عظمیٰ نیوزسروس
نئی دہلی//’’گزشتہ 11برسوں میں، وزیر اعظم نریندر مودی کی زیرقیادت حکومت نے قومی سلامتی سے متعلق ہر معا ملے کے بارے میں رویہ اور عمل کے طریقہ کار کو بدل کر ہندوستان کے سیکورٹی اپریٹس کو تبدیل کر دیا ہے اور دنیا نے آپریشن سندور کے دوران اس تبدیلی کا مشاہدہ کیا‘‘۔وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 10جون 2025کو دہرہ دون، اتراکھنڈ میں ’قومی سلامتی اور دہشت گردی کے موضوع پر منعقدہ مذاکرات سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔انہوں نے آپریشن سندور کو ہندوستانی تاریخ میں دہشت گردی کے خلاف کی گئی سب سے بڑی کارروائی قرار دیا، جو کہ پہلگام، جموں و کشمیر میں معصوم لوگوں پر بزدلانہ دہشت گردانہ حملے کے جواب میں کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعہ ملک کے سماجی اتحاد پر حملہ تھا اور ہندوستان نے پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردی کے اڈوں اور متعلقہ بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرکے دہشت گردی اور اس کے مرتکب افراد کے خلاف ایک بڑی اور مضبوط کارروائی کی۔ انہوں نے کہا ’’آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد، جموں و کشمیر میں امن اور ترقی کے دور کا آغاز ہوا، ہمارے پڑوسی اسے برداشت نہیں کر سکے اور پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کو انجام دیا، پاکستان اپنی پوری کوششوں کے باوجود، وہ کشمیر میں ترقی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ادھم پورسری نگر بارہمولہ ریلوے لنک جموں و کشمیر میں ترقی کے لئے حکومت کی انتھک کوششوں کی ایک شاندار مثال ہے۔جلد ہی پی او کے ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گا اور کہے گا کہ ’میں بھی بھارت ہوں‘۔ راج ناتھ سنگھ نے زور دے کر کہا کہ جہاں ہندوستانی مسلح افواج نے دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے، وہیں مستقبل میں پہلگام جیسے دہشت گردی کے واقعات کو روکنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے نہ صرف حکومتوں کی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی چوکنا رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے دہشت گردی کو ایک مسخ شدہ اخلاقی استدلال، انسانیت پر سب سے بڑی لعنت، پرامن بقائے باہمی اور جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف سلامتی کا سوال نہیں ہے، یہ انسانیت کی بنیادی اقدار کے تحفظ کی جنگ ہے۔دہشت گردی کو تباہ ہونے والی وبا قرار دیتے ہوئے وزیر دفاع نے زور دیا کہ اس خطرے کو قدرتی موت مرنے کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ اس کا وجود اجتماعی امن، ترقی اور خوشحالی کو چیلنج کرتا رہے گا۔ انہوں نے دہشت گردی کے مستقل حل کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا ’’دہشت گرد کسی مقصد کے ساتھ جنگجو نہیں ہوتے، کوئی مذہبی، نظریاتی یا سیاسی وجہ دہشت گردی کو جائز نہیں ٹھہرا سکتی، خونریزی اور تشدد کے ذریعے کوئی انسانی مقصد کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا، ہندوستان اور پاکستان نے ایک ہی وقت میں آزادی حاصل کی، لیکن آج ہندوستان کو مدر آف ڈیموکریسی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، جب کہ پاکستان عالمی دہشت گردی کا فادر بن کر ابھرا ہے، پاکستان نے ہمیشہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کو پناہ دی ، ان کی تربیت کی اور ان کی مدد کی ہے۔وہ ہمیشہ اس خطرے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ ضروری ہے کہ ہم ان دہشت گردوں اور ان کے پورے ڈھانچے کو ختم کریں۔‘‘انہوںنے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی غیر ملکی فنڈنگ کو روکے۔ انہوں نے کہا کہ اس مالی امداد کا بڑا حصہ دہشت گردی پر خرچ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ’’پاکستان کو فنڈز دینے کا مطلب دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو فنڈ دینا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی نرسری ہے، اسے پروان چڑھانا نہیں چاہیے‘‘۔راج ناتھ سنگھ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پاکستان کو انسداد دہشت گردی پینل کے نائب سربراہ کے طور پر نامزد کرنے کے حالیہ فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا، خاص طور پر جب یہ پینل 9/11کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان نے نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ کو پناہ دی تھی، اس کی سرزمین عالمی دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے، وہاں حافظ سعید اور مسعود اظہر جیسے دہشت گرد کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور پاک فوج کے اعلیٰ افسران دہشت گردوں کے جنازوں میں شرکت کرتے ہیں، اب اسی ملک سے دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کی قیادت کی توقع کی جارہی ہے۔ اس سے عالمی نظام کے ارادوں اور پالیسیوں پر سنجیدہ سوالات پیدا ہوتے ہیں‘‘۔وزیردفاع نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ جیسی تنظیموں سے دہشت گردی جیسے مسائل پر زیادہ سنجیدگی سے سوچنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب ہم دہشت گردی سے آزاد ہوں گے، تب ہی ہم عالمی امن، ترقی اور خوشحالی کے ہدف کی طرف بڑھ سکیں گے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے عام لوگ ایک ہی نظریہ کے حامل ہیں لیکن وہاں کے حکمرانوں نے ملک کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہے تو ہندوستان سے مدد طلب کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی مسلح افواج سرحد کے دونوں جانب دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کا مشاہدہ خود پاکستان نے آپریشن سندور کے دوران کیا ہے۔ پاکستان کو اڑیل قرار دیتے ہوئے انہوں نے پوری دنیا کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ پاکستان پر اس بات کے لئے سٹریٹجک، سفارتی اور اقتصادی دباؤ ڈالے کہ وہ اپنی سرزمین سے نکلنے والی دہشت گردی سے نمٹے۔دہشت گردی سے نمٹنے اور قومی سلامتی کو مضبوط کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے اختیار کی گئی حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوںنے کہا کہ دفاعی شعبہ آتم نربھربھارت کے سب سے مضبوط ستونوں میں سے ایک کے طور پر ابھرا ہے اور آپریشن سندور کے دوران استعمال ہونے والے ہتھیار/پلیٹ فارم میڈ ان انڈیا تھے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھارت نہ صرف اپنی سرحدوں کی حفاظت کر رہا ہے بلکہ ایک ایسا نظام بھی بنا رہا ہے جو ہمیں سٹریٹجک، اقتصادی اور تکنیکی طور پر مضبوط بنا رہا ہے۔ پہلے ہم مکمل طور پر غیر ملکی دفاعی ساز و سامان پر انحصار کرتے تھے لیکن آج بھارت دفاع میں تیزی سے آتم نربھر بن رہا ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے 21ویں صدی میں معلوماتی جنگ کے بڑھتے ہوئے استعمال کو اجاگر کرتے ہوئے لوگوں سے جھوٹ کی شناخت، افواہوں کو روکنے اور سماج میں بیداری پھیلا کر سماجی سپاہی بننے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا ’’ڈیٹا اور انفارمیشن سب سے بڑی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ سب سے بڑا چیلنج بھی ہے۔آپریشن سندور کے دوران پاکستان نے فرضی ویڈیوز، فرضی خبروں اور پوسٹس کے ذریعے ہمارے فوجیوں اور شہریوں کے حوصلے پست کرنے کی سازش کی، فوجی کارروائیاں بند ہونے کے باوجود انفارمیشن وارفیئر جاری ہے، اگر لوگ بغیر سوچے سمجھے جھوٹی خبریں شئیر کرتے ہیں تو وہ انجانے میں دشمن کا ہتھیار بن جاتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ تمام شہری سوشل سپاہی بن جائیں۔ حکومت اپنی سطح پر سائبر سیکیورٹی پر کام کررہی ہے لیکن ہر شہری کو ’فرسٹ رسپانڈر‘ بننے کی ضرورت ہے‘‘ ۔انہوں نے میڈیا کو اپیل کی کہ، آج کے دور میں، ’آگے رہنے‘ کے بجائے ’سب سے زیادہ درست ہونے‘ کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’تصدیق شدہ‘ ہونے کی بجائے ’وائرل‘ ہونا صحافت کا معیار بن گیا ہے۔ اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ راجناتھ سنگھ نے میڈیا کو ایک ’چوکیدار‘ قرار دیا، خصوصی طور پر ایسے وقت میں جبکہ قومی سلامتی کا معاملہ سرحدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اب سائبر اور سماجی شعبوں میں ایک چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’صحافت صرف ایک پیشہ نہیں ہے بلکہ ایک قومی فریضہ ہے۔ یہ ملک کی سلامتی کے لیے ہمیں چوکنا اور چوکس رکھنے کے ساتھ ساتھ آگاہی فراہم کرتا ہے۔ ایک آزاد اور صحت مند صحافت ایک مستحکم قوت ہے جو معاشرے کو چوکنا بناتی ہے، اسے متحد کرتی ہے اور شعور پھیلاتی ہے‘‘۔