دُعا ہی سبیلِ واحد!

انسان ایک ایسی کمزور مخلوق کا نام ہے کہ جس کو قدم بقدم مختلف حاجات کی ضرورت پڑتی ہے۔انسان کا ان حاجات کو رب کے سامنے ڈالنے کو ’’دعا‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔پورے آداب و شرائط کے ساتھ مانگی گئی دعا عرشِ الٰہی کو بھی ہلا کے رکھ دیتی ہے۔دعا اگرچہ ایک طرف اپنے رب کو حاجت روائی کے لئے پکارنا ہے تو دوسری طرف یہ فطرت کی آواز ہے۔انسان کبھی کبھار مسائل کے بھنور میں اس طرح پھنس جاتا ہے کہ اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا،کوئی مشورہ اور تجویز اس کی تکمیل کا ذریعہ نہیں بنتی،ساری امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں،سب سہارے چھوٹ جاتے ہیں اور انسان اپنے آپ کو بے بس اور مجبور محض محسوس کرنے لگتا ہے اور اسے ہر طرف مایوسی کے بادل دِکھنے لگتے ہیں تو آناً فاناً اس کے اندر سے ایک آواز اُبھرتی ہے کہ ایسی حالت میں آپ کو رب کی ذات کے سوا کوئی کام آنے والا نہیں ہے۔انسان چاروناچار رب کے دربار میں اپنی حاضری دینے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔اس حوالے سے قرآنِ پاک میں رب العٰلمین سرکش انسان کو چیلنج دے کر نصیحت حاصل کرنے کی دعوت ان الفاظ میں دیتا ہے: ’’بھلا کون ہے جو بےقرار کی دعا سنتا ہے جب وہ اسے پکارے،اور اس کے دکھ کو دور کرتا ہے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے،کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی ہے،تم لوگ کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو‘‘(النمل:62)
 اس آیت کو پڑھ کر انسان اس بات سے متفق ہوجاتا ہے کہ واقعی طور پر دعا عین عبادت اور جانِ عبادت ہے۔اس آیت میں جہاںرب کی طرف سے نرم انداز میں بندے کو اپنے دربار میں دعا مانگنے کی دعوت ہے تو وہیں غیر اللہ سے دعا مانگنے پر ان کی قہاریت اپنے نقطہ عروج پر دیکھنےکو ملتی ہے،گویا غیر اللہ سے دعا مانگنے پر اللہ تعالیٰ کتنے غضبناک ہوتے ہوں گے:’’تمہارا رب کہتا ہے،مجھے پُکارو،میں تمہاری دُعائیں قبول کروں گاجو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے مُنہ موڑتے ہیں،ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنّم میں داخل ہوں گے۔‘‘(الغافر:60)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس آیتِ مبارکہ پرلکھتے ہیں:’’اس آیت میں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ دعا اور عبادت کو یہاں مترادف الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ پہلاکہ دعائیں عبادت اور جان عبادت ہے۔ دوسرا، اللہ سے دعا نہ مانگنے والوں کے لیے’’گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘‘کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔  معلوم ہوا کہ اللہ سے دعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہےاور اس سے منہ موڑنے کے معنی آدمی تکبر میں مبتلا ہے، اس لیے اپنے خالق ومالک کے آگے اعتراف عبودیت کرنے سے کتراتا ہے۔ نبی اکرمﷺنے اپنے ارشادات میں آیت کے ان دونوں مضامین کو کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے کہ حضورؐنے فرمایا : دعا عین عبادت ہے۔حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا :’’دعا مغز عبادت ہے‘‘۔(ترمذی)  حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ سے نہیں مانگتا، اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے‘‘۔(ترمذی)
اس مقام پر پہنچ کر وہ عقدہ بھی حل ہوجاتا ہے جو بہت سے ذہنوںکو الجھن ڈالتا ہے۔ لوگ دعا کے معاملے پر سوچتے ہیں کہ جب تقدیر کی بُرائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میں ہے تووہ جو فیصلہ کرچکا ہے وہی کچھ رونما ہو کر رہنا ہےاس لئے دعا مانگنے کا حاصل کیا ہے۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہےاور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوئے اگر دعا مانگے بھی تو اس کی دعا میں روح باقی نہیں رہتی۔قرآن مجید اس غلط فہمی کو دو طریقوں سے رفع کرتاہے۔ اولاً،اللہ تعالیٰ بالفاظ صریح فرما رہا ہےکہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جس نے ہماری طرح معاذاللہ،خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی باندھ دیئے ہوں اور دعا قبول کرنے کے اختیارات اس سے سلب ہوگئے ہوں۔بندے تو بلا شبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے،مگر اللہ تعالیٰ خود یہ طاقت رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں اور التجائیں سن کر اپنا فیصلہ بدل دے۔دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دعا خواہ قبول ہو یا نہ ہو،بہرحال وہ کسی صورت میں بھی خالی نہیں ہوتیں۔ بندہ رب کے سامنے حاجتیں پیش کرکے اور دعا مانگ کر اس کی آقائی وبالا دستی کا اعتراف اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے۔یہ اظہارِ عبودیت بجائے خود عبادت،بلکہ جانِ عبادت ہے، جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں محروم نہیں رہتاہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ چیز اس کو عطاہوجائے یا نہ ہوجائے، جس کے لیے اس نے دعا کی تھی۔(تفہیم القرآن)
 عجیب بات ہے کہ دنیا والے مانگنے سے ناراض ہوتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ مانگنے والے سے خوش اور نہ مانگنے والے سے ناراض ہوتے ہیں۔دنیا داروں سے اگر کوئی ایک دفعہ مانگے تو وہ دے دیں گے۔دوسری دفعہ مانگے تو وہ عذر پیش کریں گے۔تیسری دفعہ مانگے تو زبان سے منع کریں گے۔چوتھی دفعہ مانگے تو رشتہ ناطہ ہی توڑ ڈالیں گے۔جب کہ رب العٰلمین کا معاملہ مختلف ہے،بندہ جتنی دفعہ بھی مانگتا ہے وہ بلا کراہت دیتا ہی چلا جاتا ہے اور جو بندہ اپنا سارا معاملہ ہی اللہ کے سپرد کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے مقربین میں شامل کر دیتا ہے۔بندۂ عاجز کے لئے بہتری بھی اسی میں ہے کہ وہ دنیا کے معاملے میں دوسروں سے آگے بڑھنے کے بجائے قناعت والی زندگی اختیار کرکے صرف اللہ تعالیٰ سے فضل کا سوال کرے،جس کی تاکید اسے خود اللہ تعالیٰ نے ہی قرآنِ پاک میں کر دی ہے:’ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو‘۔(النساء:32)
انسان کا سب سے بڑا اور مضبوط رشتہ اپنے خالقِ حقیقی سے ہوتا ہے۔جن چیزوں سے اس رشتے میں مضبوطی آتی ہے ان میں سرفہرست’’دعا‘‘ ہے۔دعائوں کے ذریعے سے بندے کو اپنے معبودِ حقیقی کی قربت میں بھی کافی حد تک مدد ملتی ہے۔انسان کو ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کر رکھی ہے اور ان تمام اشیاء کو رب کے منشا کے مطابق استعمال میں لانا بھی عین عبادت ہے۔اگر دست و بازو اللہ نے عطا کیے ہیں تو انہیں غیر اللہ کے سامنے پھیلانے میں ذلت اور رسوائی ہے اور یہ ہماری بے حسی اور ہمارے جہل کا بین ثبوت بھی۔ اللہ کے دَر کا سوالی بنے رہنے میں عزت،توقیر اور نجات ہے۔مجبور ہم ہیں، اللہ نہیں ہے۔قرآنِ پاک نے اس چیز کا تذکرہ ان الفاظ میں کر دیا ہے:’’لوگو!تم ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو غنی وحمید ہے‘‘۔(فاطر:15)دوسری جگہ قرآنِ پاک میں ارشاد ربانی ہے:’’اے محمدؐ،لوگوں سے کہو’’میرے ربّ کو تمہاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اُس کو نہ پکارو‘‘۔(الفرقان:77)
نبی اکرمؐ نے بھی اس حقیقت کو ایک حدیثِ قدسی میں اس طرح بیان کر فرمایا ہے:  حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا:’’اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو ،سوائے اس کے جسے میں ہدایت سے نواز دوں، پس تم مجھ ہی سے ہدایت مانگو ،میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو ،سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں، پس تم مجھ ہی سے کھانا مانگو، میں تمہیں کھانا دوں گا۔اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اُس کے جسے میں لباس پہناؤں ،پس تم مجھ ہی سے لباس مانگو میں تمہیں لباس دوں گا۔اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں سارے گناہوں کو بخش دیتا ہوں پس تم مجھ ہی سے بخشش مانگو، میں تمہیں بخش دوں گا۔اے میرے بندو! تم سب کی رسائی مجھے نقصان پہنچانے تک نہیں ہو سکتی کہ تم مجھے نقصان پہنچاؤ اور نہ تمہاری رسائی مجھے نفع پہنچانے تک ہو سکتی ہے کہ تم مجھے نفع پہنچاؤ۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے کے لوگ اور تمہارے آخر کے لوگ اور تمہارے انسان اور تمہارے جنّات تم میں سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ کرے گا۔اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے کے لوگ اور تمھارے آخر کے لوگ اور تمہارے انسان اور تمہارے جنّات،تم میں سب سے زیادہ فاجر شخص کے دل جیسے ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ کمی نہ کرے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے کے لوگ اور تمہارے آخر کے لوگ،اور تمہارے انسان اور تمہارے جنّات،ایک کھلے میدان میں کھڑے ہو جائیں اور سب مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کو اس کی طلب کردہ چیز دے دوں تو اس سے میرے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی، سوائے ایسے جیسے ایک سوئی سمندر میں ڈبونے کے بعد (پانی میں) کمی کرتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں میں شمار کر رہا ہوں پھر میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا تو جو شخص بھلائی پائے، وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو اس کے علاوہ پائے تو وہ اپنے ہی نفس کو ملامت کرے‘‘۔(مسلم)
 انسان کو یہ علم ہونا چاہئے کہ اضطراب،بےقراری اور پریشانی کی حالت میں اس کے لیے ایک بہت بڑا اور واحد سہارا موجود ہے جو ہر لمحہ اس کی ضروریات کی تکمیل اور فریادرسی کے لیے تیار ہے اور وہ اللہ ذو الجلال والاکرام ہے،جو شب و روز کی گھڑی میں انسان کی پکار سنتا ہے،جسے انسان کے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ خالی لوٹاتے ہوئے شرم آتی ہے،جو مانگنے والے سے خوش اور نہ مانگنے والے سے ناراض ہوتا ہے۔جس کے خزانوں کی اتنی وسعت ہے کہ بانٹنے سے ان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔انسان کو چاہئے کہ اس بابِ الٰہی کو ضرور کھٹکھٹائے، جسے کھٹکھٹانے والا کوئی بھی محروم نہیں رہتا۔کتنی درد بھری آواز میں وہ بندوں کو اپنے در پر بُلاتا ہے کہ مختصر الفاظ میں مضامین کا ایک سمندر سمیٹا گیا ہے۔ان میں ایسا زور ہے کہ دلوں میں تیرونشتر کی طرح اثر کرتے ہیں۔ان میں ایسی شیرینی ہے کہ کانوں میں رس پڑتا معلوم ہوتا ہے۔ایسا نغمہ ہے کہ آدمی بے اختیار جھومنے لگتا ہے۔اپنے محبوبِ حقیقی کی چاہت دیکھ کر بندہ عاجز کی آنکھوں سے خود ہی آنسو ٹپکتے ہیں۔ذرا اپنے ربِ کریم کے نظرِ کرم کو تو دیکھئے: 
’’میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے،میں اس کی پکار کو سنتا اور جواب دیتا ہوں۔لہٰذا انہیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں شاید کہ وہ راہ راست پالیں‘‘۔(البقرہ:186)اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں سید قطب شہیدؒ نے ایک ایسا شاندار نوٹ لکھا ہے۔لکھتے ہیں:’’ میں قریب ہوں‘‘۔پکارنے والا جب بھی مجھے پکارے میں اس کی پکار سنتا ہوں۔کیا نرمی ہے؟ذرا نظرکرم ملاحظہ ہو؟الفاظ و معانی کی صفائی دیکھو!انس و محبت دیکھو!روزے کی تکالیف کیابلکہ تمام عبادات کی تکالیف مشقتیں اس قریب و محبت کے مقابلے میں کہاں رہتی ہیں؟اس انس اور محبت کے ٹھنڈے سایے میں احساس مشقت کہاں باقی رہتا ہے؟
 اس آیت کے لفظ لفظ پر انس و محبت کی تازہ شبنم ہے۔’’میرے بندے!اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادیجئے کہ میں تو ان سے قریب ہوں ،پکارنے والا جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکارسنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں‘‘۔
 یہ آیت دلِ مومن کو میٹھی تازگی،خوشگوار محبت،پرسکوں ورضامندی اور یقین محکم سے بھردیتی ہے۔مومن تسلیم ورضا کی جنت میں پہنچ جاتا ہے۔اُسے پر شفقت وصال نصیب ہوتا ہے۔وہ پرامن پناہ گاہ اور پرسکون آرام گاہ میں پہنچ جاتا ہے۔ انس و محبت کی اس فضا میں پرجوش باریابی کے اس ماحول میں اور الہامی قبولیت کے اس پس وپیش میں،اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہدایت فرماتے ہیں کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ایمان اور یہ اطاعت انہیں راہ ہدایت اور راہ مستقیم پر پہنچادے۔ ’’لہٰذا انہیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لے آئیں شاید وہ راست پالیں‘‘۔
   بندہ جب بھی رب کے دربار میں تشریف لائے تو اسے نہایت ہی عاجزی اور انکساری کا اظہار کرنا چاہئے۔اگر خدانخواستہ اسے رب کے دربار سے ٹھکرا دیا گیا تواسے کہیں پے بھی ٹھکانا نہیں مل سکتا ہے۔رب بھی چاہتا ہے کہ بندہ اسے گڑا گڑا کے اور چپکےچپکے پُکارے،جیسا کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے:
’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے‘‘۔(الاعراف55)
  لہٰذا بندہ مومن کو چاہئے کہ وہ جب اللہ سے مانگے تو اس کے الفاظ بھی عجز کا اظہار کریں اور اس کے جسم پر بھی اس کی عظمت اور اپنی عاجزی کے احساس سے کپکپی طاری ہو۔اس کا لب و لہجہ عاجزی کی تصویر ہو۔اس کا ہر بول زبان سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکلے۔اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برکھا برسے اور دل یقین سے سرشار ہوجائے۔