دفعہ370اور 35 اے کی منسوخی کے 2سال مکمل،سیاسی جماعتوں کا ملاجُلا ردعمل

  جموں وکشمیر نے حقیقی جمہوریت دیکھی: جے شنکر

سری نگر//وزیرخارجہ سبرامنیم جے شکرنے کہاہے کہ دفعہ370کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر نے حقیقی جمہوریت دیکھی ہے۔ وزیرخارجہ نے خصوصی آئینی پوزیشن کی تنسیخ اورجموں وکشمیرکی تقسیم وتنظیم نوکے 2سال مکمل ہونے کے موقعہ پرکہاکہ مرکزی علاقہ جموں وکشمیر نے دفعہ370کی منسوخی کے بعد’ حقیقی جمہوریت ، ترقی ، اچھی حکمرانی اور بااختیاری‘دیکھی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پچھلے2 برسوںنے ہندوستان  کی وحدت اور سا  لمیت کو مضبوط بنانے میں مدد کی ہے۔نیا جموں کشمیر کے ہیش ٹیگ کے ساتھ جے شنکر نے ٹویٹ کیا ’جموں و کشمیر نے پچھلے2سالوں میں حقیقی جمہوریت ، ترقی ، اچھی حکمرانی اور بااختیاری دیکھی ہے۔جے کے این ایس کے مطابق اس کے نتیجے میں ہندوستان کی وحدت اور سالمیت بے حد مضبوط ہوئی ہے۔وزیر مملکت برائے امور خارجہ میناکشی لیکھی نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے تاریخی اقدام نے جموں و کشمیر میں امن اور ترقی کا دور شروع کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ 2 سال قبل اس دن آرٹیکل370 منسوخ کیا گیا تھا۔ تاریخی اقدام جموں و کشمیر میں امن اور ترقی کا دور لے کر آیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی جی اور امیت شاہ جی کی قیادت میں ہم جموں کشمیر کی تشکیل کے گواہ ہیں۔وزیر خارجہ اور وزیر مملکت کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان مسئلہ کشمیر پر بھارت کے خلاف حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم کے مستقل انسانی حقوق کمیشن کی ٹیم کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دورے کی دعوت دی ہے۔
 
 

 پاکستان کی اعلیٰ قیادت کی بھارت پر تنقید

اسلام آباد//پاکستانی وزیر اعظم عمران خان، صدر عارف علوی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت پاکستان کی اعلی قیادت نے جمعرات کو بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی دو سال قبل کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے پر تنقید کی اور کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔بھارت کی پارلیمنٹ نے 5 اگست 2019 کو دفعہ 370کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا اور اسے دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ بھارت کے فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستان نے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کم کر کے تجارتی تعلقات بھی معطل کر دئیے۔بھارت نے کہا ہے کہ بھارتی آئین کے دفعہ370 سے متعلق مسئلہ مکمل طور پر ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔بھارت نے پاکستان سے کہا ہے کہ جموں و کشمیر ملک کا اٹوٹ انگ ہے ، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔5اگست 2019 کے بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو 2 سال ہو گئے ہیں۔ان 2 برسوں میں دنیا نے ظلم و ستم کا مشاہدہ کیا ہے ۔ عمران خان نے بھارت پر خطے کی آبادی کو تبدیل کرنے کی کوششیں کرنے کا الزام لگایا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے لئے ہر فورم پر آواز بلند کرتا رہے گا۔پاکستانی صدر عارف علوی نے کشمیریوں کی حمایت میں ایک ریلی میں شرکت کی اور بعد ازاں شرکا ء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا رہے گا‘۔انہوں نے کہا کہ بھارت آگ سے کھیل رہا ہے اور علاقائی امن و استحکام کو تباہ کر رہا ہے۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گا جب تک کہ نئی دہلی 5 اگست 2019 کے اپنے فیصلے کو واپس نہیں لیتی۔فوج کے ایک بیان کے مطابق جنرل باجوہ نے الزام لگایا کہ بھارت کشمیری عوام کو ’فوجی محاصرے‘میں رکھے ہوئے ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ’تنازعہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق خطے میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیر اطلاعات فواد چوہدری ، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز ، وزیر ریلوے اعظم سواتی اور حکومت اور معاشرے کے دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ ریلی میں شامل ہوئے۔اس موقعہ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پوری پاکستانی قوم اور کشمیری عوام 5 اگست 2019 کے بھارتی حکومت کے ’غیر قانونی اور یکطرفہ‘اقدامات کو مسترد کرتے ہیں اور کشمیریوں کے جائز مقصد کی حمایت جاری رکھیں گے۔
 
 

اب کشمیر میں پتھر باز کہیں نظر نہیں آتے:ترن چگھ

سرینگر//دفعہ 370 کی منسوخی کی دوسری برسی پر بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری ترون چگھ نے کہاہے کہ بھاجپانے وادی میںایسا ماحول بنایا ہے کہ اب پتھر مارنے والے کہیں نظر نہیں آتے اور نہ ہی ان کے تخلیق کار آج کہیںکھڑے ہیں۔ترن چگھ، جو جموں و کشمیر کے پارٹی انچارج بھی ہیں ، نے سرینگر میں جمعرات کو کہا کہ ان کی پارٹی نے کشمیر کو سیاحت سے مالا مال کیا ہے جبکہ یہاں کے نوجوان اب اپنا کاروبار کرتے ہوئے پتھر نہیں پھینکتے۔انہوں نے کہا کہ اب جموں و کشمیر کو روکنا نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں سیاحت کا دارالحکومت بننا ہے۔انہوںنے کہا کہ ’ہم نے کشمیر میں ہر گھر کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے‘۔دریں اثنا ترن چگھ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ جموں و کشمیر کے یونین آف انڈیا کے ساتھ انضمام کے فوائد پہلے ہی لوگوں تک پہنچنے لگے ہیں، جموں و کشمیر کی خواتین اب جائیداد خرید سکتی ہیں اور بچوں کو جائیداد منتقل کر سکتی ہیں ، چاہے وہ غیر رہائشی سے شادی شدہ ہوں۔انہوں نے کہا دفعہ 370 پر کارروائی کے بعد جموں و کشمیر کو سیکورٹی کے ایک نئے احساس سے متاثر کیا گیا ہے۔ سیکورٹی کی بہتر صورتحال کے ساتھ  تخریب کاری کے واقعات 2019 میں 594 سے کم ہو کر 2020 میں 244 رہ گئے ہیں۔دریں اثنا بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے بی جے پی حکومت کے 5 اگست کے فیصلے پر جشن منایا کیونکہ اس دن جموں و کشمیر کو ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت کو منسوخ کردیا۔
 
 

 سبھی اضلاع میںٹریفک معمول کے مطابق چلتا رہا،کاروباری و تجارتی مراکز بھی کھلے رہے

یو این آئی
 
سرینگر// مرکزی حکومت کے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کی دوسری برسی کے موقع پر جمعرات کو گرمائی دارلحکومت سر نگر میں جزوی ہڑتال رہی۔اس دوران پولیس نے مبینہ طور پر تجارتی مرکز لالچوک میں دکانوں کے تالے توڑ کر دکانداروں کو دکان کھولنے پر مجبور کیا۔موصولہ اطلاعات کے مطابق سرینگر کے بیشتر علاقوں میں جمعرات کو بازار بند رہے تاہم سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی نقل و حمل جاری رہی۔شہر کے سول لائنز علاقوں بشمول لالچوک، بڈشاہ چوک اور مائسمہ میں تجارتی سرگرمیاں متاثر رہیں جبکہ پائین شہر کے بیشتر علاقوں بشمول جامع مسجد، نوہٹہ اور گوجوارہ میں بھی دکان اور دیگر تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں تاہم سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی نقل و حمل جاری تھی۔شہر کے دیگر علاقوں بشمول مضافاتی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں حسب معمول جاری تھیں۔موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے دیگر اضلاع میں کہیں جزوی تو کہیں معمولات زندگی حسب معمول جاری تھے ۔لالچوک میں جزوی طور دکانیں بند تھیں جبکہ رعناواری اور خانیار علاقے میں دکانیں کھلی تھیں۔ البتہ پائین شہر میں کاروباری و تجارتی سرگرمیاں متاثر رہیں۔پولیس اور سیکورٹی فورسز نے جگہ جگہ ناکے لگائے تھے اور کسی بھی صورتحال کا توڑ کرنے کیلئے سیکورٹی کے کڑے انتظامات کئے گئے تھے۔رام باغ، صنعت نگر، چھانہ پورہ اور سیول لائنز کے دوسرے علاقوں میں معمول کا کاروبار ہوتا رہا۔ اسی طرح کی صورتحال دیگر اضلاع میں تھی۔بعض میڈیا پورٹس کے مطابق پولیس نے پانچ اگست 2019 کے فیصلوں کی دوسری برسی کے موقع پر دکانداروں کو دکان کھلے رکھنے کو کہا تھا۔انہوں نے بتایا کہ جب پولیس نے سری نگر میں جمعرات کو دکان بند دیکھے تو انہوں نے مبینہ طور پر بند دکانوں کے تالے توڑنے شروع کئے اور دکانداروں کو دکان کھولنے پر مجبور کیا۔کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچررس فیڈریشن کے جنرل سکریٹری بشیر احمد نے ایک قومی نیوز پورٹل کو بتایا: 'پولیس نے سرینگر میں دکانداروں سے کہا کہ پانچ اگست کو دکان کھلے رکھنا اور اس دن کسی قسم کا کوئی احتجاج نہ کرنا'۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگوں کے خلاف ایک نفسیاتی جنگ ہے اور اس جنگ کا مقصد یہ ہے کہ لوگ پانچ اگست کو کوئی احتجاج نہ کریں۔ادھر کسی بھی اضلاع میں ہڑتال نہیں کی گئی۔سبھی اضلاع میں معمول کا کاروبار ہوتا رہا اور ہر طرح کی سرگرمیاں جاری رہیں۔
 
 

آئینی خلاف ورزیاں پتھربازی سے بڑا جرم: خالدہ شاہ 

سرینگر//عوامی نیشنل کانفرس کی صدر بیگم خالدہ شاہ نے کہا ہے کہ پتھراؤ سے بڑا جرم آئین کی خلاف ورزیاں ہیں اور خصوصی دفعات کی منسوخی پر بھاجپا کا جشن منانا کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ کے این ایس کے مطابق ایک بیان میں بیگم خالدہ شاہ نے دفعہ370اور35Aکے خاتمہ کی دوسری برسی پر کہاکہ بی جے پی نے 5اگست 2019کوجو غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر قانونی فیصلہ لیا اُس نے ملک کے آئین ، عدالت عظمیٰ اور پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ بی جے پی بندوق کے سائے میں جو خوشیاں منارہی ہیں،وہ ہنسنے کے قابل ہیں اور یہ عام کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ بیگم خالدہ شاہ نے کہاکہ لوگوں کے آئینی حقوق کو ختم کرنے کیلئے موجودہ حکومت نے جو سخت غیر جمہوری اور غیر آئینی مؤقف اختیار کیا ہے، وہ عروج پر پہنچ گیا ہے ۔انہوںنے کہاکہ5اگست2019کی آئینی تباہی کیخلاف اپنے آپ شٹ ڈائون اور انتظامیہ کی طرف سے کاروباری و تجارتی طبقہ کو زبردستی اپنے ادارے کھولنے کیلئے خطرناک نتائج بھگتنے سے کشمیر میں زمینی حالات کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے اور عوامی نیشنل کانفرنس ریاست کے ان اقدامات کی سخت مذمت کرتی ہے۔ عوامی نیشل کانفرنس صدر نے پوچھا کہ ’’بھاجپا اوراُس کی گودی میڈیا ملک کے عوام کے سامنے کشمیر کی جو صورتحال دکھا رہی ہے،وہ زمینی سطح پر سراسراس کے برعکس ہے۔ انہوںنے کہاکہ ’ترقیاکہاں ہیں؟ نوکریاں کہاں ہیں؟تعمیراتی پروجیکٹ کہاں ہیں؟ نوجوان کیوںمایوں ہیں؟ کیوں کشمیر ایک پولیس سٹیٹ میں تبدیل ہوئی ہے جہاں ہر جگہ ہراسانی ہے‘‘؟بیگم خالدہ شاہ نے کہاکہ جموںوکشمیر کے لوگوں کے دکھ و درد کو سمجھنے کیلئے وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کیلئے یہ موزوں وقت ہے۔ انہوںنے کہاکہ ملک کے آئین کے تحت جموںوکشمیر کو جو آئینی حقوق فراہم کئے گئے ہیں، انہیں جلد بحال کیا جائے جو بہتر ہوگا، دفعہ370اور35Aبلا لحاظ مذہب و ملت جموںوکشمیر اورلداخ کے خطوں کے لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ خالدہ شاہ نے کہا کہ جموں وکشمیر اور لداخ ریاست کے لوگوں تاریخی، سیاسی ، سماجی اور سیکولر پس منظر پر فخر ہے۔ 
 
 

وقت آئیگا حکومت کو اپنی غلطی کااحساس ہوگا: سوز 

سرینگر//وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک وقت یہ یقین ہو گا کہ اُن کی حکومت نے آئین ہند کی دفعہ 370 کو منسوخ کر کے ایک بڑی سیاسی غلطی کا ارتکاب کیا ہے، کی بات کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیرپروفیسر سیف الدین سوزؔ نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے اس بات کا تہیہ کیا ہے کہ وہ اپنی داخلی خود مختاری کی ترجمان دفعہ 370 کی بحالی کے سلسلے میں اپنی جدوجہد جاری رکھیںگے۔ایک بیان کے مطابق پروفیسر سیف الدین سوزؔ نے کہا ۔’’میرا یقین ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک وقت یہ یقین ہو گا کہ اُس کی حکومت نے آئین ہند کی دفعہ 370 کو منسوخ کر کے ایک بڑی سیاسی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔جموں و کشمیر کے لوگوں نے اس بات کا تہیہ کیا ہے کہ وہ اپنی داخلی خود مختاری کی ترجمان دفعہ 370 کی بحالی کے سلسلے میں اپنی جدوجہد جاری رکھیںگے۔ اُن کو یہ بھی یقین ہے کہ اُن کی تحریک ضرور کامیاب ہو جائے گی‘‘۔انہوںنے کہا کہ اس سلسلے میں جموںوکشمیر کے لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ لوگوں کی زندگی میں اُتار چڑھائو آتے رہتے ہیں ،لیکن عوامی زندگی میں سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وہ سیاسی مقصد کیلئے سرگرم عمل رہیں ، گویا زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ لوگوں کی سیاسی زندگی میں کون سی تحریک اہم ہے اور اُسی کے حصول کیلئے وہ سرگرم عمل رہتے ہیں۔اس پس منظر میں لوگ آئین ہند کی دفعہ 370 یعنی اپنی داخلی خود مختاری کی بحالی کو ضروری سمجھتے ہیں اور اُسی کے حصول کیلئے وہ سرگرم عمل رہیںگے۔
 
 

عوام پر دور رس اثرات کا پڑنا عیاں:قیوم وانی 

سرینگر//سول سوسائٹی فورم کے چیئرمین عبدالقیوم وانی نے 5اگست 2019 کے فیصلوں کو جموں و کشمیر کی تاریخ کا ہولناک فیصلہ قرار دیا جس نے لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالوںکو جنم دیا ہے۔ ایک بیان میں قیوم وانی نے کہا کہ بھارتی آئین کے دفعہ370 کو منسوخ کرنے کے 2 سال بعد جموں و کشمیر کے عوام الجھن اور ذہنی انتشار کی حالت میں ہیں کیونکہ 5 اگست 2019 کو لیا گیا فیصلہ غیر جمہوری اور غیر آئینی تھا۔انہوں نے کہا کہ جب لوگ ہندوستان کے بانیوں کی طرف سے کئے گئے وعدے کی تکمیل کا انتظار کر رہے تھے لیکن اس کے برعکس حکومت نے دفعہ 370اور 35Aکو منسوخ کرکے ریاست کے عوام کو اجتماعی طور پر سزا دی۔وانی نے کہاکہ دفعہ 370اور 35 A بھارتی آئین کا حصہ تھا اور سیاسی میدان کے علاوہ یہ آرٹیکل سماجی ، ثقافتی ، اقتصادی اور مقامی ورثے اور اس سے وابستہ پہلوں کی حفاظت کرتا ہے۔ 5 اگست 2019 کو اس دفعہ کو منسوخ کرنے کے بعد جموں وکشمیر میں بہت ساری تبدیلیاں آئیں جس کا عوام پر دوررس نتائج کا پڑنا عیاں ہیں۔
 
 

یکطرفہ فیصلے نے مسئلہ کشمیر کومزید پیچیدہ بنایا:حریت(ع) 

سرینگر//حریت (ع)نے حکومت ہند کی جانب سے یکطرفہ طور پر اورآمرانہ اقدامات کے ذریعہ خود بھارت کے ہی آئین کے تحت جموںوکشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت دفعہ 370 اور35 A کو منسوخ کرنے اور ریاست جموںوکشمیر کو 2 یونین ٹریٹری میں تقسیم کرنے کے نتیجے میں جموںوکشمیر کی متنازعہ حیثیت کو زک پہنچانے کی کوششوں کی دوسری برسی کے موقعہ پر اپنے بیان میں اس کیخلاف ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شدید برہمی اور مخالفت کا اظہار کیا ہے ۔بیان میں بھارت سمیت بین الاقوامی برادری کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی گئی کہ حکومت نے 5 اگست2019 میں کئے گئے اقدامات سے جموںوکشمیر تنازع کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے جس کا اظہار چین کے ساتھ لائن آف ایکچول کنٹرول یعنی LAC پر محاذ آرائی کی صورتحال ہے جبکہ LOCپر جنگ بندی معاہدے پر عمل سے قدرے سکون ملا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ حکومت مسلمہ عوامی آواز اور قیادت کو نظر بند اور پابند سلاسل کرکے عوام کے حقوق کو نہ صرف پامال کررہی ہے بلکہ انہیں طاقت کے بل پر ڈرانے اور دھمکانے کا عمل جاری ہے ، کالے قوانین کے بل پر گرفتاریوں کا سلسلہ برابر جاری ہے ،آزادانہ طور پر پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے حوالے سے میڈیا پر قدغن ہے اور ملازم پیشہ افراد کا مستقبل مخدوش ہے کیونکہ انہیں جبرا ًبرطرف کیا جارہا ہے ۔حریت(ع) نے کہا کہ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اگست 2019 سے قبل نئی دہلی صرف کشمیر میں ہی شدید عوامی مزاحمت کا سامنا کررہی تھی لیکن اب اسے چوطرفہ مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے ۔ لیہہ، کرگل اور جموں میںشدید بے اطمینانی اور بے چینی پائی جارہی ہے اور وہ بھی اس فیصلے کیخلاف صف آرا ہو رہے ہیں۔حریت(ع)نے یہ بات زور دیکر کہی کہ حکومت ہند کو اصل حقائق کا ادراک کرتے ہوئے جموںوکشمیر کے متنازعہ مسئلہ کو حل کرنے کیلئے حقیقی قیادت جو عوامی خواہشات کی نمائندگی کرتی ہے کے ساتھ مذاکرات کیلئے راہ ہموار کرنی چاہئے۔اس عمل سے شمالی اور مغربی سرحدوں کے ساتھ ساتھ سیاسی دبا کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔بیان میں کہا گیا کہ اس تناظر میں حریت (ع)حکومت ہند پر زور دیتی ہے کہ وہ حکومت پاکستان کے ساتھ بھی مثبت مذاکرات کا آغاز کرے جبکہ حریت(ع) دونوں حکومتوں کے مابین بات چیت پر رضامندی کے فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے ۔بیان میں کہا گیا کہ حریت(ع) کانفرنس کی حقائق اور زمینی صورتحال کے پیش نظر یہ دیرینہ پالیسی رہی ہے کہ مسئلہ سے جڑے تمام فریقوں(Stake holders) کے درمیان بامعنی مذاکرات ہوں کیونکہ جنگ و جدل اور تصادم کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے جبکہ بات چیت سے ہی مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ بیان میں کہا گیا کہ اس کیلئے حریت(ع) چیئرمین میرواعظ عمر فاروق سمیت تمام سیاسی نظر بندوں، سینکڑوں نوجوانوں جنہیں کالے قوانین کے تحت مختلف جیلوں اور عقوبت خانوں میں مقید رکھا گیا ہے انہیں حکومت فوری طور رہا کرے۔حریت (ع)کانفرنس نے یہ بات واضح کی کہ مسئلہ کو جوں کا توں رکھنے کی پالیسی ناقابل قبول ہے اور اس طرح کی پالیسی کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے ۔ اس ضمن میں حریت (ع)کانفرنس اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے کیونکہ گزشتہ تین دہائیوں سے ہماری سرگرمیاں جو عوامی احساسات اور خواہشات پر مبنی ہیں ،کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور ہمیں ہر اس پلیٹ فارم سے اپنی آواز بلند کرنے کی اجازت ہونی چاہئے جو حق اور انصاف کی حمایت کرتے ہیں ۔بیان میں کہا گیا کہ اب وقت آچکا ہے کہ جموںوکشمیر کے تنازع کو منصفانہ بنیادوں پر حل کرنے کیلئے جامع اقدامات کئے جائیں تاکہ نہ صرف جموںوکشمیر بلکہ جنوب ایشیائی خطے میں کروڑوں عوام پر سکون ماحول میں امن و سلامتی کی زندگی گزار سکیں۔