وہ غار سے باہر آیا تو تیز روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں لیکن تازہ ہوا نے اس کے جسم وجاں کو فرحت اور راحت کا سکون بخشا۔ اس نے کئی لمبی سانسیں لیں جیسے برسوں بعد اسے تازہ ہوا نصیب ہوئی ہو۔ پھر ایک لمبی سانس چھوڑ کر اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا۔لیکن ذہن و دل میں منزل پانے کی جو برسوں کی کسک اسے بے چین کئے ہوئے تھی وہ اب بھی تشنہ تھی۔ پھراس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جنگلوں اور بیابانوں میں دوڑتا بھاگتا رہا۔ منزلیں اس کے تیز گام پیروں تلے رندھتی چلی گئیں ۔ لیکن ہر منزل پر پہنچ کر اسے لگا کہ ابھی بھی منزل بہت دور ہے۔
اُس نے اپنی زبان کُھردرے ہونٹوں پر پھیر لی اور یاس بھری نگاہوں سے صحرائے لق و دق کو دیکھنے لگا۔۔۔لیکن آنکھ کے فوکس میں ریت اور رتیلے ٹیلوں کے سوا کچھ اور نہ آیا۔ وہ پھر آگے بڑھتا گیا۔ گرتے پڑتے بچتے بچاتے چلتا رہا ، ایک انجانی منزل کی طرف ۔۔۔ اس کے قدم لڑ کھڑا رہے تھے لیکن اس کے حوصلے پست نہیں تھے ۔۔۔ سورج اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔۔۔ اسے اپنا ہمسفر سایہ بھی چھوٹا نظر آنے لگا ۔۔۔ ریت کے ٹیلے گرمی کی شدت سے لاوا ابلنے لگے۔۔۔ پسینے سے اس کا حال بے حال ہوا، پیروں کے نیچے دہکتے انگارے محسوس ہونے لگے۔۔۔ وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگا لیکن تلوئوں کی جلن میں کوئی فرق نہیں آیا۔۔۔۔۔ اب وہ ریگستان میں اپنی پوری قوت سے دوڑنے لگا ۔۔۔ وہ دوڑتا رہا، بھاگتا رہا جیسے پلک جھپکتے اسے ہزاروں میل طے کرنے ہوں۔۔۔ اچانک اسے اپنے ہی وجود سے ایک قہقہہ ابلتا ہوا محسوس ہونے لگا ۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور دھندلی آنکھیں اپنے گردوپیش کا جائزہ لینے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سچ مچ تم پاگل ہو۔۔۔ میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا ہے کہ بھٹکنے سے باز آئو لیکن تم نہ مانے اور اب دیکھ رہے ہو کہ کیا حال ہواہے تمہارا ۔ ‘‘ اچانک اس کا چہرہ غصے سے لال بھبوکا ہوگیا۔۔
’’تم بکواس کر رہے ہو۔ تم چاہتے ہو کہ میں سدا اندھیرے غاروں میں بھٹکتا پھروں۔۔۔ یاس اور ناامیدی کا کالا سمندر کھنگا لتا رہوں۔ ناکام اور نامراد لوٹ آئوں۔ یا تھک ہار کر بیٹھ جائوں ۔‘‘
ایک قہقہہ پھر پھوٹا ’’نہیں برخوردار ! میں تمہیں آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ راستہ بہت ہی کٹھن ہے۔‘‘
’’ راستہ صرف کٹھن ہے ناممکن تو نہیں۔۔۔؟‘‘
’’رٹے ہوئے جملے دہرارہے ہو۔۔۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ تم اپنے آپ پر جبر کر رہے ہو ۔۔۔ میری بات غور سے سنو۔۔۔یہ راستہ جو تم نے منتخب کیا ہے۔ تم سے پہلے بھی ہزاروں اس راستے پر چلے ہیں لیکن اُن میں شاید ہی کوئی منزل پا چکا ہو۔‘‘
’’تم مجھے خوفزدہ کر نا چاہتے ہو۔ میں نے چاند کو فتح کیا ہے۔ میں مریخ تک پہنچ گیا ہوں اور اب میرے قدم سورج کی طرف بڑھ رہے ہیں۔۔۔ میں کائنات کا ذرہ ذرہ فتح کر سکتا ہوں ۔۔۔ میرے لئے کوئی بات ناممکن نہیں ۔ میرے افکار میں جدت ہے۔ میرے پاس ریاضت ہے اور ہمت میرے انگ انگ میں کوٹ کوُٹ کر بھری ہے۔ ‘‘ ایک زوردار قہقہہ۔۔۔۔۔۔
’’واہ میرے دوست واہ! لیکن تم شاید بھول گئے تم صدیوں غاروں میں رہے ۔بے سروسامان جنگلوں بیابانوں میں پھرتے رہے۔ صحرا چھان مارے ۔ سمندروں کو پھلانگتا رہا ۔ کیا منزل مل گئی۔ ‘‘
اچانک اسکے ہونٹ تھرتھرا اٹھے۔ آنکھیں انگاروں کی طرح سلگ اٹھیں۔۔۔۔۔
’’جاؤ ۔۔۔دفع ہوجاؤ۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ مجھے اپنی منزل کیسے حاصل کرنی ہے۔۔۔ جاؤ چلے جاؤ ـ تم ۔‘‘ اور اسکے قدم صحرائے لق ودق میں پھر بڑھنے لگے ۔۔۔ سورج ریگستانی ذروں میں مدغم ہونے لگا اور اس نے ریت کے سینے پر اپنی پھٹی چادر بچھا دی۔
کچھ سال اور بیت گئے ۔اس کا جسم ریت کے ذروں میں جذب ہونے لگا لیکن منزل اب بھی کوسوں دور تھی۔ آواز کی باز گشت اس کے چاروں اور گونج رہی تھی۔
ـ’’ تمہیں ایک اور سچ بتاتا ہوں۔ تم سے جو یہ کہا گیا ہے کہ تیری ایک منزل ہے جس کی بقا کی جدوجہد میں تمہیں اپنے آپ کو فنا کرنا ہے۔ وہ بھی دھوکہ ہے۔ تمہیں فنا اور بقا کی الجھن میں الجھایا جا رہا ہے۔‘‘
اس نے اپنے دونوں ہا تھ اپنے کانوں پر مضبوطی کے ساتھ رکھ دیئے ۔ تاکہ کوئی بھی آواز کانوں سے ہو کر اس کے ذہن و دل میں طلاطم بپا نہ کردے ۔
پھر ایک دن اسے لگا کہ اس نے اصل راز پا لیا۔ اس کے آس پاس سے جو آواز گونجی تھی اس میں اسے ہدایت ملی کہ باہر کیا تلاش کرتے پھر رہے ہو۔ اپنے آپ میں ڈوب جائو ۔تو منزل مل جائے گی۔ وہ اندر ڈوبتا چلا گیا لیکن بہت جلد اسے احساس ہوگیا کہ اندر تو بس اندھیرا ہے۔ روشنی تو کہیں بھی نظر ہی نہیں آرہی ہے۔ جب روشنی نہیں تو منزل کا تعین کیسے ہوجائے گا ۔۔۔ وہ اندھیروں سے گھبرا گیا اور ایک دم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر روشنی کے طرف دوڑنے لگا۔
تب سے صدیاں بیت گئیں اور وہ لڑ کھڑاتے قدموں سے چل رہاہے۔۔۔ انجانی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔۔ آگے اور آگے۔۔۔شاید آگے بڑھنا اس کی سرشت میں ہے ۔۔۔ لیکن اب وہ روشنیوں کے چکر ویو میں پھنس چکا تھا ۔۔۔
اسلا م آباد، کشمیر
موبائل نمبر؛9419734234