ویلفیئر ٹرسٹ کی سالانہ ہونے والی آخری تقریب کی تیاریاں بڑے ہی زور و شور سے چل رہی ہیں۔آج کی مجلس بھی ہمیشہ کی طرح شہر کے ایک ہوٹل میں ہی منعقد ہونے جا رہی ہے۔ٹرسٹ کے اہم اراکین اپنی اپنی تحریریں مسودہ کرنے میں لگے ہوے ٔہیں۔ہر سال کی آخری تقریب کی طرح اس سال بھی غیریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے والےفلاح انسانیت کےعلمبرداروں کو اعزازات سے نوازا جاے ٔگا ۔جن میں سے بلا شبہ نصف سے زیادہ ٹرسٹ کے ہی ممبران ہونگے۔تقریب سہ پہرکے آس پاس شروع ہوئی اور چند ہی لمحوں میں فلاح و بہبودکے الفاظ سےبُنی گئی تحریروں ،معاشرتی منظومات اور خاص طور پر ٹرسٹ کے خزانچی کی طرف سے پیش ہونے والی سے شمار یات سے اپنے عروج پر پہنچی۔ مہمان خصوصی،جو علاقہ کےایم ایل اے بھی ہیں،نے فہرست میں شامل فیاض اور انسانیت کا درد رکھنے والوں کو انعامات سے نوازا اور ٹرسٹ کی اعلیٰ کارکردگی اوراراکین کی عقیدت مندی پر خاصا بیان پیش کیا۔آخر میں ٹرسٹ کے صدر ، جو ایک ریٹائیڈ جج ہیں،سٹیج پہ آکر ٹرسٹ کی تاریخ بیان کرنے لگے۔
’’اس ٹرسٹ کی بنیاد آج سے دس سال قبل میں نے اور میرے برادران نے خاک سے ڈالی۔ پھر اسی خاک کو اینٹوں میں تبدیل کیا اور اینٹوں سے یہ اونچی عمارت کھڑی کی۔ ہماری یہ حقیر کوشش آج کیٔ ہزارغریبوں،بیوائوں اورلاچاروں کے لئےجینے کا سبب بن گئی ہے۔ ٹرسٹ نہ صرف انہیں ماہانہ امداد فراہم کرتا ہے بلکہ انکی عمر اور تجربے کے حساب سے انہیں کام وغیرہ بھی دلاتا ہے‘‘۔۔صدرصاحب کے یہ خطابی الفاظ سپیکروں سے ایسے نکل رہے تھے جیسے ایک قید کئے گئے شیر کو رہا کیا گیاہو اور وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر آس پاس کے لوگوں پر جھپٹ پڑا ہو۔ہوٹل کے باہر بھو ک سے تڑپتا رفیق بھی فٹ پاتھ پہ بیٹھا لوگوں کی آمد و رفت اورشور و غل دیکھ و سن رہا تھا۔۔رفیق کی آنکھیں لمحہ بہ لمحہ نم ہونے لگیںاور وہ من ہی من بولا ،اے اللہ! کاش میرے بھی نصیب میں خوشی ہوتی۔ اے میرے رب! تو مجھے امیر نہ بناتا ،پیسے والا نہ بناتا پر دو وقت کی روٹی تو نصیب کرتا۔ رفیق اب بے تہاشہ رو رہا تھا لیکن آس پاس کے لوگوں کے لئے تو جیسے وہ کوئی وجود ہی نہ رکھتا تھا ۔اسکے آنسو اگر کسی کو دکھ بھی رہے تھے تو اُس پر کوئی اثر نہ ہورہا تھا ۔ ایسالگ رہا تھا کہ رفیق کا وجود انکے لے ٔ مشتِ خاک کے برابر بھی نہ تھا۔۔رفیق کو لگا جیسے اس کے کان سامنےسے گزرنے والے لوگوں کی ہنسی خوشی کی آوازیں سننے کےلئے ہی بنے تھے اور اسکی آنکھیں بس آنسو بہا نے کے لئے ہی بنی تھیں۔ اسے لگا کہ رب نے اسے اپاہج بناکر صرف درد ہی نہیں دیا بلکہ اسکا انگ انگ تراشتے ہوے ٔانہیں درد سے منسلک کر دیا۔ وہ اس درد کے دریا میں ڈوب رہا تھا کہ ایک آواز نے اُسے اپنی طرف متوجہ کیا۔’’ ارے تم کیوں رورہے ہو‘‘۔ ایک لڑکا نہایت ہی ہمدردی کے ساتھ رفیق سے پوچھ رہا تھا۔ رفیق نے کوئی جواب نہ دیا مگر وہ لڑکا کہیں نہ کہیں اسکا درد سمجھ رہا تھا۔ ۔’’ دیکھو تم مجھ سے کچھ نہ بولنا چاہو تو ٹھیک ہے پر تم چپ ہو جاؤ ۔اس طرح بے تہاشہ رونے سے تمہارا درد کچھ کم نہ ہوگا ‘‘۔اس لڑکے نے رفیق کے آنسو پونچھتے ہوئے اس سے کہا۔رفیق کو زندگی میں پہلی بار کسی غیر میں اپناپن محسوس ہوا۔ پہلے اُسے ایسا کبھی بھی نہ لگا تھا۔’’دیکھو میرے پاس تمہیں دینے کیلے ٔ کچھ بھی نہیں ہے ،پر میں تمہیں اس طرح اکیلے نہیں چھوڑونگا ۔آج شاید یہاں ویلفیئر ٹرسٹ کا پروگرام ہے۔۔ویلف۔۔ف۔ یئر۔۔۔ رفیق پہلی باراسے کچھ بولا۔۔ویلفیر ٹرسٹ غریبوں کی مدد کرتاہے اور ہمارے شہر کا یہ ٹرسٹ تو کافی مشہور ہے ۔سنا ہے جو لوگ کام نہیں کر سکتے یہ ان کو ماہانہ امداد دیتے ہیں۔ چلو ہم اُدھر جاتے ہیں۔اس لڑکے نے رفیق کو اٹھایا اور دونوں ہوٹل کے گیٹ کی طرف چلنے لگے۔۔جیسے ہی انہوں نے گیٹ کے اندر قدم رکھے تودو آدمی انکی طرف آگے بڑھنے لگے ۔ان کے چلنے سے یہ عیاں تھا کہ وہ چوکیدار نہ تھے، لہٰذا ظاہر ہےکہ ٹرسٹ سے ہی وابستہ ہونگے۔۔کیا چاہئے؟ ان میں سے ایک، جو لمبا تڑنگا تھا ، نے بڑے ہی سخت لہجے میں پوچھا۔۔لڑکے نے نرمی کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہاکہ یہاں ٹرسٹ کی تقریب ہو رہی ہے کچھ مدد لینے آئےہیں ۔کیسی امداد؟دوسرا آدمی جھٹ سے بولا۔۔وہ سنا ہے ادارہ غریبوں کی کچھ امداد کرتا ہے ،رفیق لڑکھڑاتی آواز میں بولا۔۔کیسی امداد؟ ہاہا!دونوں نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔۔۔چلو چلو نکلو یہاں سے ،پتہ نہیں کہاں کہاں سے آتے ہیں منّہ اٹھاکر۔۔اوے لنگڑے فٹ پاتھ پہ کما ئی نہیں ہوتی جویہاں نکل آیا ہے۔۔رفیق اور وہ لڑکا دونوں ہلکا بکا ہوگئے۔۔پر آپ ہمیں ایک بار اندر تو جانے دیجئے۔ لڑکے نے اسرار کیا۔مہربانی کریں ہمیں ایک بار پرصدرصاحب سے ملنے دیں۔وہ اس کی تکلیف ضرور سمجھیں گے۔ وہ سپیکر پہ بھی غریبوں کے ہی بارے میں بول رہے ہیں۔۔۔ہا ہا ہا !دونوں آدمی پھر ہنسنے لگے ۔او چلے جاؤ یہاں سے۔۔آپ صدر صاحب سے ایک دفعہ ملنے دیجئے۔ ہم اسکے بعد ضرور چلے جائیں گے۔ رفیق دھیمی آواز میں بولا۔۔کچھ نہیں کرے گا تمہاراصدرصاحب ۔ چلے جائویہاں کوئی امداد نہیں ہوتی ہے ۔دو آدمیوں میں سے ایک بولا تو اس پر دوسرا بھی بول پڑا۔ صدر صاحب کیا کرینگے؟ انکا کام تو بس تحریریں تیار کرنا اور تقریریں کرنا ہے اور دونوں پھر ہنس پڑے۔۔۔رفیق کے ساتھ کھڑا لڑکا اسکے بعد کچھ نہ بولا پر رفیق اُن سے منتیں کرتا رہا۔۔او لنگڑے تجھے بولا نہ جا!،ان میں سے لمبا تڑنگا آدمی اسکی طرف آتے ہوئے غصے کے ساتھ بولا اور اسےزور سے دھکا مارا۔ رفیق اپنی پشت کے بل سڑک پر زورسے گرپڑا۔سپیکر کی سے نکلنے والی دھواں دار آواز کے علاوہ اُس لمحے جیسے سب کچھ تھم گیا۔رفیق کے کانوںتک بس سپیکر کی آواز اور صدر صاحب کے بول ٹکرارہے تھے۔۔’’یہ ٹرسٹ غریبوں کے لئے ہی بنا ہے ،غریبوں کے لئےہی کام کرتا ہے اور آیندہ بھی غریبوں کے لئے ہی کام کرتا رہے گا‘‘۔۔رفیق کی آنکھوں سے موم کے قطروں کی طرح آنسو نکلنے لگے اور گر گر کر زمین میں جذب ہونے لگے۔
دریش کدل،سرینگر،موبائل نمبر؛8825054483