خونین سڑک حا ثا دت !!!

     ریاست بھر میں یکے بعد دیگرے دلدوز سڑک حا دثا ت کاپیش آنا ہماری کم نصیبی اور ٹریفک حکام کی نااہلی کا منہ بو لتا ثبوت ہے۔ افسوس کہ ٹریفک حادثات ا س تواتر کے ساتھ پیش آ تے رہتے ہیں کہ لگتا ہے انہیں بھی ہم نے مجموعی طور معمولاتِ زندگی کا حصہ مان لیا ہے۔ دیکھا یہ جارہاہے کہ جاں لیوا ٹریفک حادثات پر کچھ دن تک تولوگ کف ِافسوس ملتے ہیں لیکن پھر انہیں فراموشی کے بستے میں ڈالا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ متاثرہ گھرانوں میں ہی غم والم اور ما تم وسینہ کوبیاں ڈیرا ڈالتی ہیں۔ حد یہ کہ سڑ ک حا دثوں کے تسلسل پر ہمارے ارباب بست وکشاد صرف روایتاً اظہار تاسف پر اکتفا کر کے اپنی پنڈ چھڑاتے ہیں ، جب کہ کہیں بھی ایسا لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا جاتاجس سے روڈایکسڈنٹ اگر سرے سے ختم بھی نہ ہوں مگر ان کی تعداد میں کمی تو واقع ہو۔ یہ آفاقی حقیقتیں ہیں کہ موت اور زند گی کے فیصلو ں پر کاتب ِ تقدیر کے بجزکو ئی قادر نہیں ا ورہو نی کو کو ئی ٹا ل نہیں سکتا مگر بلا ناغہ روڈ ایکسیڈنٹوں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر ٹھنڈے پیٹو ں برداشت کر نا بھی ایک مضحکہ خیز سوچ ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ بے قابو سڑ ک حا دثا ت پر عام لوگ یہ سوالات کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ٹریفک حکام فی الفور ان کے پس پردہ اسباب ومحرکات کو سمجھنے کی سنجیدہ کو شش نہیں کر تے؟ وہ یہ طے کیوں نہیں کرتے کہ ایسے جگر سوزسانحات میں ڈرایئو نگ سیٹ پر بیٹھے ہوؤں کی کو تا ہیو ں اور حماقتو ں کا کتنا عمل دخل ہے ؟ وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہما را ٹریفک نظام ان دل دہلانے والے حادثات کے باوجود بھی لکیر کا فقیر بنا ہو ا ہے ؟ انہیں یہ کیوں نہیں سوجھتا کہ وہ کونسے تیر بہدف اقداما ت ہیں جن کی مدد سے سڑک حادثات پر جتنا بھی ممکن ہوقابو پا یا جا سکتاہے؟ یہ بات عیا ں و بیا ں ہے کہ ہما رے یہاں اکثر و بیشتر دونو ں غلط ڈرائیونگ بھی اور راہ گیرو ں کی جاںگسل غلطیا ں بھی حا دثا ت کی مو جب بنتی رہتی ہیں۔ اس کے بین بین جہاں بہتر ٹر یفک پلا ننگ کا فقدان ہو ، ٹر یفک نظام کے کمانڈ اور کنٹرول کرنے والے مخصوص اہل کاروں میں احسا س ِ ذمہ داری کی عدم مو جو دگی ہو، علی الخصوص تیز رفتارڈرا ئیو نگ اور لائسنس کے اجرا ء میں غیر ذمہ داریوںکا عمل دخل بھی ہو، نیز سڑ کوںکی تنگی کے علا وہ ٹریفک پو لیس کے بعض حصوں میں ہفتۂ وصولی کی وبا جیسے اسباب و محرکات ایک جگہ جمع ہو ں تو سڑک حا دثات کا پیش آ نا کو ئی حیرا ن کن با ت نہیں رہتی۔ یہ ٹریفک سسٹم کی تباہ حالی کا ہی شاخسانہ ہے کہ اب چاروں طرف لمبے لمبے ٹر یفک جا م لگنے کی روایت شہرو دیہات میں عام ہو چکی ہے۔ اس سچویشن کے پیش نظر یہ کہنا درست ہو گاکہ سری نگر جموں شا ہراہ سمیت دیگر سڑکیں شاہراہیںعوام الناس کے لئے موت کا ہو ل سیل پھندا بن چکی ہیں۔ یہ کتنی اندوہ ناک حقیقت ہے کہ جموں سر ی نگر ہائی وے پر گزشتہ پا نچ سات سال سے جو خو ف ناک حا دثا ت متواتر پیش آتے رہے ہیں ،ان کو یا دکر کے آج بھی دل تھر تھرکانپ اٹھتے ہیں۔ بعینٖہ شہروں اورقصبوں کی مصرو ف سڑ کیں اور گلی کو چے ہمہ وقت بھاری بھر کم ٹریفک دبا ؤ کے زیر اثر ان ہر دو مسائل سے نبرد آ زما ہیں۔ اس کے لئے انتظامیہ کے کل پرزے بری الذمہ قرارنہیں پاسکتے۔ یہ بات بھی فہم سے بالاتر ہے کہ متعلقہ حکام کو ئی عوام دو ستا نہ ٹریفک پا لیسی وضع کر نے کی ضرورت محسوس کیوں نہیں کر تے؟ٹر یفک محکمہ اس پہلوسے بھی جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے کہ اس کی صفوں میں سب لوگ فرض شناس اور عوام دوست نہیں۔ ا س سے بڑھ کر حرماں نصیبی کیا ہوگی کہ روز روز سڑک حادثات کے باوصف مذکورہ محکمہ اپنی بھاری بھر کم ذمہ داریاں محسو س کر نے میں ناکام دکھائی دے رہاہے جب کہ بر سہا برس سے ناقص ٹریفک نظا م انسا نی جا ن و ما ل کے لئے وبالِ جان بنتاجارہا ہے۔ اگر اس سلسلے کو بد لنے کی خواہش ارباب ِ حل وعقد کے دل کے کسی کو نے کھدرے میں پنہا ںہے ،تو اس کے لئے متعلقہ محکمہ کو گہری نیند سے جگا نا وقت کی اہم پکا ر ہے۔ ایک واجبی عقل وفہم رکھنے والا انسان بھی تسلیم کر ے گا کہ کسی اصلا ح طلب نظا م کو ٹھیک ٹھاک خطوط پر چلا نے کے لئے اعلیٰ تر ین سطح پر کتنی ہی جا ندا ر اور انقلابی ہدایات دی جا ئیں یا زمینی حالات کا نقشہ بد لنے کے لئے کیسی ہی معقول حکمت عملی وضع کی جائے، جب میدان عمل میں یہ ایک کاغذی کا رروائی ثابت ہو تو اسے صرف خیا لی جنت کہا جاسکتاہے۔ بے شک سڑک حادثات  کے بڑھتے ہوئے سلسلے کی روشنی میں ہر کو ئی مانتاہے کہ ریا ست بھر میں ٹر یفک نظا م میں بہتری لا نا ایک نا قا بل ِ التواء ضرورت ہے ۔ یہ بہتری نیک تمنا ؤں سے یا متا ثر کن کا غذی ہدا یا ت جا ری کرنے سے با ل برابر بھی آ نے کی تو قع نہیں کی جا نی چا ہیے ، اِلا یہ کہ جب تک متعلقین مسئلے کی گہرا ئیو ں اور گیرائیو ں میں اُ تر کر ٹریفک نظام میں موجودتما م نقائص اور کو تا ہیو ں کا  پیشہ ورانہ بنیادوں پرخا تمہ کر نے کا بیڑہ نہیں اُٹھاتے۔ اس حوالے سے یہ سادہ سی حقیقتیںبھی سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ بر سوں سے متوا تر وہیکل پا پو لیشن میں دن دو گنی ر ا ت چو گنی اضا فہ ہو رہا ہے ، سڑکیں اتنی تنگ اورخستہ حا ل ہیں کہ ان پر مشکل سے ہی تا نگے دوڑیںپھر یں، مصرو ف تر ین بازاروں میں بیک وقت خو انچہ فروشو ں ، ریڑ ھے بانوں اور دوکانداروں کا بلا کسی پس و پیش کے قبضۂ ناجائز جماہوا ہے، ٹر یفک عملہ سڑکوں شاہراؤں پر ٹریفک کی آمد و رفت میں نظم و ضبط لانے کے لئے تعداد کے اعتبا ر سے آ ٹے میں نمک کے برا بر بھی نہیں، بعض ٹر یفک اہلکاروں کودوسرے سر کاری ملازمین کی ما نند اوپری آ مدنی کے چکر میں اپنے اصل فرا ئض انجام دینے میں دلچسپی نہیں ، چھو ٹے چھوٹے بچوں کو سڑ کو ں اور گلی کو چو ں میں بلا لا ئسنس مو ٹر بائک چلا نے کے ہلا کت آ فرین نتا ئج دیکھنے کے با وجو د متعلقہ حکام کا ٹس سے مس نہیںہورہے۔ یہ سب ٹر یفک نظا م کے وہ پھوڑے پھنسیا ں ہیں جن کو دیکھنے کے لئے کسی دور بین کی قطعی حا جت نہیں۔ ان نقائص اور امراض کو یہاںگنانے سے یہی مطلب ہے کہ ٹریفک نظا م میں صحت مند بد لا ؤ لا نے کے ضمن میں ان تمام بیما ریو ں کا تسلی بخش علاج ومعالجہ کر کے وہ مقصد پو را کیا جا ئے جسے یو نہی نظر انداز کیا جاتارہا تو مستقبل میں خدا نخواستہ خو ن کے آ نسو رُلا نے والے سڑک حادثات کا سلسلہ لاکھ رو کے بھی رُکے گا نہ اس بلائے ناگہانی سے نجات پا ئی جاسکتی ہے۔