کشمیر کی فضائوں میںماتم اور مایوسیوں کے بادل جس شدت کےساتھ گہراتے جارہے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے کہیں سے اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔ پلوامہ میں جس انداز سے شہریوں کا خون بہایا گیا، وہ حالات سے نمٹنے کےلئے حکومت کا ایک پالیسی انداز دکھائی دے رہا ہے۔ وگرنہ پتھرائو کے واقعات ملک کی کس ریاست میں پیش نہیں آتے اور کہاں ہجوم پر اس انداز سے گولیاں برسائی جا تی ہیں کہ بدن کا کوئی حصہ ہی محفوظ نہ رہے۔ حکام کی جانب سے ہمیشہ معیاری ضابطہ کار SOPکی باتیں کی جاتی ہیں لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کشمیر میں امن وقانون کے اداروں کے لئے اس ضابطۂ کار کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ اس طرح فورسز ادارے نہ صرف آئین و قانون کے ضوابط کی دھجیاں بکھرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ اس طریقہ ٔ کار کواپنی ضروریات کا حصہ جتلاء کر جمہوریت کے اُن بنیادی تقاضوں سے منکر ہو رہے ہیں، جو عام لوگوں کو آئینی اور جمہوری حقوق فراہم کرنے کے پابند ہیں۔پلوامہ میں خاک وخون کی جو ہولی کھیلی گئی ہے، اُس پر مقامی سطح پر ردعمل آنا منطقی ہے لیکن ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سنجیدہ فکر طبقوں کی جانب سے جس انداز سےردعمل آنا شروع ہوا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دنیا اس طرز عمل کو ایک پالیسی کے طور قبول کرنے کےلئے تیار نہیں، بھلے ہی نئی دہلی کے ایوانوں میں براجمان مقتدرانِ وقت اسے کشمیر مسئلے کے حل کی واحد صحیح سمت تصور کریں۔ حالانکہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے توانکی یہ سوچ قطعی طور صحیح نہیں ہوسکتی، کیونکہ ماضی سے چلی آرہی دبائو کی پالیسی کا منطقی نتیجہ تشدد کے ماحول میں ایزاد کے سوا کچھ سامنے نہیں آیا ہے۔چنانچہ دھونس دبائو اور انتہا ئی طرز عمل کی سوچ کے ردعمل میں عوامی جذبات اور مجموعی سوچ میں مزید شدت آنے کا احتمال پیدا ہوسکتا ہے، کیونکہ عوام کے سینوں کے اندر لگے زخموں سے اُٹھنے والی ٹیس اعتدال اور توازن کی فضاء کو متاثر کئے بغیر کہاں رہ سکتی ہے؟۔ ایسے میں حالات کے اندر سدھار پیدا کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ جو کم از کم فورسز اکائیوں کی جانب سے معیاری ضابطہ کار پر عمل آوری کو ممکن بنا نے کی پوزیشن میں ہے، لیکن یہ جبھی ہوسکتا ہے، جب اسکا ارادہ دیانتدارانہ ہو۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ طاقت کے مظاہرے کی سوچ اور پالیسی میں تبدیلی لائی جائے، نیز کم از کم اُن قوانین اور ضوابطہ پر عملدرآمد کرنے کا ماحول پید اکیا جائے ، جو ایسی صورتحال سے نمٹنے کےلئے موجود ہیں۔ حکومت کی جانب سے پلوامہ خوان خرابے کی تحقیقات کا اعلان کیا گیا لیکن ایسے اعلانات پر عوام کا یقین کرنا بہت ہی مشکل ہے، کیونکہ ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ فکر طبقے ایسے اعلانات کو وقت گزاری کے علاوہ کچھ تسلیم کرنے کےلئے تیار نہیں۔ رواں برس کے دوران ہی گنا پورہ شوپیان میں اسی نوعیت کی ہلاکت پر فوج کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے محبوبہ مفتی کی قیادت والی اُس وقت کی سرکار نے تحقیقات کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے ردعمل میں بھاجپا کی جانب سے متعلقہ ایف آئی آر کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ تحقیقات کا کیا ہوا؟، وہ ہنوز ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ حالانکہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے اُن ایف آئی آروں کو برقرا رکھنے کا فیصلہ صادر کیا ، جو افسپا کے نفاذ والے شمالی مشرقی علاقوں اور جموںوکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور جنہیں ردکرانےکی غرض سے عدالت عظمیٰ میں عرضی دائر کی گئی تھی ، جسے عدالت نے خارج کر دیا۔ اس سے قانون کے مزاج کی عکاسی ہوتی ہے لیکن زمینی سطح پر ان ہی قوانین کو کس طرح نافذ کیا جاتا ہے ، یہ شاید بتانے کی ضرورت نہیں ۔ حکومت کے طرز عمل سے دوریاں کم ہونے کی بجائے ان میں مزید اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے اور اگر حکام اس امر کے خواہاں ہیں کہ فاصلے کم ہوں تو اس کےلئے ضروری ہے کہ ہلاکتوں کےلئے ذمہ دا ر افراد کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرکے قانون کے تقاضوں کی تکمیل ہو۔ اسی عنوان سے غم و غصہ اورنفرت کی فضاء صاف ہوسکتی ہے۔
خون کی ارزنی کب تک؟
