’’ آپ کے مریض کو ہوش آگیا ہے اب یہ خطرے سے باہر ہے میں چلتا ہوں اگر ضرورت ہوگی تو آپ مجھے بلا لیجئے بیگ صاحب ‘‘! کہکر ڈاکٹر صاحب چلے گئے۔
’’ میں کہاں ہوں؟ اور آپ کون ہیں‘‘؟ سمیر گھبرائے گھبرائے بیگ صاحب سے پوچھ رہا تھا۔
’’تم میرے گھر میں ہو۔ اور اب تم بالکل ٹھیک ہو‘‘ ۔ کہتے ہوئے بیگ صاحب سمیر کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے۔
’’ تم دریا میں گر گئے تھے۔ تمہیں یاد نہیں‘‘؟
’’ میں گرا نہیں تھا۔ میں مرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے مجھے کیوں بچایا؟ مجھے مر جانے دیا ہوتا‘‘! سمیر زور زور سے رونے لگا۔
’’دیکھو! میں تم سے عمر میں بھی بڑا ہوں اور تجربے میں بھی۔ اوپر والے نے زندگی جینے کے لئے دی ہے‘‘۔
’’ہاں! لیکن میں جینا نہیں چاہتا‘‘۔
’’ تم مرنا کیوں چاہتے ہو؟ اگر تم چاہو تو مجھے بتا سکتے ہو! بیگ صاحب نے پانی کا گلاس سمیر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا! ’’ لو یہ پانی پیو اور پھر مجھے بتاؤ آخر کیا تکلیف ہے تمہیں؟ ہو سکتا ہے میں تمہاری کوئی مدد کر سکوں‘‘!
سمیر نے بیگ صاحب کی طرف دیکھا، اور کہا’’ میں ایک بے روزگار نوجوان ہوں۔ نوکری کی تلاش میں بھٹکتے بھٹکتے تھک گیا لیکن کہیں کوئی نوکری نہیں ملی۔ گھر میں بوڑھی بیمار ماں ہے ، شادی کے لائق ایک جوان بہن اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔ گھر کی ساری ذمہ داری میرے کندھوں پر ہے۔ اور اوپر سے لوگوں کے بہت سارے قرضے ہیں ۔ دو سال سے گھر کا کرایہ بھی نہیں دیا ۔ مکان مالک اکثر گھر سے نکال دینے کی دھمکی دیتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے ، میں کروں تو کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے سوائے خود کشی کے‘‘ اور سمیر زور زور سے رونے لگا۔
’’ کیا خود کشی سے تمہارے سارے مسئلے حل ہوجائینگے!تم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ تم تو مرنے کے بعد دنیا سے کنارا کر لوگے ، تمہیں ساری مصیبتوں سے چھٹکارا مل جائے گا لیکن کبھی تم نے اپنے پریوار کے بارے میں سوچا ہے ؟ کہ تمہارے مرنے کے بعد ان کا کیا ہوگا؟ تمہاری بوڑھی بیمار ماں کا کیا ہوگا؟ تمہاری جوان بہن اور چھوٹے بھائی کا کیا ہوگا؟انھیں در در کی ٹھوکر یںکھانی پڑیں گی‘‘۔
’’لیکن آخر میں کیا کروں؟ آپ ہی بتائیے‘‘؟
یہ سب سننے کے بعد بیگ صاحب خاموشی سے سگار سلگانے لگے اور سگار سلگانے کے بعد بیگ صاحب نے ایک دو کش لگائے اور دھواں چھوڑتے ہوئے بولے!’’میں ایک بزنس مین ہوں۔ اس لئے میں ہر چیز ، ہر کام اور ہر مدد کو بزنس کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ میرے پاس تمہارے لئے ایک پرپوزل ہے۔ اگر تم کہو تو بتاؤں‘‘؟
سمیر جھٹ سے بیگ صاحب کے پیروں میں گر گیا اور کہنے لگا بیگ صاحب مجھے آپ کا ہر پرپوزل منظور ہے۔ آپ بس بتائیے۔ میں بہت مشکل میں ہوں‘‘۔
’’ٹھیک ہے ‘‘! سمیر کو اٹھاتے ہوئے بیگ صاحب بولے تو سنو! ’’ تم تو اپنی زندگی اپنی طرف سے ہار ہی چکے ہو۔ کیوں نہ تم اپنی زندگی میرے حوالے کر دو اور بدلے میں ، میں تمہیں بہت ساری دولت دوں گا۔ جس سے تمہاری ساری پریشانیاں بھی دور ہو جائیںگی۔ بولو! کیا خیال ہے ‘‘؟
’’لیکن میں کچھ سمجھا نہیں‘‘!
’’ تم اپنی زندگی مجھے بیچ دو بہت ساری دولت کے بدلے میں‘‘۔
’’ میں ابھی بھی نہیں سمجھا ، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں‘‘؟
’’ مطلب سمجھنا چاہتے ہو تو سنو! میں تمہارا ’’لائف انشورنس‘‘ کروں گا اور دو سال کے بعد تمہیں اپنی کار کا ایکسیڈینٹ کرنا ہوگا، جس سے مجھے تمہارے انشورنس کی رقم مل جائے گا اور تمہاری ساری پرابلمز بھی سالو وہو جائینگی۔ اس سے تمہارا بھی کام ہو جائے گا اور میرا بھی۔ کہو کیا کہتے ہو‘‘؟
’’بیگ صاحب! مجھے منظور ہے‘‘
’’ تو پھر ٹھیک ہے۔ آج سے دو سال کے لئے زندگی تمہاری لیکن تمہاری موت میری‘‘!!!
اور پھر بیگ صاحب نے ایگریمنٹ کے پیپرس تیار کروا کر اس پر سمیر کے دستخط لئے اور ایک بلینک چیک سمیر کو تھماتے ہوئے بولے’’ اس میں اپنی مرضی سے کو ئی بھی رقم بھر لینا۔ لیکن یاد رہے آج سے دو سال کے بعد فرسٹ جون کو تمہیں ایگریمنٹ کے مطابق مرنا ہوگا‘‘۔ اور پھر بیگ صاحب کمرے سے باہر چلے گئے۔
اس کے بعد سمیر کی زندگی نے ایک نئی کروٹ لی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے حالات بالکل بدل گئے۔ اس نے بازار سے نئے کپڑے خریدے اور ایک شاندار گاڑی میں سوار ہو کر اپنے گھر کی طرف نکل گیا۔جیسے ایک بڑی ، شاندار گاڑی گھر کے دروازے پر رکی، محلے والوں نے گاڑی اور گھر کے دروازے کو گھیر لیا اور گھور گھور کر دیکھنے لگے اور آپس میں باتیں کرنے لگے کہ یہ صاحب کون ہیں؟
سمیرکار کا دروازہ کھولتے ہوئے ، بہت ہی اسٹائیل سے دھوپی چشمے کو آنکھوں سے ہٹا کر اپنے سر پر لگاتے ہوئے بولا’’ جُمّن چاچا کیسے ہیں آپ‘‘؟ جُمّن چاچا نے سمیر کو پہچانتے ہوئے کہا’’ بیٹا! تمہاری کوئی لاٹری لگی ہے کیا‘‘؟
سمیر نے مسکراتے ہوئے کہا’’ ایسا ہی سمجھ لو چاچا‘‘۔ اور سمیر جوں ہی گھر کے اندر داخل ہوا تو بہن سمیر کو دیکھ کر خوشی سے ماں ماں چلاتے ہوئے ماں کے کمرے کی طرف دوڑی اور ماں کے کمرے میں پہنچ کر جلدی سے بولی ’’ماں! بھیا آگئے‘‘۔ سمیر بھی بہن کے پیچھے پیچھے ماں کے کمرے میں گیا۔ ماں نے سمیر کو دیکھا اور کھانستے ہوئے پوچھا! ’’بیٹا! تو کیسا ہے؟ اور اتنے دن کہاں تھا؟ میرے لال!
ابھی سمیر کچھ بولنے ہی والا تھا کہ بہن نے روتے ہوئے سمیر سے کہا’’ بھیا! آپ کہاں تھے؟ آپ جانتے ہیں! ماں کی طبیعت کتنی خراب تھی اور لوگوں نے قرض کا مطالبہ کرکر کے ہمیں کتنا پریشان کیا؟ اور مکان مالک ہر روز ہمیں گھر سے نکالنے کی دھمکی دیتا تھا‘‘۔ سمیر نے بہن کے آنسو پوچھتے ہوئے پاس کھڑے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا جاؤ سب قرض والوں کو بلا لاؤ۔ تھوڑی ہی دیر میں سب لین دار سمیر کے گھر پر موجود تھے۔ مکان مالک، دودھ والا، بنیا وغیرہ۔
سمیر نے مکان مالک کو گھر کا کرایا دیا تو مکان مالک جلدی جلدی کرائے کے پیسوں کو گنتے ہوئے بولا’’ سمیر بیٹا! اس میں یہ ہزار روپیہ زیادہ ہیں ۔ تم نے شاید غلطی سے دئیے ہونگے۔
’’ نہیں! میں نے غلطی سے زیادہ نہیں دئیے بلکہ تم نے کرایا وصول کرنے میں جو انتظار کیا اس کاہے۔ معاوضہ پھر دودھ والے کو سمیر نے پیسے دیتے ہوئے کہا جو اس میں زیادہ پیسے ہیں وہ تم نے جو دودھ میں پانی ملایا تھا اس پانی کا ہے اور پھر بنیا کو! اس میں بھی پیسے زیادہ ہیں جو تم نے دال، چاول وغیرہ میں کنکر پتھر مکس کیئے تھے اس کے لئے ہیں۔ اب آپ لوگوں کا حساب کتاب صاف ہوگیا ہوگا۔ سبھی نے بہت خوشی سے جواب دیا ’’ جی ہاں! اور دیکھو بیٹا! اگر پھر تمہیں ادھار کی ضرورت پڑے گی تو کوئی سنکوچ نہ کرنا‘‘!
’’ کیوں نہیں چاچا! میں آپ لوگوں کو بھلا کیسے بھول سکتا ہوں! ہمیشہ یا د رکھوں گا‘‘ اور ہاتھ کے اشارے سے باہر کا راستہ دکھاتے ہوئے سمیر بولا’’ اب آپ لوگ یہاں سے۔۔۔۔۔
سمیر نے ماںکا اعلاج کسی بڑے ہاسپٹل میں کروایا ، چھوٹے بھائی کو شہر کے سب سے بڑے اسکول میں داخل کروایا اور جلد ہی بہن کا رشتہ ایک بڑے گھرانے میں کرا کے اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہوگیا۔ پھر حنا اس کی زندگی میں بہار بن کر آئی۔ وقت بہت ہی خوب صورت خوابوں اور خیالوں کی طرح گذر رہا تھا کہ پھر ایک دن اچانک بیگ صاحب اس کے گھر آ پہونچے۔ سمیر ، بیگ صاحب کو دیکھ کر گھبرا گیا جیسے اسے کوئی بھولا ہوا یاد آ گیا ہو۔
بیگ صاحب سمیر کو اپنی کار میں بیٹھاکر اسی جگہ لے گئے جہاں سمیر ایک دن خود کشی کرنا چاہتا تھا۔
بیگ صاحب اپنی کوٹ کی جیب سے اگریمنٹ کے پیپر نکال کر سمیر کو دیتے ہوئے بولے’’ آج یکم جولائی ہے اور تمہیں ایگریمنٹ کے مطابق اپنا وعدہ آج پورا کرنا ہے اور یہ کہتے ہوئے بیگ صاحب نے گاڑی کی چابی سمیر کے ہاتھوں میں دے دی۔
سمیر گاڑی میں بیٹھ کر ایگریمنٹ پورا کرنے نکل پڑا اور ایک سنسان پہاڑی کے پاس پہنچ کر رک گیا۔ پھر ادھر ادھر دیکھ کر گاڑی پھر سے اسٹارٹ کی اور تیز رفتار سے گاڑی چلاتے چلاتے کھائی کی طرف بڑھنے لگا۔ جوں ہی گاڑی کھائی میں گرتی ، اس نے گاڑی کو روک دیا۔ ہزار ہمت کرنے پر بھی وہ اپنی ہمت نہیں جٹا سکا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ماں، بہن، بھائی اور حنا کا چہرا دکھائی دینے لگا۔ اب وہ مرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ اپنے پریوار کے ساتھ جینا چاہتا تھا۔ لیکن بیگ صاحب سے کیا ہوا وعدہ بھی پورا کرنا ضروری تھا۔ سمیر نے ایگریمنٹ پورا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ہر بار ناکامیاب رہا۔آخر کار وعدہ کے مطابق خودکشی نہیں کرسکا اور بیگ صاحب کے بنگلے پر لوٹ آیا۔
بیگ صاحب سمیر کو دیکھتے ہی بولے’’ برخوردار! تم یہاں ؟ تمہیں تو ایگریمنٹ کے مطابق۔۔۔۔۔
ابھی بیگ صاحب بول ہی رہے تھے کہ سمیر فورا بیگ صاحب کے قدموں میں گر گیا اور رونے لگا اور کہا’’ میں خود کشی نہیں کرسکتا، میں اب جینا چاہتا ہوں، خود کے لئے اور اپنے پریوار کے لئے۔ مجھے معاف کر دیجئے بیگ صاحب‘‘۔
بیگ صاحب سمیر کو اٹھاتے ہوئے بولے’’ میرا تمہاری ہی طرح ایک بیٹا تھا جس کو میں کھو دیا اور تمہیں یہی بتانا چاہتا تھا کہ زندگی بہت قیمتی ہے۔ اللہ نے زندگی جینے کے لئے دی ہے۔ مصیبتیں اور پریشانیاں تو زندگی کا حصہ ہیں۔ ان کا ہمت سے سامنا کرنا چاہئے۔ زندگی بہت موقع دیتی ہے لیکن موت! موت کبھی دوسرا موقع انسان کو نہیں دیتی۔
جاؤ! میں نے تمہیں اپنے ایگریمنٹ سے آزاد کیا۔۔۔۔۔۔
���
اسسٹنٹ پروفیسر ، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری
موبائل نمبر؛7006979242