سوموار کی شام کھنہ بل اننت ناگ میں امر ناتھ یاتریوں کی ہلاکت کے دلدوز واقع پر پوری وادی کشمیر سوگوار ہے اور ہر دل میں اسکا درد محسوس کیا جا رہا ہے اور زبانیں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اسکا اظہا ر کر رہی ہیں۔سیاسی صف بندیوں سے ماوریٰ ہو کر مین اسٹریم اور مزاحمتی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی کی جانب سے جس زور دار طریقے سے ان ہلاکتوں کی مذمت کی جارہی ہے، وہ اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ کشمیری قوم ایسے واقعات کو ہر گز قبول کرنے کے لئے تیار نہیں جو انکی مذہبی رواداری اور تہذیبی و تمدنی روایات کے خلاف ہوں۔ ہلاکت خیز واقعہ، جس میں6خواتین سمیت7بے گناہ افراد کی موت واقع ہوئی جبکہ دیگر گیارہ زخمی ہو گئے، نہایت ہی دلدوز او رانسانیت سوز ہے اور مختلف حلقوں خاص کر سیاسی جماعتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس پر سیاست کرنے سے گریز کرتے ہوئے ایک متحدہ طرز فکر اختیار کریں، تاآنکہ بے گناہوں کی جانوں کا زیاں عمل میں نہ آئے، نیز حکومت کو بھی اُن انتظامات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے ، جو یاترا کی حفاظت سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی سطح پر متعدد حلقے اس رنجدہ سانحہ پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کرینگے لیکن غم انگیز صورتحال کا تقاضا ہے کہ ایسی کوششوں کی کوئی پذیرائی نہیں کی جائے ، بلکہ سیاسی جماعتوں کو بیٹھ کے سرجوڑ کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہوپائے۔ ایسی حالت میں سیاسی اور انتظامی سطح پر سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ اُجاگر ہو جاتی ہے۔ اگر چہ حکومت کے پاس یاترا کے انتظامات اور حفاظت کا ایک مکمل لائحہ عمل موجود ہے لیکن اس کے باوجود ایسی صورتحال کیوں پیش آئی، اس پر کُھلے دل و دماغ سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور جہاں کہیں پر کسی قسم کا جھول ہو اُسے دو رکیا جانا چاہئے۔ اگر چہ حکومت نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مذکورہ بس، جس میں یاتری سوار تھے، اُن اوقات سے ہٹ کر محو سفر تھی، جنکے دوران یاترا گاڑیوں کے عبو و مررور کی خاطر خصوصی سیکورٹی کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ حالانکہ عام حالات میں کانوائے یاترا بیس کیمپ سے روانہ ہوتی ہے لیکن مذکورہ گاڑی کانوائے سے باہر کیسے تھی، اسکا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، نیز اس امر کی بھی جانچ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ایسی گاڑیوں میں بھی یاتریوں کی آمد رفت ہو رہی ، جو متعلقہ ایجنسی کے ساتھ یاترا کے لئے رجسٹر نہیں ہیں۔حفاظتی انتظامات کے لئے اس طرح کے مختلف زاویوں پر غور کیا جانا چاہیے۔ امرناتھ یاترا برسہابرس سے جاری ہے اور کشمیری عوام نے من حیث الاقوم اسکا استقبال کرنے میں کبھی بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے، بلکہ جب بھی یاتریوں کو کسی وقت مشکلات درپیش آ ئیں تو لوگوںنے بڑھ چڑھ کر ان کی مشکلات کا ازالہ کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ 1990کی دہائی میں جب حالات انتہائی دگر گوں تھے، یاترا بغیر کسی خلل کے جاری رہی اور 2008میں امرناتھ لینڈ ایجی ٹیشن کے دوران، جب سرکاری نظام کم و بیش معطل ہو کر رہ گیا تھا، طویل ہڑتالوں میں کشمیری عوام نے شاہراہوں پر لنگر لگا کر بھوکے پیاسے یاتریوں کی پذیرائی کی۔ گزشتہ برس بھی کرفیو کے دوران بجبہاڑہ میں یاتریوں کی ایک گاڑی کو حادثہ درپیش آنے کے دران نوجوانوں نے کرفیو میں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اور خون کا عطیہ دے کر متعدد یاتریوں کی جانیں بچائیں۔ کشمیر اور کشمیریوں کا مزاج اور روایت یہی رہی ہے اور اس پر ہمیشہ فخر کیا جائے گا۔ آج اس نوعیت کا خونخوار واقع کیوں پیش آیا، اس پر ریاستی و مرکزی سرکار کے ساتھ سبھی سیاسی و سماجی حلقوں کو سنجیدگی کے ساتھ غو ر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مستقبل میں ایسےواقعات کا سدباب ہوسکے۔فی الوقت ریاست کے اند ر اور باہر عوام الناس کے اعتماد کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور اس امر کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس دل دوز اور قابل مذمت واقع کے نام پر کہیں پر بھی کوئی حالات کو بگاڑنے کی کوشش نہ کرے۔