زندگی ایک عظیم نعمت ہے۔ اس کی قدر و قیمت بیش بہا ہے۔ یہ صرف ایک بار ملتی ہے۔ زندگی اپنی نہیں ہوتی ہے،یہ کسی کی دی ہوئی امانت ہے۔امانت کو ضائع یا خیانت کرنا جرم عظیم ہے۔
زندگی ایک امتحان بھی ہے۔خوشی اور غم ،اسانیاں اور مشکلات، امتحان کا حصہ ہے۔ انسان کی ساری خواہشیںدنیا میں پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ اس تصور کے ساتھ اگر زندگی بسر کی جائے ، تو بہت سارے مسائل خود بہ خود حل ہو جائیں گے۔
موت کے دو فرشتے جب روح قبض کرنے کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں۔ انسان اس وقت صرف ایک تمنا کرتا ہے کہ کاش اسے ایک مہلت اور مل جائے تو وہ نیک اور صالح بن کر صالحین میں شمار ہو جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ مؤخر نہیں ہو سکتا،نا ہی دنیا کی کوئی طاقت اسے ٹال سکتی ہے۔ عبادالرحمان کاطرز عمل یہی ہے کہ وہ زندگی کو غنیمت جان کر دنیا و آخرت کا سامان تیار کرتے ہیں۔
جہاں ایک طرف کرونا کی عالمی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے وہی ایک اور وبا تیزی سے سر اٹھا رہا ہے،وہ ہے خود کشی۔ اپنی غفلت کی اگر یہی حالت رہی تو وہ دن دور نہیں جب اسکا تناسب کرونا کو بھی مات دے گا۔ WHO کے مطابق ہر سال پوری دنیا میں چھ سے آٹھ لاکھ لوگ خودکشی کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ تازہ سروے کے مطابق اس میں پچھلے برسوں کے مقابلے میں 6.7فیصدکا اضافہ ہوا ہے۔
دنیا کا کوئی بھی مذہب یا کسی بھی ملک کا قانون، اجازت تو دور کی بات ہے، بلکہ الٹا اس پر ٹوکتی اور کوستی ہے۔ یہاں تک کہ کچھ ممالک میں اس کے اہل خانہ کو سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ہر سال لاکھوں لوگ یہ گھناؤنی عمل کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔ ایسا کیوں؟
ماہرین نفسیات جب اس موضوع پر بات کرتے ہیں تو وہ کہیں وجوہات بیان کرتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم اور بنیادی وجہ جس کی طرف ہمارا کم دھیان ہے،وہ ہے "انسان کا بے مقصد زندگی گزارنا"ہے۔ آ ج کے انسان کو صرف مادہ پرستی اور معدہ پرستی کی تعلیم سے نوازا گیا ہے۔ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست یا Eat , drink and be merry.سے آگے کچھ اور سوچنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر زندگی کا حقیقی مقصد یہی ہوتا، تو جن اقوام کو یہ سب کچھ حاصل ہو چکا ہے، وہاں خود کشی کا تناسب سب سے زیادہ کیوں ہے ؟
یورپ، دنیا کا فارغ البال اور ترقی یافتہ خطہ مانا جاتا ہے۔ تعلیم ہو یا معیشت ، ٹیکنالوجی ہو یا کوئی اور شعبہء زندگی، ہر میدان میں اعلیٰ سہولیات میسر ہیں۔ لیکن اسی یورپ میں خود سوزی کا گراف باقی پس ماندہ دنیا سے بہت اوپر ہے اور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف ہر سال لاکھوں مردوزن اس قبیح عمل سے گزر کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں، وہیں ایسی شخصیات بھی ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اب تک سات ایسی شخصیات نے خودکشی کر کے زندگی کی نعمت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جو نوبل انعام یافتہ ہیں، ان کے پاس سب کچھ تھا دولت، شہرت ، عیش و عشرت کے سارے وسائل لیکن وہ کون سی شے ہے جس نے انھیں زندگی پر موت کو ترجیح دینے پر مجبور کیا۔ ماہر نفسیات کے مطابق ان کے پاس سب کچھ تھا مگر اپنے خالق کی معرفت نہیں تھی۔ زندگی کے حقیقی مقصد سے نابلد تھے۔ جس کے سبب انہیںچین تھا نہ سکون ۔ دنیا میں سب سے زیادہ نیند آ ور گولیاں بھی یورپ میں ہی استعمال کی جاتی ہیں۔
اس ایک بنیادی سبب نے دوسرے اسباب کو جنم دیا۔ کسی جگہ سیاسی استحصال ہے، کہیں معاشی بد حالی ہے، کہیں مفاد پرستی ہے تو کہیں غیر اخلاقی تعلقات ہیں۔ لاک ڈاؤن اور شٹ ڈاؤن کا بھی رول رہا۔ گھریلو تشدد اور نوجوانوں کا نشہ آور ادویات میں مبتلا ہونا بھی اسباب میں شامل ہیں۔
اپنے خطہ کشمیر کی بات کریں جو کبھی جنت کا نظارہ پیش کرتی تھی، جہنم زار بنی ہوئی ہے۔ یہ دھرتی پر ایک ایسا خطہ ہے جہاں پر مذکورہ بالا تمام عوامل کار فرما ہیں۔ جب ہی یہاں آ ئے روز ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جنھیں دیکھ کر یا سن کر بندہ شش و پنج میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہاں کی 90فی صد آبادی ڈپریشن کی شکار ہے۔ دنیا کی مشہور رفاعی تنظیم ڈاکٹر بغیر سرحدMSF نے یہاں قریب دو دہائیوں تک کام کیا۔ ان کی ساری کاوش Mental health پر صرف ہوئی۔ یہاں پر کوئی ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسائل کی آ ماجگاہ بن چکاہے،یا اسے مسائلستان بھی کہہ سکتے ہیں۔
چند روز قبل کی بات ہے کہ شادی کے بالکل اگلے روز ایک دولہےنے خود کا کام تمام کیا ۔ ایک نوجوان نے پہلے ویڈیو پیغام بنایا پھر کپواڑہ سے سرینگر تک کا سفر کر کے جہلم میں چھلانگ لگا دی۔ چار روز بعد اس کی نعش برآمد کی گئی۔ ایک نوجوان نے باپ کی تنخواہ نہ ملنے پر خود سوزی کا سہارا لیا۔ چند برس قبل کی بات ہے ایک خاتونIAS آ فیسر نے خودکشی کی ایک ناکام کوشش کی۔ آ ٹھویں جماعت کے ایک طالب علم امتحان میں ناکام ہونے پر یہ عمل دہرائی۔ تازہ خبر کے مطابق آگرہ میں ایک خاتون نے دیسی بندوق سے اپنے سینے میں گولی ٹھونک دی۔ اپنے تین صفحے کے suicide note میں انھوں نے وزیراعظم سے اپیل کی کہ وہ گھریلو تشدد سے خواتین کو نجات دلائے۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہیں جن کا آ ئے روز مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسی بھی وارداتیں ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتی ہیں، کیونکہ اس چیز کو بہرحال سماج میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے، تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے۔
معاشرے کے مختلف انگ اگر اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی ٹھان لیں گے تو اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے۔ والدین، نوجوان،اساتذہ ، ڈاکٹرس ،سرکاری مشینری، علماء و دانشور یہ سب معاشرے کے اہم اجزاء ہیں۔ لیکن اول نمبر پر والدین کا رول ہےکہ وہ گھر میں اخلاقی تربیت کا سامان کریں ۔ اگر آپ اپنی تربیت پر توجہ مرکوز کریں گے تو اس کا اثر آپکے بچوں پر ضرور پڑے گا۔ آپ کی بالغ اولاد اگر مرضی کی شادی کرنا چاہتے ہیںتو اس میں بے جا رکاوٹ نہ بنیں۔ بچہ اگر سائنس کے بجائے آ رٹس مضامین لینا چاہتا ہے تو اسکا حق نہ چھینیں۔ علماء یہ فتویٰ جاری کریں کہ خودکشی کرنے والے کا جنازہ نہ پڑھا جائے تو معاشرے میں ایک احساس پیدا ہوگا ۔ سرکار قانون کا سہارا لے کر اس کا روک تھام کرسکتی ہے۔
وجوہات جو بھی ہوں بہرحال اس گھناؤنی حرکت کا جواز پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی یہ کسی مسلے کا حل ہے بلکہ یہ نئے مسائل کی جنم بھومی بن سکتی ہے۔ اِسے پریشانیوں سے نجات پانے کا shortcut تصور کیا گیا ہے، یہاں تک کہ یہ fashion of the day والی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ مگر انھیں کون سمجھائے کہ یہ نجات کا ذریعہ نہیں بلکہ ابدی عذاب و ذلت کا ذریعہ ہے۔
خود کشی سے کوئی نجات نہیں پاتا، نجات پانی ہے تو اپنے میں’خودی‘ یا ’خودشناسی‘ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
علامہ کے اس شعر پر اکتفا کرتا ہوں۔ ؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
(گرلز ہائر سیکنڈری اسکول لنگیٹ)
8825092384