انسان کی پہچان اس کی اقداریں ہوتی ہیں۔ آپ کون ہیں؟ کیا ہیں؟ کیا پسند ہیں کیا ناپسند؟ یہ انسان کا تعارف دیتی ہے اور اس کی سوچ، نقطۂ نظر، دنیا اور دنیا میں بسنے والے انسانوں کے معاملے میں اس کا سلوک اور رویہ اس کی شناخت کا اظہار کرتی ہے۔ ہر انسان دنیا میں کچھ نہ کچھ قدروں کے ساتھ جیتا ہے اور فانی دنیا سے چلے جانے کے بعد انہی اقدار کے ذریعے زندہ رہتا ہے۔ انسان کی زندگی میں یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ان اقدار کو پہچانیں، کون سی اقداری ایسی ہیں جو اس کے چلے جانے کے بعد بھی اچھے نقوش چھوڑ جائیں، اچھائی کی مثل زندہ رہے، دُکھے، بجھے مغموم دلوں کا بوجھ کم کرجانے والا مرحم کی طور یاد رہے۔۔ یہی تو کمال ہے کہ اوروں کے لیے جیا جائے کیونکہ زندگی یا تو خوشی سے عبارت ہوتی ہے یا غم سے، دونوں چیزیں زندگی کے ساتھ منسلک ہے اور جزولاینفک کی مانند ہے۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس زندگی کی عارضی شئ خوشی ہے، جسے ڈھونڈنا پڑتا ہے، تلاشنا پڑتا ہے اور دنیا غم کا مستقل ٹھکانہ ہے۔ وہ اس لیے کیونکہ خوشی کا محل وہ کیونکر ہوسکتا ہے جو عارضی ہو، فانی ہو۔تو آپ یا تو کسی کی خوشی بن سکتے ہیں یا کسی کا غم،کسی کے لیے مفید یا کسی کے لیے مضر، یہ انتخاب آپ کو کرنا ہے۔لیکن اے انسان آپ کا وجود صرف آپ کو اپنے لیے نہیں بلکہ اوروں کے لیے بخشا گیا۔آپ جب دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں تو کتنے حسین خوابوں کی تعبیر پوری ہوجاتی ہے،کتنے آپ کے ننھے وجود کو دیکھ کر اپنی امیدوں کا سورج مان کر خوشیاں بانٹتے ہیں،ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت کا راز بن جاتے ہو، آپ کے آنے سے کتنے ہی رشتے وجود پاتے ہیں غرض آپ کا آنا دوسروں کے لیے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے زندگی کے اس سفرمیں آپ کی کوشش بھی کسی کی خوشی کو لوٹانا ہو، گھٹاٹوپ اندھیرے میں کسی کا چراغ بن جانا ہو، اجڑے ہوئے خیموں کو آباد کرکے بسانا ہو، ایک دوسرے کا دکھ بٹانا ہو، پسماندہ زندگیوں کی تسلی، امید، آس اور سہارا بن جانا ہو، بہتے ہوئے اشک کو پونچھنا ہو، بجھے خوابوں کی تعبیر بن کر پھر سے سجانا ہو، ویران بستیوں میں دیب جلانا ہو۔ دور دور تک زندگی کی رمق جب دکھائی نہ دیتی ہو تو جی اٹھنے کی سحر افق پر ظاہر ہو کر ظلمت کو چیرتے ہوئے نئی جلا بخشنے کی قوت بن جانا ہو۔ ایک ولولہ، ایک جوش، ایک جذبہ جو سمندر کی تھپیڑوں، بادسرسر کی لہروں، سرپر منڈھلاتے بادلوں کا رخ موڑ دینے والا ہو، ہاں !ہاں!! یہی تو بلند اقداریں ہیں جو انسان سے مطلوب ہے۔ یہ تو ایک محدود تصور ہے کہ خود کے لیے جیا جائے، خود کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے حرکت کی جائے۔زندگی ملنے کے بعد جینا لازمی ہے اور اس جینے کے لیے ایک مقصد ڈھونڈنا ضروری ہےاور اسی لیے کہا گیا ہے کہ
"The mystery of human existence lies not just in being staying a living, but in finding something to live for."
انسانی وجود کی حیرتناکی یہ نہیں ہے کہ وہ براہِ نام کے زندہ رہے بلکہ یہ زندہ رہنے کے لیے کچھ تلاش کرنے میں ہے اور یہ اصل زندگی کا جوہر ہے کہ آدمی صرف اپنی سانس لینے کے لیے زندہ نہ رہے بلکہ انسان کی بامقصد زندگی کے لیے دوسروں کے لیے جینا شرط اول ہے ورنہ جانور بھی تو خود کی زندگی کے لیے جیتے ہیں۔ یہی چیز انسان کو جانوروں سے ممیز کرتی ہے۔ انسان اگر آفاق کی وسعتوں اور زمین کی گہرائیوں کی طرف توجہ کریں تو کائنات میں ہر چیز اس کو ایسی نظر آئے گی کہ وہ اپنے لیے کم مگر دوسروں کے لیے زیادہ جی رہی ہے۔ ہم یونہی آسمان کے اوپر چمکتے سورج سے روشنی اور گرمی حاصل نہیں کرتے یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب سورج اپنے آپکو جلا دیتا ہے، اپنے سارے ایٹم مسلسل جلائے دیتا ہے، خود کے سائیز کو چھوٹا کرکے چلا جاتا ہے، خود ڈوب کے دوسروں کی زندگیوں کا سامان کرتا ہے۔ آسمان دنیا گھپ اندھیرے میں اپنے حسن سے ان آنکھوں کے لیے وجہ ٹھنڈک اور باعث سکون بھی یونہی نہیں بنا ہوا ہے بلکہ یہ تو ان ستاروں کی اپنے اندر ہونے والی خودکار ایٹمی تابکاری ہی ہے جو ہر طرف نور بکھیرتے ہیں، اپنے اندر جلنے والی گیسوں کی بدولت اس قدر روشن اور دلکش منظر ان آنکھوں کو دکھلاتے ہیں۔یہ جو زمین تھوڑے سے ہچکولے کھاتی ہے تو پاؤں لڑکھڑانے لگتے ہیں، دھڑام سے نیچے گرادیتی ہے، آہستہ ایک قدم چلنا بھی محال ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ جو آپ آرام سے اس زمین کے اوپر چلتے پھرتے ہیں یہ تب ہی ممکن ہوا جب اس کے اوپر پہاڑ میخوں کی مانند کھڑا ہے اپنے آپ کو بے حس و حرکت چپ چاپ ایک ہی جگہ ٹکا کے زمین کو ہچکولے کھانے سے روک کر بےشمار زندگیوں کو آرام سے چلنے پھرنے کے قابل بناتا ہے۔ آسمان سے برسنے والی بارش کو ہی دیکھ لیجئے جب خشک، بنجر، بے آب و گیاہ مردہ زمین پہ برستی ہے تو اس کو نئی زندگی بخشتی ہے، لہلہاتی فصلیں، گنجان باغ پیدا کر کے انسانوں اور جانوروں کا سازوسامان اور چارہ پیدا کرتی ہے۔ کائنات کا وجود تو اسی لیے برقرار ہے کہ اس میں موجود ہر شئے دوسروں کے لیے جیتی ہے۔ انسان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے خول اور محدود دائرے سے نکل کر دوسروں کے لیے جینا سیکھ لے۔ دنیا میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو ایک مقصد لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، دوسروں کے لیے اپنے آپ کو نفع بخش ثابت کرتے ہیں، جو یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم انسانوں کے لیے مفید بنیں گے۔ کاش ہمیں اس وقت کا ادراک ہوتا جب ایک انسان اس دنیا سے بغیر کوئی تعمیری کردار نبھاکے، غیر نافع اور غیر منتفع بن کر چلا جاتا ہے تو کف افسوس ملنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو چکا ہوتا۔ زمانہ اس کو یاد تک نہیں رکھتا وہ اس طرح پردہ غیب میں چھپ جاتا ہے جیسے کبھی دنیا میں آیا ہی نہیں تھا، اس کا ذکر ہی غائب۔ ضروری نہیں کہ آپ بڑے بڑے کارنامے سرانجام دینے کے منتظر رہیں آپ کے پاس قلم ہے تو لکھ کر کسی کی مظلومیت کا ترجمان بنیں، راہ بھٹکے مسافروں کے لیے روشنائی بنیں، لکھیں جو کچھ لکھنا آتا ہے لیکن مفید بنئے۔ زبان کا زور آپ کے پاس ہے تو گونگے لوگوں کی آواز بنئے،چند ایک بول بول کر کسی کی ہنسی لوٹائیے۔ آپ کے ایک قول اور ایک مشورے سے زندگی سے چور اور تھکاماندہ انسان جینے کا راز پاسکتا ہے اور اس طرح اس کی نیاپار ہوسکتی ہے۔ کسی بڑے عہدے دار تک آپ کی رسائی ہے تو ان سے ملاقی ہو کر لوگوں کو سہولات دنیا فراہم کرنے میں مدد کریں۔ جو کام بھی آتا ہے وہ کریں لیکن انسانیت کے لیے مفید بنیں۔ یہی زندگی کی اصل ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے نہ قوت ہمارے پاس، نہ وسائل ، نہ لوگوں کا ساتھ دنیا ایک طرف چل رہی ہے اور ہم مخالف سمت کیسے اختیار کرسکتے۔ یہ ایسی سوچ ہے جو اصل میں ہمیں لوگوں سے جی چرانے پہ مجبور کرتی ہے اور اس طرح لوگوں سے ہی کاٹ دیتی ہے۔ لیکن آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے یہ صرف ایک بیانیہ ہوتا ہے جسے ہم نے خود قبول کیا ہوتا ہے اور اس کے پھیلاؤ کے ذمہ دار بھی ہم خود ہوتے ہیں۔ کامیاب انسان وہی ہوتا ہے جو موجودہ بیانیہ کو چلینج کر کے ایک اور نیا بیانیہ جاری کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ لوگوں کے قلب و ذہن کو کسی عارضی قوت نے جھکائے رکھا ہو، جو بیانیہ عام ہوچکا ہو اسے قبول کر کے اندھوں کی طرح زندگی کی گاڑی کو آگے لے جایا جارہا ہو، اسی طرح کہ مغرب کا جال ہر چہار جانب ہمیں اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور وہ بڑی قوت کا مالک ہے، اسے تسلیم کئے بنا کوئی چارا نہیں، یہ کہ ہم کبھی بھی غلامی کی زندگی سے چھٹکارا نہیں پاسکتے، مدمقابل حریف قوی و مضبوط ہے،فوج ان کی، پولیس ان کی، لوگ ان کے، ایڈمنسٹریشن ان کی۔ اگر یہ اور اس طرح کے بیانیے آپ قبول کرتے ہیں تو آپ کو ایک ناکام و نامراد لوگوں میں شمار کیا جائے گا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا سے چلنے جانے کے بعد یا آپ کا ذکر بطور خیر کیا جائے گا یا طنع و تشنیع کے طور۔
میلکولیم گلیڈویل نے ایک کتاب جس کا نام THE TIPPING POINT ہے میں لکھا ہے کہ:
" امریکا کی ایک جوتے اور چپل بنانے والی کمپنی نے افریقہ میں اپنی کمپنی کے برانڈز پھیلانے کے لیے وہاں اپنے کچھ لوگ تحقیق کے لیے بھیجے۔ وہ جب تحقیق کرنے کے بعد واپس لوٹتے ہیں تو کہتے ہیں کہ افریقہ میں لوگوں کو کھانے کے لیے کھانا نہیں، پینے کے لیے پانی نہیں، دنیا کی بنیادی ضروریات ان کے پاس نہیں تو وہ چپل اور جوتے کہاں سے خرید لیں گے۔ لہٰذا ہماری کمپنی کا برینڈ وہاں پر قائم نہیں ہوسکتا۔ چند سال بعد ایک اور دستہ بھیجا جاتا ہے۔ وہ بھی یہی تحقیق لے کے آتے ہیں جو پہلا گروہ لے کے آیا تھا۔ اس کے بعد ایک نوجوان اٹھتا ہے وہ کہتا ہے مجھے اجازت دیجئے میں تحقیق کر کے آتا ہوں۔ وہ افریقہ جاتا ہے اور پوری تحقیق کے بعد واپس آکر کہتا ہے کہ افریقہ میں جو سب سے مقدم ضرورت ہے وہ چپل یا جوتا ہے کیونکہ وہاں کی ریتیلی زمین بہت گرم ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا چلنا مشکل ہوتا ہے، پیر جل جاتے ہیں۔ کھانا کھانے کے لیے، پانی پینے کے لیے وہ بغیر چپل نہیں جا سکتے۔ تو ان کے کھانے اور پینے کی بنیادی ضروریات سے بھی زیادہ اہم پیروں کے نیچے چپل ہونا ضروری ہے تبھی لوگ باہر جاسکیں گے اور کمائی کریں گے۔ تو ایسی چپلیں بنانے کی ضرورت ہیں جو ان کے ڈیزائن اور قیمت کے مطابق ہو۔ جب اس نے اس بیانیہ کا چلینج کیا، اس تصور اور عام رائے کو چلینج کیا تو اس کے بعد ان کی کمپنی نے چپل اور جوتے بنانا شروع کیے تو دیکھتے دیکھتے وہ کمپنی ملینئر بن گئی۔ "
یہ دنیا کا بنیادی نقطہ ہے کہ چلینج کیجئے۔ یہ جو تصور ہے کہ فلاں بہت قوی و مضبوط ہے، خباثت کی کثرت ہے، اچھائی پنپ نہیں سکتی، ہر کوئی اپنی زندگی جی رہا ہے ،آپ تبدیلی کیسے لا سکتے، لوگ پولیس عملہ سب ان کی اور ان کی تھیلی میں ہے بالکل غلط ہے۔ یہاں سارے کے سارے لوگ بُرے نہیں ہیں اور نہ ہی برائی کی طرف میلان ہے بلکہ اچھے لوگ بھی ہیں۔ غلط کار لوگ اگربُرے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا سکتے ہیں، خباثت اور اپنی قوت کی دھونس بٹھا سکتے ہیں تو آپ بھی اچھائی کی پہچان بن کر اچھے لوگوں کو ہمنوا بنا سکتے ہیں۔جو لوگ سسٹم اور ایڈمنسٹریشن کے اہلکار ہیں ان میں بھی اچھے لوگ موجود ہیں آپ ان کو اپنے ساتھ لے سکتے ہیں، حتىٰ کہ غیر مسلموں کے اچھے طبیعت کے لوگ بھی آپ کے ہمنوا بن سکتے ہیں۔آپ کو وہ وکلاء اور ججز بھی ملیں گے جو انصاف کو چند سکوں میں بیچنے سے بہتر اپنی کرسی کو ہی چھوڑنے والے ملیں گے لیکن انصاف کی لڑائی لڑنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، آپ ذرا اٹھئے تو سہی یہ جو ملکوں کی قوموں کی دنیا کی لوگوں کی غلط اور منفی تصویر دکھائی جارہی ہے اس کا چلینج کیجئے۔ یہ بات یاد رکھیے آپ نے اگر اپنے قلم سے،اپنی زبان سے یا اپنے ذرائع ابلاغ میڈیا وغیرہ سے صرف برائی کی، جبروظلم کی، بے حیائی کی، جھوٹ اور خباثت کی، رشوت اور بددیانتی کی، عداوت و نفرت کی، لوٹ کھسوٹ کی، قتل و غارتگری کی، بدکردار اور بد اخلاق لوگوں کی تصویر کشی کی تو معاشرے میں موجود صالح عنصر غائب ہوتا جائے گا، صالحیت کی کونپل پھوٹنا دشوار ہو جائے گی، اچھے بھلے انسانوں کی عزت افزائی گھٹتی جائے گی اور وہ دوسروں کے لیے موٹیویشن یا محرک نہ رہیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے مسلم سماج میں بھی بہت سارے علماء اور پڑھے لکھے حضرات ایسے بھی ہیں جو دن رات ہر وقت بار بار میڈیا پر مسلمان نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں کی صرف منفی باتیں سنتے سناتے نہیں تھکتے، جیسے نہ ان کے پاس صالحیت ہے اور نہ صلاحیت، ساری برائیاں اگر کہیں ہیں تو وہ ہمارے جوانوں میں ہیں یا مسلم معاشرے میں، نہ قیادت کی اہل ہے اور نہ علمی تفوق گویا کہ خیر کی توقع ان سے نہیں کی جا سکتی۔حالانکہ دوسرا پہلو بھی جو اچھائی کی روشن مثال بننے کے قابل ہے ،اس کو چھپا یا جارہا ہے ورنہ وہ تصویر جو ہماری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہی ہے یا لائی جارہی ہے اتنی سچ نہیں جتنی بڑی شدومد کے ساتھ دکھائی جارہی ہے ۔بقول سید اقبال ظہیر، وہ لکھتے ہیں:
Twenty five percent population of Hague, the capital of European Union, is muslim. Most street hawkers in distant and cold countries-eg, Holland are muslim. Popular cafeterias in Britain have white customers flocking in from distant neighborhoods. That is a country in which seven mayors are muslim, including that of London. When thousands of young boys and girls were looting in London-for hours-not a single hijabi could be spotted.
یورپی یونین کے دارالحکومت ہیگ کی پچیس فیصد آبادی مسلمان ہے۔ دور دراز اور سرد ممالک میں زیادہ تر جو گلیوں اور سڑکوں میں اپنا سامان تجارت بیچتے ہیں مثلاً ہالینڈ میں وہ مسلمان ہیں۔ برطانیہ میں مشہور کیفے ٹیریاس میں دور دراز کے علاقوں سے سفید فام گاہک آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں سات میئر مسلمان ہیں ، بشمول لندن کے۔ جب ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں لندن میں گھنٹوں لوٹ مار کر رہے تھے۔ایک بھی حجابی کو نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔
تو اس طرح کی سینکڑوں مثالیں آج بھی موجود ہیں جو خیر اور اچھائی کا مجسمہ بن کر گندگی کے ڈھیر میں آج بھی ہیرے کی طرح چمک رہے ہیں اور بہترین مستقبل کی نوید اپنے ساتھ لیے ہوئے ہیں۔ ایک دن صرف ان اچھائیوں اور خیر کے مجسموں کو، باصلاحیت اور صالحیت کے عنصر کو اپنے قلم، زبان اور ذرائع ابلاغ میڈیا وغیرہ میں جگہ دیجئے تصویر کچھ اور ہی دِکھے گی، موجودہ بیانیہ صرف بیانیہ دِکھے گا حقیقت نہیں۔
یہ ہماری اولین ذمہ داری ہے لیکن یہ جو ذمہ داری ہے یہ وہی لوگ کامیابی کے ساتھ انجام دے سکتے جو ایک مثبت سوچ کے مالک ہوں، برائیوں کے طوفان میں اچھائیاں سمیٹنے کا ہنر جانتے ہوں، قوت و استبداد کے نشے میں مست لوگوں کو عصائے موسی سے زیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، نفرت کو محبت میں بدلنے کا گر جانتے ہوں۔ وہ لوگ نہ کبھی کامیاب ہوسکتے اور نہ ہی دنیا میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکتے جو صرف رونے دھونے والے ہوں،منفی سوچ رکھنے والے، اُمت کو مایوس کرنے والے ہوں، ڈر پوک قسم کے ہوں، مصائب و آلام کو دیکھ کر بلوں میں چھپنے والے ہوں، مشکلات کا سامنا کرنے سے کترانے والے ہوں۔
������