دوطرفہ اعتماد !

حضوراقدس ﷺ کے جوامع الکلم میںآیا ہے’’ اعتماد میرا خزانہ ہے‘‘ ۔پیغمبر برحق ﷺ جس چیز کو خزانہ فرمادیں ،اُس کی وسعتوں کا عالم کیا ہوگا ، اُس کے سامنے تمام دنیاوی مال ومتاع ،منصب وعزت ،علم وآگہی، حکومت وسلطنت کچھ بھی نہیں ۔قیادت ہو یا ملت ،حاکم ہو یا رعایا،مبلغ ہو یا سامع، اُن کے درمیان اعتماد کے نام سے ایک نازک رشتہ مستحکم بنیادوں پر ا ستوارہوتو سب کچھ ٹھیک ٹھاک لیکن اگر اعتماد  کا یہ اٹوٹ رشتہ مفقود یا ڈھمل ہو تو یہ دوطرفہ تعلقات اکارت جاتے ہیں ۔اعتماد کا ماخذ عمد ہے جس کے معنیٰ ستون ہے ۔ہر عمل کی کامیابی کی شاہ کلید عدل ،دیانت ،سچائی اورقربانی ہے ۔ یہ چار ستون باہمی اعتماد کے اینٹ گارے سے بنتے ہیں۔جس قوم یاقیادت میں یہ ستون مضبوطی کے ساتھ موجود ہوں وہ صفحۂ ہستی سے ہرگز مٹ نہیں سکتی لیکن اگر ستون گر جائیں تو قوم اور قیادت کی کتنی بھی قربانیاں ہوں وہ منزل مقصود پانے سے قاصر رہتی ہے  ۔
 ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ ہم میں ایک طبقہ ایسے لاپرواہوں پر مشتمل ہے جو ہندوستان میں عیاشیوں کا سامان بازار میں آنے سے قبل سب سے پہلے اُس کی بکنگ کشمیر سے کر نے میںپیش پیش ہوتا ہے جب کہ ُانتیس سال کے عرصہ میں ایک لاکھ سے زائد جوانوں کی زندگیاں ہم کھو بیٹھے ہیں اور قوم کا یہ نو دولتے شاندار ہوٹلوں میں سگائیوں پر لاکھوں روپے لٹا نے کوئی لاج شرم محسوس نہیں کرتے ۔ ہمارادوسرا طبقہ غربت وافلاس زدہ لوگوں پر مشتمل ہے ۔ یہ طبقہ نامساعد حالات کے چلتے نانِ شبینہ کے لئے ترس رہا ہے اور بسااوقات  اپنے ضمیراور اصولوںکا سودا کرنے پر مجبور نظر آتا ہے ۔ اس صورت حال کی وجہ سے ہم نے زندگی کے ہر شعبے میں اصول واعتماد کے تانے بانے کو اپنے ہی ہاتھوں سے ٹکڑ ے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ہے ۔ یا درکھئے قوم اُسی قیادت کے اشاروں پر ہزار جان سے قربان ہوتی ہے جو اعتماد اور اصول پر قائم ہو ۔ اس سلسلے میں ہماری آنکھوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود قوموں کی قیادت کر نے والے کس طرح معمولی سادہ زندگی بسر کرنے والے بھی ہوتے ہیں کہ قوم کا بچہ بچہ ان کا نام عزت ووقار سے لیتا ہے۔
 اعتماد کے حوالے سے اپنے تعلیمی نظام کو ہی لیجئے، ایک قابل طالب علم کوجب یہ خدشہ رہے کہ کوئی ظالم وجابراس کا حق مارکر اُسے یا تو خود کشی پر آمادہ یا ہتھیار اُٹھانے پر مجبور کرے گاتو وہ کوئی بھی انتہائی قدم اُٹھانے سے کیا خاک گریز کرے ۔ حق تلفی اس کے ذہن پرحاوی ہوکر یاتومایوسی یا بغاوت کی طرف اسے ہانکتی ہے ۔حضور اقدسﷺ کا یہ فرما نا کہ اعتماد میرا خزانہ ہے،ان معنوں کی طرف بھی ہماری سوچ کا پہیہ پھیر دیتا ہے ۔ اعتماد کی چابی اُن لوگوں کے ہاتھوں میں دی جانی چا ہیے جن کے اندر عدل وانصاف کی تمیزہو ،حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت ہو،خواہشات ِنفس اور مر ضیاتِ الہٰیہ کی پہچان ہو ، طاغوت کے حرکات وسکنات کی نباضی ہو ۔ بلا اعتماد کا شیش خانہ محفوظ رہ سکتا ہے جب ہم منبر و محراب پر یزید اور لشکر یزید کے مظالم سنائیں لیکن خودہم بھی وقت کے یزیدی نظام کے حاشیہ بردارہوں ۔اس کھلے تضاد سے ملت کو اُن علماء و مبلغین پر خصوصی طور اعتماد اُٹھاہے جو دین ،عقائد ، احکام ِشریعت اور وقت کی نزاکتیں بالائے طاق رکھ کر مسلکی بیانات اورتقاریر سے مسلمانوں کو آپس میں جوڑنے کے بجائے انہیں توڑنے میں کوشاں ہوتے ہیں ۔عالم اسلام کے بہترین مبلغ مولانا طارق جمیل صاحب نے خوب کہا ہے کہ مسلک گھر میں بیان کر و لیکن دین، عقائد، اخلاقی بلندیوں کو منبر ومحراب پر خطبہ دیا کرو ۔ اس کے بجائے منبرو محراب سے ہی اگر مسلکی نزاعات چھیڑکر مسلمانوں کو آپس میں بدظن کیا جائے توان وجوہ سے مبلغ وداعی اورسامع وقاری کے درمیان عدم اعتماد کا ماحول پیدا ہو نا قدرتی امر ہے اور حافظ شیرازیؔ کا یہ شعر     ؎
واعظاں کہ ایں جلوہ بر محراب منبر مے کند چوں بخلوت مے روند آں کار دیگر می کند
ایسوں پر ہی صادق آتا ہے ۔ مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم ؒ سے سوال کیاگیا عموم بلوہ کیا ہے فرمایا ایسا مرض جو سبھوں کو لاحق ہوا ہو مگر ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہوں کہ یہ کوئی مرض نہیں ہے، یہی مرض قوم اور قیادت میں لاحق ہوتو اناللہ وانا الیہ راجعون ۔
 اعتماد خاص کر حاکم اور عالم کا گہنہ ہوتا ہے، لیکن جب حاکم کے اندر ظلم کا داعیہ پیدا ہو اور عالم پر نفس پرستی سوار ہو تو قوم کے اخلاق زمین بوس ہوجاتے ہیں کہ فساد و بدامنی زمین میں پھیل جاتی ہے، ساتھ ہی حاکم اور عالم پرعامتہ الناس کا اعتماد خود بخود ختم ہوجاتا ہے ۔لہٰذ ا قوم ا ور قیادت پر مشترکہ ذمہ داری  عائد ہوتی ہے کہ بلاوجہ اعتماد شکنی کا گناہ اپنے سر نہ لیں اور ہر حال  میں بدظنی اور اعتماد شکنی سے اپنا دامن بچائیں ۔
  E-Mail Id:- [email protected]