتی افراد کے اعداد وشمار ہم کو روانہ کریں۔ کچھ اداروں کے الگ الگ شعبے یا ذیلی ادارے بھی ہیں۔ ایسے بعض اداروں نے اپنے ذیلی شعبوں اور اداروں سے اعداد وشمار حاصل کرکے ہمیں ایک مکمل لسٹ بھیجنے کے بجائے ان ذیلی شعبوں کو خط لکھ دیا کہ آپ بطور خود ہمارے کمیشن کو اس بابت مطلع کردیں۔اس بات سے یہ نتیجہ نکال لیا گیا ہے کہ دہلی سرکار ایسا سروے کرا رہی ہے یا یہ کہ کمیشن دہلی سرکار کے حکم پر ایسا کر رہا ہے۔ حق یہ ہے کہ ایسے اعدادوشمار جمع کرنا کمیشن کا دیر ینہ کام ہے جوکمیشن پوری آزادی کے ساتھ ہر سال کرتا ہے ،اس میں حکومت دہلی کا کوئی آرڈر یا دباؤ شامل نہیں ہے۔ واضح رہے کہ کمیشن ایک آئینی اور خود مختار ادارہ ہے جو صرف اپنے ایکٹ کی روشنی میں کام کرتا ہے۔ ۔۔۔۔
اپنے کرم فرما نیتاؤں سے!
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تری رہبری کا سوال ہے
پارلیمنٹ میں یہ شعر پڑھنے سے اعظم خان ، ایم پی رام پور، کی نیت اور منشا کے خلاف ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ شہاب جعفری کا یہ شعر تقریباً ساٹھ سال پہلے مولانا ابوالکلام آزاد نے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو مخاطب کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں پڑھا تھا۔ اس کے بعد سے نہ جانے کتنی دفعہ اس شعر کو پارلیمنٹ اور اس کے باہر دہرایا گیاہے۔ اس شعر کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اِدھر، اُدھر کی بات کرنے کے بجائے سیدھے سیدھے بتاؤ کہ ہماری بربادی کا سبب کیا ہے ، ہم چوروں کو الزام نہیں دیتے بلکہ چوکیداروں کو ملزم گردانتے ہیں۔لیکن آج کتنے شرم کی بات ہے کہ ہمارے نیتاؤں کی نئی نسل، جو ہندوستان کی سیاسی قیادت وخدمت کا دم بھر تی ہے، گنگا جمنی تہذیب سے اتنی دور ہے کہ اردو کے ایک بہترین شعر کو سمجھنے اور اس کا لطف لینے سے عاری ہے۔ اسی لئے اعظم خان کے پارلیمنٹ میں اس شعر کو پڑھنے کے بعد ایک بوال شروع ہوگیا جو نہ صرف بالکل غیر ضروری تھا بلکہ ہماری ثقافتی گراوٹ
کا بھی غماز بھی ہے۔