ڈاکٹر ابرار رحمانی
آج مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک چور اپنی جان بچانے کے لیے چور چور کہتا ہوا خود اسی بھیڑ میں بڑی چالاکی سے شامل ہو گیا۔ بھیڑ جو اس چور کا پیچھاکررہی تھی وہ بھی اس چالاکی نہ سمجھ سکی۔اس طرح نہ صرف وہ اپنی جان بچانے میں کامیاب رہا بلکہ دوسروں کو بے وقوف بنانے میں بھی کامیابی حاصل کرلی۔
ہم آئے دن ایک دہشت گرد کو اسی چور کی شکل میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔آج دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ملک امریکہ اور سب سے بڑا دہشت گرد شخص امریکہ کا صدر مملکت ہے۔اس کہانی پر انتہائی کامیابی سے ہر دہشت گرد عمل پیرا ہے۔ انھوں نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے انتہائی چالاکی سے لوگوں کے ذہن میں اسلام ایک دہشت گرد مذہب اور مسلمان ایک دہشت گرد قوم کے طور پر نقش کر دیا۔ چنانچہ آج اسلامی دہشت گردی ایک اصطلاح کے طور پر چل پڑی ہے۔ اس میں امریکہ کی چالاکی اور عیاری ومکاری اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کی بے وقوفی ، جذباتیت اور وقت سے ناآشناسی نے اس مفروضے کو ہوا دی اور تقویت بخشی ہے جوجگ ظاہر ہے۔
چور بھیڑ میں شامل ہوکر اپنی جان بچاگیا اور دنیا ہے کہ اب تک چور چور چلائے جا رہی ہے اور ہم چور نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے عمل و حرکت سے خود کو چور ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ پچھلے کچھ دنوں سے ہم مسلمان دہشت گردی مخالف جیسے جلوس کرکے بلاوجہ صفائی دیتے پھررہے ہیں کہ ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ یہ ہم بھی جانتے ہیں اور انصاف پسند دنیا بھی جانتی ہے کہ دہشت گرد ہم نہیں دہشت گرد وہ ہے جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے دنیا کو تہہ وبالا کیے ہوئے ہے۔وہ کبھی افغانستان پر حملہ کرتا ہے، تو کبھی عراق پراور کبھی ایران کو دھمکی دیتا ہے اور کبھی شام کو ۔ اور ہم ہیں کہ جب افغانستان پر حملہ ہوتا ہے تو اس دہشت گردی کا چپ چاپ مشاہدہ کرتے ہیںاور جب عراق پر حملہ ہوتا ہے تو ہم اپنی زبانیں بند رکھتے ہیں۔ اب فلسطین کی تباہی کے ساتھ لبنان، ایران اور یمن وغیرہ پر حملے کرنے اور اس کو برباد کرنے کی جارہانہ ہائو بھائوکا اظہار کیا جارہاہے ۔
جھوٹی طاقت، جھوٹی شان وشوکت اورجھوٹے باپ کی شہ پر اس بار اسرائیل نے لبنان سے بھی پنگا لے لیاہے اور ایران کو بھی آنکھ دکھانے کی مضموم کوشش کی ہے۔ ویسے تو فلسطینیوں کا قتل و خون اور غارت گری عرصے دراز سے ہوتا چلا آرہا ہے۔جس میں لاکھوں لوگ مارے جاچکے ہیں اور ایسابھی نہیںہے کہ ان مرنے والوں میں صرف مسلمان ہی ہوں۔ بلکہ اس میں یہودی، صہیونی بھی بڑی تعداد میں مارے جارہے ہیں۔ لبنان کے وزیر اعظم نجیب میقاتی کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کی یہ جارجیت ہر لحاظ سے تباہی اور بربادی کی جنگ ہوگی۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ اور بااثر ممالک صہیونی فوجی حملہ روکیں۔ نجیب میقاتی کے قربان جائیے کہ شاید وہ ابھی عالمی سیاست میں نووارد ہوں۔ حالانکہ وہ ایک ملک لبنان کے وزیر اعظم ہیں اور اب تک امریکہ اوراس کی لے پالک اولاد اسرائیل کو ابھی تک نہیں سمجھ سکے ہیں۔ امریکہ کے صدر بائیڈن اس تباہی و بربادی کے بیچ فرمارہے ہیں کہ’ مشرقی وسطیٰ میں تنازعہ کے پھیلائو کو روکنے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ‘لیکن ساتھ ہی بائیڈن کی یہ حرکت بھی دیکھتے چلئے کہ وہ دامے، درہمے، قدمے، سخنے اسرائیل کی مدد بھی کررہے ہیںجو اس خونی منظر کو مزید ہولناک بنارہی ہے۔ادھر دوسری طرف امریکہ نے غزہ اور لبنان میں قتل و غارت گری کے لیے اسرائیل کو مزید ۸؍اعشاریہ ۷؍ارب ڈالر کی مدد بھی کی ہے۔یعنی آپ اپنے سوا دوسروں کو آنکھوں سے اندھا اور دماغ سے اپاہج سمجھتے ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل عذرلنگ دیتے ہیں کہ’ کوئی فریق بھی جنگ بندی میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے‘ قربان جائیے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے۔ کب تک سکریٹری جنرل اقوام متحدہ کو امریکہ کایرغمال بناکر رکھے گا۔
دنیا کا سب سے زیادہ بااثر مانا جانے والا یہ ادارہ آج سب سے زیادہ بے اثر اوربے قعت ہو کر رہ گیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ امریکی صدر کا کوئی ذاتی ادارہ ہو جو صرف اور صرف امریکی صدر کے مفاد کے لیے اس کے اشارے پر کام کرتا ہے اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل ہمیشہ اس پوزیشن میں دست بستہ کھڑے نظر آتے ہیں کہ جوں ہی صدر محترم کی طرف سے اشارہ ہو اور وہ اس کی تعمیل میں دوڑ پڑیں۔ لہٰذا اب اس کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل نے بھی اقوام متحدہ کے سربراہ کو ناپسندہ قرار دے دیا ہے۔
دراصل اس وقت صدر بائیڈن پروکسی وار میں مصروف ہیں۔ وہ اس جنگ میں اسرائیل کی پوری مدد کررہے ہیں۔ غیرت قومی حمیت میں اب حزب اللہ بھی اسرائیل سے دو دو ہاتھ کرنے کے ارادے سے جنگ میں کود پڑا ہے۔ اب حزب اللہ اسرئیل کے کئی شہروں میں اور فوجی ٹھیکانوں پر میزائل اور راکٹوں سے حملے کررہے ہیں اوریہ صورت حال دونوںطرف سے ہے۔یعنی دونوں طرف سے خونی جنگ جاری ہے اور صورت حال روزبروز بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے اور امن و سلامتی کے عالمی ادارے صرف تماشہ دیکھ رہی ہے اور جنگی قہر میں روز و شب انسانیت تار تار ہوتی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امن و سلامتی کی بات کرنا اب صرف بھاشن بازی ہو کررہ گیا ہے۔اس جنگ میں پوری دنیا کافی تیزی سے دو دھڑوں میں بٹتی جارہی ہے۔ کیا ہم پھر سے عالمی جنگ کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں، اگر ایسا ہے تو پھر پوری دنیا ایک بار پھر تباہی کی آتش میںبرباد ہونے کے لیے تیار ہوجائے۔
حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف اب باضابطہ اعلان جنگ کردیا ہے۔اس جنگ میں اس نے اسرائیل کو کافی نقصان پہنچا یا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس نے اپنے سب سے بڑے لیڈر حسن نصراللہ کو کھودیا جو حزب اللہ کے لیے ایک بڑا خسارہ ہے وہ ایک لمبے عرصے حزب اللہ کی سربراہی کر رہے تھے۔ اسرائیل اس جنگ میں ان سے قبل حریت پسند فلسطینی رہبر اور حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ اور ایران کے سپریم رہنما کے جانشیں ابراہیم رئیسی کو شہید کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یہ انٹلیجنس بڑی ناکامی ہے جو کسی بھی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بڑارخنہ ہے۔
ایران ، لبنان، یمن اورعراق سے چوطرفہ حملہ کیا گیا جس میں اسرائیل کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا تواب اسرائیل کو ہر آن اپنے اوپرسوتے جاگتے خطرات منڈلاتے نظر آرہے ہیں اور خوف کا یہ عالم ہے کہ نتن یاہو ایرانی حملے سے خوفزدہ اور لرزہ براندام ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے اپنی پسپائی کو دیکھتے ہوئے مکارانہ بیان دینا شروع کردیا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے کہا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں لیکن دنیا ہم سے نفرت کرتی ہے۔ شکر ہے کہ اس نے حقیقت کا اعتراف تو کیا۔
ادھر سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اسرائیل شب و روز مسلمانوں کی جان مال کو تاراج کررہا ہے اور وہ خاموش اس دل دہلانے والے حالات کا نظارہ کررہے ہیں۔ اس بے حسی کے اسباب و علل کی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کی بداعمالی ،عیاشی اوربزدلی روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ایسے وقت میں جنگ فلسطین کی صورت حال کو لے کر پوری دنیا کے مسلمان بے چین و بے قرار ہیں اور ایسے وقت دبئی کے تاجر جمال النادک نے صرف اس لیے پورا جزیرہ خرید لیا تاکہ اس کی بیوی ساحل سمندر پر بلا جھجھک بکنی پہن سکے۔ شاید اقبال نے جواب شکوہ کے اس شعر میں اسی درد کو بیان کیا ہے:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اسرائیل اور امریکہ کی نظر اس وقت ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے تباہ وبرباد کرنے پر ہے اور یہ دنیا کے انصاف پسندوں کے لیے بڑی چنوتی ہے۔
رابطہ۔9911455508
[email protected]