جموں وکشمیر کے طول عرض میں آوارہ کتوں کی تعداد میںوسیع پیمانے پر اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے،اور لوگوں کے تئیں آوارہ کتّوںکی وحشت و دہشت اور تشددمیں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔روزانہ بنیادوں پر پیش آنے والےواقعات کےباعث ِ صورت حال تشویش ناک ہونے کے باوجودیہاں کےانتظامیہ کی خاموشی انتہائی غیرذمہ دارانہ اور دلسوز ہے۔اس پر طرہ یہ کہ اس مصیبت کو قابو کرنے کی کوئی منظم کوشش نہیں کی جاتی۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہسپتالوں میں رجسٹر کئے جانے والے کتّوںکے کاٹنے کے کیسوں کی تعداد میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ نہیں ہوتا۔آج وادیٔ کشمیر کی تقریباً تمام بستیوں اور قصبہ جات یہاں تک کہ سرینگر کی سمارٹ سِٹی میں بھی جہاں سے بھی گذر ہوتا ہے ،غول در غول آوارہ کتّے لوگوں کے لئے سدراہ بنتے ہیں۔گذشتہ کئی برسوں سے تواتر کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں راہ گیر اِن کے حملوں کا شکار ہوکر اسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیںاور کئی ایک تو موت کی کگار پر پہنچ جاتے ہیں۔آوارہ کتّے عادتاً چھوٹے بچوں پر چڑھ دوڑتے ہیں اور بچے بھی گھبراہٹ کے عالم میں جدھر کو راستہ ملے خود کو بچانے کے لئے اُدھر کی طرف بھاگنے میں عافیت سمجھتے ہیںاور یہ صورتحال بعض اوقات انتہائی رنجدہ سانحات کو جنم دیتی ہے۔آئے روز میڈیا کے توسط سے شہر سرینگر میں آوارہ کتّوں کے ذریعہ خونچکانی کے واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیں،شہر ِ خاص کی ہر شاہراہ آوارہ کتّوں کی آماج گاہ بن چکی ہیں۔ گذشتہ مہینوں میں کتّوں نے شہر کے کئی علاقوں میں کئی درجن شہریوں کو لہولہان کردیا جبکہ انتظامیہ نے ان سانحات کے محرکات کے بارے میں چُپ سادھ رکھی ہے۔آج شہر سرینگر میں آوارہ کتّوں کی تعداد کے بارے میں ثقہ اعدادوشمار دستیاب تونہیں لیکن ظاہری طور پر جو تناسب دکھائی دے رہا ہے ،وہ کسی بھی مہذب سماج میں قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔جموں و کشمیر کے دیگر شہروں اور قصبہ جات کی صورت حال بھی کم و بیش اسی کے آس پاس ہے کیونکہ برسہا برس سے لوکل باڈیز اداروں نے کتّوں کا صفایا کرنے یا ان کی آبادی کو قابومیں لانے کا کام بند کردیا ہے۔پارلیمنٹ نے اس حوالے سے جو قانون بنایا ہے ،اُس کے تحت آوارہ کتّوں کی ہلاکتوں پر پابندی تو عائد ہےلیکن ان کی تعداد کو قابو کرنے کے لئے نس بندی جیسے دیگر ذرائع استعمال کرنے کی ہدایات موجود ہیں،مگر یہاں انتظامیہ نے جہاں ایک جانب انسانی بستیوں کے اندر غول در غول گھوم رہے، ان کتّوں کا صفایا کرنے کا کام بند کردیا ،وہیں دوسری جانب بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجودنس بندی کا کوئی منظم پروگرام بھی عمل میں نہیں لایا۔یہ الگ بات ہے کہ جب کہیں پہ کتّوں کے کاٹنے کی شکایت بار بار سامنے آتی ہے تو دکھاوے کے لئےیہ اقدام کیا جاتا ہے۔لیکن بہ ایں ہمہ صورت حال دن بہ دن بے قابو ہورہی ہے۔اس پر طرہ یہ کہ شہروں اور قصبوں میں ہزاروں ٹن کوڑا کرکٹ لتھڑا پڑا رہتا ہے جو ان کے فروغ کا ایک اہم سبب ہے۔فی الوقت یہ ایک حقیقت ہے کہ جوں و کشمیر میں آوارہ کتّے ایک عوامی مصیبت کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔رواں سال کے دوران بھی وادی میں سیکڑوں کی تعداد میں لوگ کتّوں کے حملوںکا شکار ہوتے رہے، جس پر انتظامیہ اور حقوق حیوان کی تنظیموں نے کبھی رنج و تاسف کا اظہار تک نہیں کیا ہے۔اگرچہ میونسپل قوانین کے مطابق انتظامیہ کو ایسے کتّوں کے خلاف کاروائی کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے جو سماج کے لئے مصیبت کا درجہ اختیار کریں،لیکن عملاً ایسا نہیں کیا جارہا ہے۔خاص کر باؤلے کتّوں کے حملوں کے سدباب کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جموں و کشمیر میں لوگوں کو درپیش اس موذی مصیبت پر سےنجات دلانے کی کوشش کی جائے۔انتظامیہ کو کوئی متبادل راستہ اختیار کرکے فوری طور پر موجودہ صورت حال کا ازالہ کرنا چاہئے۔