اس ترقی یافتہ دور میں ہر کام کوآسان بنانے کی جدوجہد جاری ہے ۔اس ضمن میں سائنس دانوں نے انقلابی ٹیکنالوجی کی مدد سے عام کمپیوٹر پر صرف چند منٹوں میں انسانی جینوم کی پروسیسنگ کا عمل انجام دیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اورفرانس کے پاسچر انسٹی ٹیوٹ نے مشتر کہ طور پر یہ ٹیکنالوجی وضع کی ہے ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف 20 فی صد وسائل استعمال ہوتے ہیں لیکن جینوم پڑھنے کا کام 100 گنا تیزرفتار سے ہوتا ہے۔
اس طرح ایک جدید لیپ ٹاپ پر پورا جینوم اور میٹا جینوم معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس کی بدولت معدے کے خردنامیوں اور اس سے وابستہ بیماریوں کی فوری طور پر جینیاتی وجوہ معلوم کی جاسکتی ہیں۔
واضح ر ہے کہ 2003 میں جب پہلا انسانی جینوم پڑھا گیا تھا تو اس میں دس برس لگے تھے اور دو ارب 70 کروڑ ڈالر خرچ ہوئےتھے۔ اب ایم آئی ٹی اور پاسچر کے ماہرین نے پھل مکھی یعنی ڈروزوفیلا کے جینوم کو پڑھا اور دوسری جانب پہلے سے موجودانسانی جینوم کے پورے ڈیٹا کو پروسیس کیا۔
انہوں نے ایم ڈی بی جی سافٹ ویئر پرکام کیا تو روایتی طریقوں سے 33 گنا کم وقت خرچ ہوا اور میموری بھی 8 گنا کم خرچ ہوئی ،پھر انہوں نے اپنا تیارکردہ سافٹ ویئرآزمایا، جس میں 661406 بیکٹیریا کے جینوم پڑھے گئے ،جس کا ڈیٹا بہت ہی بڑا تھا۔ اس ٹیکنالوجی سے پورا ڈیٹا 13 منٹ میں سرچ کرلیا گیا جب کہ روایتی طریقوں سے اس میں سات گھنٹے کا وقت لگ سکتا تھا۔ اس میں غلطی کا امکان صرف ایک فیصد ہے ۔
دریں اثناکمپیوٹر بننے والی کمپنی نے دنیا کا سب سے طاقتور کوانٹم پروسیسر تیار کیا ہے ۔ جسے ایگل کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی پروسیسنگ رفتار 127 کوانٹم بٹس (کیوبٹس) ہے۔توقع ہے کہ اس اہم پیشرفت سے انتہائی تیزرفتار کوانٹم کمپیوٹر کی تجارتی تیاری کی راہ کھلے گی۔اس کے برخلاف کوانٹم کمپیوٹروں میں کیوبٹ صفر اور ایک کے درمیان ہوسکتی ہے لیکن ایک ہی وقت میں دونوں کیفیات میں بھی ڈیٹا رکھا جاسکتا ہے۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ڈیٹا پروسیسنگ کے لامحود آپشن کھل سکتے ہیں۔ اب 127 کیوبٹس ایگل کو دنیا کا طاقتور ترین کوانٹم پروسیسر قرار دیا گیا ہے ۔
2.0کوانٹم کمپیوٹروں کو کمپیوٹنگ کا مستقبل قرار دیا جارہا ہے جنہیں کوانٹم فزکس کے اصولوں پر بنایا جاتا ہے۔ اس سے کمپیوٹنگ کو نئی بلندیوں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ کمپنی نے چپ کے پورے آرکیٹیکچر کو نئے سرے سے بنایا ہے ۔ پروسیسر میں کوبٹس کو ایک ہی سطح (سنگل لیئر) پر رکھا گیا ہے ۔ اس سے غلطیوں میں کمی ہوجاتی ہے اور کنٹرول وائرنگ کئی طبعی سطحوں پر پھیل جاتی ہے۔
اگر روایتی کمپیوٹر کو ایگل کوانٹم کمپیوٹر کی طرح بنایا جائے تو اس کے لئے دنیا کے ہر فرد کے جسموں میں موجود ایٹم کے برابر ذرّات درکار ہوں گے۔ کمپنی کے مطابق یہ کوانٹم کمپیوٹنگ کے شعبے میں کسی انقلاب سے کم نہیں اور اسے ماہرین نے کوانٹم مفاد (ایڈوانٹیج) کا نام دیا ہے۔