سرینگر// عدالت عالیہ نے اعلیٰ تعلیم یافتہ درخواست دہندگان کی جانب سے دائر دونوں اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری محکموں میں درجہ چہارم کی اسامیوں کے نااہل قرار دینے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ عدالت نے کہا کہ بھرتی کرنے والے کو کسی بھی اسامی کے لئے موزوں تعلیمی قابلیت کا تعین کرنے کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ یہ صوابدیدی یا کسی استدلال کے معیار کے خلاف نہ ہو۔ہائی کورٹ کی سنگل بنچ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے جسٹس علی محمد ماگرے اور جسٹس سنجے دھر کی ڈویڑن بنچ نے کہا کہ درجہ چہارم کے عہدوں پر بھرتی کے لیے کم از کم 10ویں اور زیادہ سے زیادہ 12ویں جماعت کی تعلیمی قابلیت بالکل واضح ہے اور عدالت اسے صوابدیدی یا غلط نہیں سمجھتی۔ بنچ نے کہا کہ عدالت اس بات کے تعین میں مداخلت نہیں کر سکتی کہ بھرتی کرنے والے، درخواست دہندہ کو کس عہدے کے لیے موزوں پاتا ہے اور اس میں مداخلت اسی وقت کی جا سکتی ہے جب یہ صوابدیدی ہو اور اس معاملے میں یہ صوابدیدی نہیں ہے۔عدالت نے کہا کہ درجہ چہارم کے عہدوں کے لیے 12ویں پاس کے لیے زیادہ سے زیادہ تعلیمی قابلیت طے کرنے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو یہ عہدہ ملے گا تو وہ چھوٹے کام کے لیے موزوں آپشن ثابت نہیں ہو سکتے، جب کہ دسویں سے بارہویں پاس کے امیدوار یہ کام زیادہ مؤثر طریقے سے کر سکیں گے۔بنچ نے کہا کہ اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کو درجہ چہارم کے عہدے مل بھی جائیں تو بھی وہ اعلیٰ عہدوں کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔ اگر انہیں اعلیٰ اسامیوں پر منتخب کیا جاتا ہے تو چوتھے درجے کی اسامیاں دوبارہ خالی ہو جائیں گی، جس کے لیے بھرتی کا عمل نئے سرے سے شروع کرنا پڑ سکتا ہے۔عدالت نے کہا کہ اگر بھرتی میں 10ویں سے 12ویں جماعت تک مقابلہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سے ہوگا تو صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ کا انتخاب کیا جائے گا اور ایسی صورت حال میں مشتہر اسامیوںکے لیے موزوں ترین امیدوار کا دعویٰ متاثر ہوگا۔