سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے’’عباد الرحمٰن‘‘ کے جو صفات گنوائے ہیں ان میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ سچ مُچ میں میرے بندے وہ لوگ ہیں جو میرے ساتھ کسی اور کو نہیں پُکارتے ہیں بلکہ میرے دَر کا سوالی بنے رہنے میں ہی اپنی شان و بان اور عافیت سمجھتے ہیں۔فرمانِ الٰہی ہے:’’اور (عبادالرحمن وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے ہیں۔‘‘(الفرقان:68)
مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ نے اس آیتِ مبارکہ پر ایک ایسا معلوماتی نوٹ لکھا ہے کہ جسے پڑھتے ہی انسان کو توحید کی جڑ ہاتھ آتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو مُختارِ کُل سمجھ کر اپنے تمام معاملات کو اس کے حوالے کر ہی دیتا ہے۔لکھتے ہیں:’’توحید اسلام کے تمام عقائد کی بنیاد ہے۔اسلامی زندگی کا اصل الاصول اور اس کا مبدا و معاد ہے۔اسی سے پہلا قدم اٹھتا ہے اور یہی ایک مومن کی منزل اور معراج ہےاور اس توحید کا متضاد شرک ہے۔اسی لیے قرآن کریم نے توحید کی وسعتوں کو بھی بیان فرمایا اور شرک کی تمام اقسام و اصناف اور اس کے تمام الوان و آثار کی طرف بھی اشارے فرمائے۔اسلام کی نگاہ میں ایک مومن کی انفرادی طور پر اور ایک امت کی اجتماعی طور پر شخصیت کی تکمیل صرف عقیدہ توحید سے ہوتی ہے۔ایک مومن کی زندگی میں طہارتِ قلب سے لے کر طہارتِ اخلاق و اعمال تک جن مؤثرات کی ضرورت ہے، وہ تمام عقیدہ توحید سے پھوٹتے ہیں۔ اس لیے وہ اللہ کی ذات کے مقابلے میں کسی اور ذات کو اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے مقابلے میں کسی اور کی صفات کو اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کے مقابلے میں کسی اور کے حقوق کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔اس کی ذات بھی یکتا ہے،اس کی صفات بھی بےمثال ہیں اور اس کے حقوق بھی کسی اور کی ہمسری سے پاک ہیں۔ایک مومن جس طرح اپنا سر غیر اللہ کے سامنے جھکنے نہیں دیتا،اپنے دل میں کسی اور محبت کو بھی غالب نہیں ہونے دیتا،کسی اور کی غیرمشروط اطاعت کا تصور بھی قبول نہیں کرتا،کسی اور کا خوف اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دیتا۔کسی اور سے لو لگانے کو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ناقابلِ قبول سمجھتا ہے۔اسی طرح زندگی کے اجتماعی معاملات میں کسی اور کو رہنمائی کی غیرمشروط طور پر اجازت نہیں دیتا۔کسی شخص یا کسی ادارے کو ایسی حکمرانی کا حق نہیں دیتا، جو اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کو چیلنج کرتاہو۔کسی کو ایسی قانون سازی کی سند نہیں دیتا جو اللہ تعالیٰ کے قانون سے متصادم ہو۔یہ وہ توحید کا ایک سادہ سا تصور ہے جو اپنی جامعیت اور مانعیت میں اتنا مکمل ہے جس میں کسی طرح کی پیوندکاری ممکن نہیںاور یہی ایک مومن اور امت مسلمہ کی قوت کی علامت اور اس کا حقیقی سرچشمہ ہے۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے اِلٰہ کو پکارنے یعنی ماننے اور تسلیم کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
ہمارے آج کے مذہبی طبقات کی بحثیں عموماً یہاں تک محدود رہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کیا جاسکتا،کسی کے لیے قیام اور رکوع و سجود کی اجازت نہیں،کسی سے غیرعادی طریقے پر استمداد نہیں ہوسکتی،کوئی نفع و ضرر کا مالک نہیں،اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کو اولاد دینے پر قادر نہیں،وہی قسمتیں بناتا اور بگاڑتا ہے،عزت و ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے۔یہ سب باتیں اپنی جگہ صحیح اور نہایت بیش قیمت ہیں۔لیکن آج عالم اسلام میں توحید کو جو سب سے بڑا حادثہ درپیش ہے وہ یہ باتیں نہیں بلکہ وہ یہ ہے کہ عالم اسلام کی بیشتر آبادی نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ قانون کو رد کردیا ہے۔غیرمشروط قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو دینے کی بجائے انھوں نے بادشاہوں،آمروں اور پارلیمنٹ کو دے رکھا ہے۔وضعی قوانین کے مقابلے میں اسلامی شریعت اپنا وزن کھو چکی ہے۔دیگر مذاہب کی طرح اسلام ایک پرائیویٹ معاملہ ہو کر رہ گیا ہے اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر اسلام کے سوا نہ جانے کس کس کی حکومت ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم اسلامی تہذیب،اسلامی تمدن اور اسلامی ثقافت سے بیگانہ ہوچکے ہیں جبکہ اس آیت کریمہ میں عبادالرحمن جو درحقیقت مسلمانوں ہی کا نام ہے،کو عبادالشیطان سے الگ کرنے کے لیے ان کی جس پہلی صفت کا ذکر فرمایا گیا ہے، اسے قبول اور اختیار کرنے سے جو زندگی وجود میں آتی ہے اس میں ان کمزوریوں کو راہ پانے کا موقع نہیں ملتا جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔(روح القرآن)
اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو پُکارنا ایک ایسا بُرا فعل ہے جو کہ انسان کو انسانیت کے معراج سے گِرا دیتا ہے،اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی طرف دھکیلتا ہے اور احسنِ تقویم سے اٹھا کر اسے اسفلَ السافلین کے صف میں شامل کر دیتا ہے۔یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ اپنی جیسی مخلوق کو پُکارا جائے،جو خود بھی انسان کی طرح بے بس،لا چار اور مجبور ہوں؟جو لوگ ایسی حرکت کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ غوروخوض کرنے کی دعوت ان الفاظ میں دیتے ہیں:
’’اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں،وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں۔‘‘(النحل:20)
اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی اور کو پُکارنے والے حقیقت میں جھانکنے کے بجائے نِرے وہم و گمان کے پیرو اور محض قیاس آرائیاں کر رہے ہوتے ہیں۔کاش کہ وہ دھوکے کی پٹی کو اپنی آنکھوں سے ہٹا لیتے تو اصل حقیقت ان پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی۔قرآنِ پاک میں ان لوگوں کی اس بین خامی کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کر دی ہے:
’’آگاہ رہو! آسمان کے بسنے والے ہوں یا زمین کے،سب کے سب اللہ کے مملوک ہیں اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خودساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نِرے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔‘‘(یونس:66) جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو پُکارتے ہیں وہ اپنے ہی خلاف ظالم بن بیٹھتے ہیں اور اس سے بڑھ کر بیوقوفی اور کیا ہوگی کہ انسان اپنے ہی وجود کو واصلِ جہنم ٹھہرائے۔اس جہالت کی اندھیری میں پڑے ہوئے انسان کے پاس جب فرشتے روح قبض کرنے کے لئے آتے ہیں تو اس کے اوپر حقیقت واضح ہونے پر پھر اپنے پاس ہاتھ مَلنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ظاہر ہے کہ اُس سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جو بالکل جھوٹی باتیں گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی سچی آیات کو جھُٹلائے۔ایسے لوگ اپنے نوشتہٴ تقدیر کے مطابق اپنا حصّہ پاتے رہیں گے،یہاں تک کہ وہ گھڑی آجائےگی جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے پہنچیں گے۔اُس وقت وہ اُن سے پوچھیں گے کہ بتائو،اب کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کو تم خدا کے بجائے پُکارتے تھے؟وہ کہیں گے کہ’’ سب ہم سے گُم ہو گئےاور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکرِ حق تھے۔‘‘(الاعراف:37)۔۔۔۔(جاری)