دودھیا رنگت، سنہرے بال اور نیلی نیلی بڑی آنکھیں جن میں سمندر کی گہرائی تھی۔ دراز قد، مکھن کی طرح نرم و ملائم ہاتھ پاؤں۔ اس کو خدا نے بے پناہ حسن سے نوازا تھا۔ اسے جو بھی دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا۔ نرگس خوبصورت بھی تھی اور خوب سیرت بھی۔ با ہمت اور ذہین بھی۔
وہ سکول کی سفید یونیفارم پہن کر کندھوں پر اسکول کا بستہ لٹکا کے سر سبز کھیتوں کے بیچ پگڈنڈیوں پر جب چلتی تھی تو ایسا لگتا تھا جیسے کوئی آسمان سے اتری ہوئی پری ہو۔ اسے پڑھنے لکھنے کا بے حد شوق تھا۔ اس لیے وہ بڑی محنت اور لگن سے پڑھا کرتی تھی۔ وہ اپنی کلاس میں ہمیشہ اول آتی تھی۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کے کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹاتی تھی۔
نرگس اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک گاؤں میں کچی اینٹوں اور گاس پھوس والی چھت کے مکان میں رہتی تھی۔ دھن دولت کا نام و نشان بھی ان کے زندگی میں نہ تھا۔ وہ لوگ سادگی سے بھر پور عزت اور سکون کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ نرگس کے بابا گاؤں میں ہی ایک چھوٹی سی دکان پر درزی کا کام کرتے تھے۔ وہ بہت نیک ہر ایک کے حق میں دعائے خیر کرنے والے انسان تھے ۔ نرگس کی ماں ایک سیدھی سادی عورت تھی۔ وہ ہمیشہ نرگس سے بولا کرتی تھی: " نرگس بیٹا تو یمے(ایم اے) تک تعلیم حاصل کرنا اور گاوں کے سکول کی میڈم بننا۔ یہ میرا اور تیرے بابا کا خواب ہے " ۔ وہ جواب دیتی :"ہاں ماں۔ مجھے بابا اور آپ کا یہ خواب پورا کرنا ہے۔ اسے لئے تو جی جان لگا کر پڑھائی کر رہی ہوں۔ مجھے آپ دونوں کا یہ خواب پورا کرنا ہے۔"
ایک دن اچانک نرگس کے بابا کو سیدھے والے بازو میں درد شروع ہوا۔ دوا دعا وغیرہ کیا لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ دیکھتے دیکھتے ان کا پورا بازو بے کار ہو گیا جس کی وجہ سے وہ بے روز گار ہوگئے۔ گھرمیں مشکل حالات پیدا ہو گئے۔
ایک روز پڑوس کے رحیم چاچا نرگس کے گھر عیادت کے لئے آئے۔ نرگس کے بابا نے رحیم چاچا سے کہا کہ میرا بازو اب پوری طرح اب بے کار ہو چکا ہے ۔ اسکی وجہ سے گھر میں مشکل حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ میں کوئی بھی کام نہیں کر پاتا ہوں جس کی وجہ سے گھر میں فاقہ کشی کی نوبت آنے لگی ہے۔ گھر میں جتنا پیسا تھا آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ پچھلے تین مہینے سے بالکل بیکار بیٹھا ہوں۔ رحیم چاچا نے اسے مشورہ دیا کہ پڑوس والے گاؤں میں ایک کارخانہ ہے وہاں جا کر آپ مالک سے کام مانگ لینا۔ شاید آپ کو وہاں کوئی ایسا کام ملتا جائے جو آپ کر سکتے ہوں۔
نرگس، جو دوسرے کمرے میں اپنی کتابیں پھیلائے پڑھ رہی تھی، نے سب باتیں سن لیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ بےچین ہو گئی اور رات بھر سو نہ سکی۔ اس کی نیند آنکھوں سے رخصت ہو گئی۔ دوسرے دن کسی سے کچھ کہئے بغیر کارخانے پہنچی۔ وہاں پہنچ کر کارخانے کے مالک کو اپنی روئداد سنائی۔ کار خانے کا مالک بہت رحم دل انسان تھا۔ اسے نرگس پر رحم آیا اور اس کو دوسرے دن کام پر آنے کے لئے کہہ دیا۔ نرگس خوشی خوشی گھر پہنچی اور دوسرے دن صبح سویرے جاگی۔ وضو کر کے فجر کی نمار ادا کی اور ماں بابا کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے لگی۔ چائے پی کے وہ اُٹھ کر ہونے کے لئے دوسرے کمرے میں جانے لگی۔ جاتے جاتے نرگس نے کہا آج مجھے اُسے کام کرنے کے لئے کارخانے پر نو بجے پہنچنا ہے۔ نرگس کے ابا کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ نرگس کیا کہہ رہی ہے۔ اس لیے انہوں نے نرگس کو واپس بلایا اور پوچھا ’’ابھی کیا کہہ رہی تھی‘‘۔ نرگس نے بابا کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے جواب دیا کہ ’’پڑوس والے گاؤں میں جو کارخانہ ہے میں کل وہاں گئی تھی۔ میں نے کارخانہ کے مالک سے کام مانگ لیا تو انہوں نے آج سے کام پر آنے کے لیے کہا ہے۔ آپ بیمار ہیں نا اس لئے۔ ماں آپ کا خیال رکھے گی اور میں کام پر جاؤں گی۔ وہاں میری عمر کی بہت سی لڑکیاں کام کرتی ہیں۔ ‘‘
“نہیں نرگس بیٹا ایسا نہیں کرنا۔ کام کرنے سے تمہاری پڑھائی متاثر ہوگی۔ "
"نہیں بابا میری پڑھائی متاثر نہیں ہوگی۔ جب تک آپ صحتیاب نہیں ہو جاتے میں تب تک کام کروں گی۔ میں نے سکول والوں سے بھی بات کر لی ہے۔ بابا یہ ہماری آزمائش کی گھڑی ہے۔ انسان کو ہر امتحان اور آزمائش کا مقابلہ بہادری سے کرنا چاہئے۔ " نرگس نے اپنے بابا کو سمجھایا۔ "آپ کو آرام کی سخت ضرورت ہے۔"
’’لیکن بیٹا مجھے سماج سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ‘‘
’’نہیں بابا ہمیں ایسے سماج سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جس کو کسی کی مجبوری کا احساس نہیں ۔ اللہ سب کے حال جانتا ہے‘‘۔ نرگس نے اپنے بابا کے ناکارہ ہاتھ کو چومتے ہوئے کہا۔ اس طرح نرگس نے اپنے بابا کو قائل کر لیا۔ ’’بابا آپ دعا کرنا کہ یہ آزمائش کا وقت خیر سے گزر جائے‘‘۔ "اچھا نرگس بیٹا ٹھیک ہے۔ ہمت رکھنا۔ اللہ تمہیں اس کا نیک اجر دے اور تمہارے ساتھ ساتھ دنیا کی ہر بیٹی کی حفاظت کرے۔ " نرگس کے بابا نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے دعا دی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ان کو نرگس جیسی بہادر اور سمجھدار بیٹی عطا کی ہے۔ "اللہ ہر کسی کو نرگس جیسی بیٹی عطا کرے۔ "اس کے بعد نرگس سادہ سا لباس پہن کر کارخانہ کے لیے چل پڑی۔
نرگس اب پابندی کے ساتھ کام پر جانے لگی۔ اس نے اپنی ایمانداری اور شرافت سے وہاں کام کرنے والے سب لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی۔ نرگس نے پوری طرح اپنی گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ ساتھ میں اپنی پڑھائی بھی کر رہی تھی۔ وہ ہر صبح اپنے والدین کی دعاؤں کے حصار میں گھر سے نکلتی تھی۔
کچھ عرصہ سے اسے لگ رہا تھا کہ کوئی مفلر اوڑھے کوئی لڑکا سایہ کی طرح اس کا تعاقب رہا ہے۔ وہ معصوم دنیا کی سازشوں اور چالوں سے بالکل بے خبر اپنے آپ میں مگن گھر سے کارخانہ اور کارخانے سے گھر آ جایا کرتی تھی۔
کارخانہ نرگس کے گھر سے تقریب ایک کلومیٹر فاصلے پر تھا۔ گاڑی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ پیدل ہی جاتی تھی۔
آج نرگس کو کچھ بدلا بدلا سا محسوس ہو رہا تھا۔ ساتھ ساتھ عجیب پریشانی بھی ہو رہی تھی۔ آج زیادہ کام ہونے کی وجہ سے وہ ذرا دیر سے کارخانے سے نکلی۔ وہ شیطان آج اسے کہیں دکھائی نہ دیا۔ اسے کچھ خوف سا محسوس ہو رہا تھا۔ نرگس نے ابھی آدھے رستے کا ہی صفر طے کیا تھا کہ اس کے سامنے تیزی سے ایک گاڑی رک گئی۔ گاڑی کی کھڑکی کھلی اور کوئی اُسے زبردستی گاڑی میں بٹھا یا اور گاڑی کسی انجان راستے کی طرف نکل گئی۔ نرگس نے دیکھا یہ وہی مفلر والا لڑکا ہے۔ اس کے ساتھ اس کا ایک ساتھی بھی تھا جو گاڑی چلا رہا تھا۔ نرگس گاڑی میں چیخی چلائی لیکن اس کی آواز ایسے سنسان رستے پر خدا کے سوا کوئی نہیں سُن سکتا تھا۔ نرگس نے ان سے پوچھا کہ وہ اُس سے کیا چاہتے ہیں۔ وہ بالکل معصوم تھی۔ نرگس نے ان کو خدا کا واسطہ دیا۔ اپنے غریب لاچار ماں باپ کا واسطہ دیا۔ لیکن ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ انہوں نے ایک پیڑ کے پاس گاڑی روکی اور نرگس کو تقریبا گھسیٹ کر گاڑی سے باہر لے آئے۔ اس لڑکے نے جب اپنا مفلر ہٹایا تو نرگس کو ایک دھچکا لگا۔ وہ ان کے پڑوس میں رہنے والا ایک لڑکا تھا۔ اس نے نرگس سے کہا میری نظر تم پر بہت پہلے سے تھی۔ تم نے مجھے بہت تنگ کیا۔ ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا۔ آج میں حساب برابر کر لوں گا۔ تجھے نوچ ڈالوں گا۔ اس کے بعد وہ لوگ نرگس کی طرف بڑھنے لگے۔ نرگس نے ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے ان سے کہا کہ مجھے معاف کرو۔ مجھے گھر جانے دو۔ خدا کے لئے مجھے چھوڑ دو۔ میں نے آپ لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑا ہے۔
لڑکے نے جواب دیا کہ میں کیسے تجھے چھوڑ سکتا ہوں۔ بڑی مشکل سے ہاتھ لگی ہو۔ بہت گھمنڈ ہے نا تجھے اپنی خوبصورتی پر۔ اس کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں۔ ایک ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی۔ دوسرا ہاتھ جیسے ہی اس نے نرگس کا آنچل ہٹانے کے لیے بڑھایا تو نرگس نے پوری قوت سے ایک زور دار چیخ ماری۔ یا اللہ میری مدد کر۔ مجھے ان ظالموں سے بچا۔ میرے پروردگار میری پاکیزگی کی لاج رکھ۔ نرگس کی یہ چیخ چاروں طرف گونجنے لگی۔ ان کی نیت بُری تھی اس لیے ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ہر طرف سناٹا اور سناٹے کے بیچ نرگس کے سسکنے کی آواز۔ وہ لڑکا کہنے لگا میں تیرے پروردگار سے نہیں ڈرتا۔ اگر تیرا پروردگار ہوتا تو وہ ایسی سنسان جگہ پر بھی تیری مدد کرتا۔ بس اس کا اتنا کہنا تھا کہ آسمان کو سیاہ بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یکا یک آسمان کی چھاتی پھٹنے لگی۔ ہر طرف عجیب آوازیں آنے لگیں۔ ایسی زوردار بارش برسنے لگی جیسے آسمان سے پتھر برس رہے تھے۔ بادل گرجنے لگے، تیز تیز بجلی چمکنے لگی۔ ہر طرف جیسے قیامت کا منظر تھا ۔ ایک بادل اتنی زور سے گرجا کہ آسمان اور زمین لرز اٹھے۔ اس خوفناک منظر کو دیکھ کر وہ دونوں نرگس کو وہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پروردگار نے نرگس کی عصمت کی لاج رکھ لی۔ تھوڑی ہی دیر میں بارش رک گئی اور آسمان صاف ہو گیا۔ چاند نے اپنی چاندنی پھیلائی۔ نرگس آہستہ آہستہ کھڑی ہوئی اور ڈرتے ڈرتے اپنا گیلا آنچل اپنے سر پر رکھا۔ وہ سہمی سہمی اس سنسان ویرانے میں ہر طرف دیکھنے لگی۔ دور سے سفید لباس پہنے ایک بزرگ شخص اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو نرگس نے دیکھا اس کے چہرے سے نور برس رہا تھا۔ اس نے نرگس کے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہنے لگا بیٹی نرگس مبارک ہو اللہ پاک نے تیری عزت کی لاج رکھ کی۔ تمہیں اپنی نئی زندگی مبارک ہو۔ اس بزرگ نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ نرگس نے سسکتے ہوئے ان کا ہاتھ تھام لیا۔
وہ بزرگ نرگس سے کہنے لگا بیٹی اپنی آنکھیں بند کر لو۔ نرگس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ تھوڑی دیر بعد اس بزرگ نے کہا بیٹی اپنی آنکھیں کھول لو۔ نرگس نے اپنی آنکھیں کھول لیں۔ وہ اپنے گھر کے آنگن میں کھڑی تھی۔ سامنے ہی اس کے ماں بابا لالٹین جلائے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ نرگس نے چاروں طرف دیکھا لیکن وہ بزرگ کہیں نظریہ آیا۔ نرگس نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں۔ وہ بزرگ آسمان کی وسعتوں میں ہاتھ ہلا ہلا کر نرگس کو الوداع کہہ رہا تھا۔ یہ خواب تھا یا حقیقت۔ یہ پاک روح تھی یا فرشتہ۔ نرگس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
کاش ایسی قسمت ہر اس حوا کی بیٹی کی ہوتی جس کی طرف کبھی کسی شیطان کے قدم بڑھتے۔ اے پروردگار! ہر بیٹی کی حفاظت فرما۔ آمین۔ ثمہ آمین۔
پہلگام، اننت ناگ
رابطہ: 9419038028، 8713892806