تنویر القادری
اگر کسی آدمی کو کہا جائے کہ دس روپے کا نوٹ لے کر آگ لگا دو، تو وہ جواب دے گا محنت سے کماتا ہوں، کیسے آگ لگادوں۔ایسا کرنے کا کسی صاحب عقل کروڑ پتی میں بھی حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ نوٹوں کو پھونک دیں۔ لیکن اسے کون عقل مند کہے گا جو سگریٹ کی شکل میں روزانہ روپے جلاتا ہے جو اُسے بچوں کی تعلیم وتربیت اوراُن کی بھلائی کے لئے کام آسکتے ہیں، انہیں دھوئیں کے مرغولوں پر ضائع کر دیتا ہے۔ ان مہلک زہروں کی عادت کے براہ راست یا بالواسطہ اسباب کا معلوم کرنا ضروری ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ نشہ اور عادت کے کئی سبب ہیں، ان میں سے کچھ اسباب کا تعلق آدمی کے ماحول سے ہے ۔ماحول اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جیسے بُری سوسائٹی، کاروباری پریشانیاں اور ناکامیاں، صدمہ، گھریلو ناچاقی، جنسی وجوہات، ناسازگار حالات اور ذہنی پریشانیاں، سخت قسم کے کام، موسم کے اثرات، تجسس اور والدین کی غفلت اور کچھ لوگ شوقیہ بھی لیتے ہیں۔ حکیم اسلم شاہین لکھتے ہیں کہ بعض لوگ تمبا کو پان یا نسوار (snuff) کی شکل میں استعمال کرتے ہیں اور تمباکو کی سَمِّیَت (toxicity) کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ سگریٹ کی نسبت حقہ سے مضر اثرات کم پیدا ہوتے ہیں لیکن حقہ بھی نقصانات سے مبرا نہیں ۔
سیگریٹ نوشی کی اصل قیمت صرف جسمانی قوت کھو دینے سے ادا نہیں ہو جاتی بلکہ تمباکو کی غلامی کی عنایات سے ذہنی استعداد اور اخلاقی قوت کی قربانی دینے اور بالآخر زندگی کو گھٹانے سے ہوتی ہے ۔ سگریٹ نوشی بینائی میں کمی لاتی ہے اور تپ دق کا ڈر ہوتا ہے ،سانس کی نالیاں تنگ ہو کر دمہ کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں نیند میں کمی واقع ہو جاتی ہے، ضعف باہ ہو جاتا ہے، جسم میں وٹامنز کی شدید کمی، گلے کی سوزش اور معدہ کی نالی میں خراش واقع ہو جاتی ہے، دل کے گردے سکڑ جاتے ہیں ،امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لئے تمباکو نوشی انتہائی مضر ہے۔ دانت سیاہ ہو جاتے ہیں اور زبان پر زخم ہو جاتے ہیں، منہ کے اعضاء یا پھیپھڑوں میں سرطان پیدا ہو جاتا ہے ،جس سے سگریٹ نوش طبعی موت مرنے سے پہلے مر جاتا ہے ۔ سگریٹ پینے والے کا مزاج گرم رہتا ہے، گھر میں بیوی بچوں یا ماں باپ سے لڑتا جھگڑتا رہتا ہے اور دفتر میں اپنے ساتھیوں سے سختی سے پیش آتا ہے۔ ایسا آدمی معاشرے اور مذہب سے ہٹ کر رہ جاتا ہے، اس وجہ سے کسی کو ملنے سے کتراتا ہے کہ دوستوں میں بیٹھ کر دھواں چھوڑوں گا تو وہ نفرت کریں گے۔ تمباکو نوشی کرنے والا بسوں میں صحیح طور سے سفر نہیں کر سکتا کہ جب بھی سگریٹ سلگائی جائے تو لوگ بند کرنے کے لئے کئی باتیں کرتے ہیں، اس نامراد سگریٹ کی وجہ سے سفر میں الٹی سیدھی باتیں یا لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ سننا پڑتا ہے۔ رمضان المبارک کے روزے سگریٹ پینے والے حضرات کم ہی رکھتے ہیں کیونکہ سگریٹ کے دھوئیں سے طویل جدائی انہیں گوارا نہیں ہوتی، ایسے کم ظرف اور بد بخت لوگ نماز روزہ چھوڑ دیتے ہیں سگریٹ نہیں چھوڑ سکتے ۔ گزشتہ نسلوں کی غیر صحت مندانہ عادات موجودہ بچوں اور نوجوانوں پر اثر ڈالتی ہیں، دماغی کند ذہن، جسمانی کمزوری، اعصابی گڑ بڑا اور غیر فطری خواہش والدین سے بچوں میں ورثہ کے طور پر منتقل ہو جاتی ہیں۔
اس تباہی میں خاص طور پر لڑکے ہیں ہی، لیکن لڑکیاں بھی پیچھے نہیں رہیں اور یہ بہت چھوٹی عمر میں تمباکو کا استعمال شروع کر رہے بچے اس طرح اس عمر میں پیدا ہونے والی عادت جبکہ جسم اور ذہن خاص طور پر اس کے اثرات کے لئے حساس ہوتے ہیں، جسمانی طاقت کو کمزور کر دیتی ہے اور اخلاق و کردار کو بگاڑ دیتی ہے، چھوٹے لڑکے جو بمشکل عالم طفولیت سے نکلے ہوتے ہیں، سگریٹ نوشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ یہ مسئلہ ہر شہر اور ہر علاقے کا ہے جس کے بارے میں کم عمر بچے اعتراف نہیں کریں گے ، اس کے بارے میں والدین نہیں بتائیں گے لیکن یہ سماج کا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔
مضمون عالمی ادارہ ادویات میں مرقوم ہے کہ بچے کی سگریٹ نوشی کی عادت کا موثر ترین ادارہ و ماخذ باپ کی سگریٹ نوشی کی عادت ہے۔ ان خاندانوں میں جن میں ماںباپ دونوں سگریٹ نوش ہیں، بچوں کی زیادہ تعدا د سگریٹ کی عادی ہوگی ۔ والدین کی مثال کا بچے کے ذہن پر نمایاں اثر ہوتا ہے، وہ مشاہدات اور تجربات جو بچہ گھر سے حاصل کرتا ہے ،وہ آئندہ کسی تعلیمی ادارے یا درسگاہ کی تربیت سے کہیں زیادہ دیر پا اور موثر ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں بچوں کی ابتدائی تربیت کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، کیوں کہ جو عادات و اسباق بچہ اپنے ایام طفولیت اور بچپن میں اپناتا ہے، کردار بنانے اور زندگی کی راہ کا تعین کرنے پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ماں اور باپ دونوں کا کردار ، ذہنی اور جسمانی مزاج یہاں تک کہ بھوک بھی بچوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ والدین کی نشے کی عادت بچوں کی جسمانی، ذہنی اور اخلاقی طاقت کو کمزور کر دیتی ہے۔ شرابی اور سگریٹ نوش اپنی نقصان دہ اور بُری عادات کو اپنی اولاد میں منتقل کر رہے ہیں۔ پھر یہی اولاد کچھ بڑی ہو کر طرح طرح کے جرائم میں ملوث پائی جاتی ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں کی کثیر تعداد کا سبب زیادہ تر ان کے والدین کے غلط کردار کی وجہ ہوتی ہے۔ پھر یہ زندگی کی حقیقتوں اور تلخیوں سے راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے نشہ کرتاہے۔ ایسے میں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں کی نگرانی کریں۔انھیں اپنی اور ان کی زندگی کی قدر و قیمت بتائیں ۔ انھیں بتائیں کہ زندگی قدرت کا انمول عطیہ ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر ونود دھر کا بیان ہے کہ ’’ایک بچہ سگریٹ پینے سے منشیات کا سفر شروع کرتا ہے اور پھر چرس اور بعد میں ہیرائن کا استعمال کرنے لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی مرحلے میں والدین اس کو محسوس کرسکتے ہیں اور اس کا خود ہی کونسلنگ کے ذریعے علاج بھی کرسکتے ہیں۔ موصوف ڈاکٹر نے کہا کہ منشیات سے دماغ کو نقصان پہنچتا ہے جس کی وجہ سے اگر ایک بچہ نشے کی عادت سے چھٹکارا بھی پانا چاہتا ہے لیکن اس کے دماغ میں ہوئی کیمکلز کی تبدیلی اس کو ایسا نہیں کرنے دیتی ہے۔ ‘‘ والدین میں سے کسی ایک کو نشہ کرنے کی عادت ہے تو بار بار اپنے بچے کو بتائیں کہ یہ عادت بری ہے اور آپ اسے چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ کا بچہ بھی آپ کی مدد کرے گا۔ اپنے بچوں کے دوستوں کے بارے میں جانکاری رکھیں۔ وہ کس سے ملتا ہے ، وہ کیا کرتا ہے ، آپ کو ان سب چیزوں کے بارے میں ضرور معلوم ہونا چاہئے۔ اس معاملے میں ٹیچرز کا بہت اہم کردار ہے، سکول کا ماحول کیسا ہے، ٹیچر کس طرح بچوں کو گائیڈ کر رہے ہیں، وہ کتنا فرینڈلی ہیں کہ وہ اپنی بات کھل کر کہہ سکیں۔ جہاں ماحول موزوں نہیں ہے وہاں بچوں کا رحجان ڈرگز کی طرف مائل ہونا آسان ہوتا ہے۔لہٰذا ہر ایک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی وجہ کو سمجھیں اور اس کے سدباب کے لئے ہر ممکنہ کوشش بجا لائیں۔