وہ پی۔ ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد نیٹ اور سیٹ کے امتحان میںبھی اول آچکی تھی۔ اس کی قابلیت اور ذہانت کے چرچے ہر سو ہورہے تھے اس پر طرہ یہ کہ وہ بہت زیادہ خوبصورت بھی تھی۔ کوئی کہتا یہ چاند جیسی ہے کوئی اسے گلاب صورت کہتا ہے۔غرض ہر ایک اپنے اپنے انداز سے فریحا کی خوبصورتی کی تعریفیں کر تا رہتا۔ وہ یونیورسٹی میں بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکی تھی۔ وہاں منعقد ہونے والی ہرایک تقریب میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتی اور ہر بار کسی نہ کسی اعزاز سے نوازی جاتی۔رحمان صاحب کو بھی قوی امید تھی کہ اس کی بیٹی بہت جلدپروفیسر ہو جائے گی کیونکہ تعلیمی اعتبار سے فریحاؔ اوروں سے آگے تھی ۔ وہ بیشتر اوقات من ہی من میں سوچتے رہتے کہ’’میری لخت جگر اب ماشاء اللہ سیانی ہو گئی ہے ہر معاملے میں اچھے اچھے مشورے دیتی رہتی ہے او ر خداکے فضل سے اب جوان بھی ہوگئی ہے میں انشاء اللہ اس کی شادی بڑی دھوم دھام سے کروں گا۔‘‘ مگر وہ اپنے دل کی بات بیوی کو کہہ نہیں پاتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کی بیوی غصّہ کرے گی اور بوکھلا کر کہے گی’’تم کسی قبرستان سے ہو کر مت آئے ہو۔ کسی بھوت پریت کا سایہ مت پڑا ہے، جو اناپ شناپ باتیں کرتے ہو۔تمہاری عقل پر پردہ پڑگیا ہے کیا۔ابھی ہماری بیٹی کی عمر ہی کیا ہے ابھی دودھ کے دانت ٹوٹے نہیں اُسکے اور تم شہنائی بجانے چلے۔‘‘والدین کی اسی کم عقلی کی وجہ سے بہت ساری لڑکیوں کی شادی کی عمر نکل جاتی ہے اور ماں باپ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں کیونکہ وقت کسی کے لئے نہیں رکتا ہے۔ باپ بیٹی جب روبرو ہوتے تو رحمان صاحب باتوں باتوں میںاُسے یہ احساس دلاتے رہتے کہ اس سے یہ گھرایک نہ ایک دن چھوڑ کے جانا ہے۔ بیٹی بھی اشاروں کنائیوں میں کہی باپ کی باتیں سمجھ جاتی اور چپی سادھ کرسر جھکا دیتی اور پھر اُ ٹھ کر چلی جاتی۔وہ سب بڑی بے تابی سے پروفیسر کی خالی اسامیوں کے مشتہر ہونے کا انتظار کر رہے تھے کیونکہ انھیں صد فیصد یقین تھا کہ فریحا سلکٹ ہو جائے گی۔ اسی بیچ کچھ سیاسی اتھل پتھل کی وجہ سے ہر صیغے میں کھلبلی سی مچ گئی اور سرکاری بابو ہر معاملے میں من مانی کرنے لگے۔رشوت ستانی عام ہونے لگی اور ہر ایک جیسے دبنگ ہو گیا ہو۔ جنت کی تمنا نہ جہنم کا ڈر۔کسی سرکاری بابو سے کچھ پوچھو تو پہروں جواب ندارد۔ ایسا محسوس ہوتا تھاکہ ان پر کالے دیوئوں کاسایہ پڑ گیا ہے اور ہر ایک کی سدھ بدھ میں فتور آگیا ہے۔ وقت اسی خلفشار میں گزرتے دیکھ‘پڑھے لکھے بے روزگار اکتاہٹ محسوس کرنے لگے اور انھیں اپنے مستقبل کا ستارہ تاریکیوں میںڈوبتے نظر آنے لگا۔وہ سڑکوں پر اُتر آئے اور فلک شگاف نعرے بلند کرتے رہے۔’’خالی پڑی اسامیوں کو۔۔۔۔ مشتہر کرو۔۔۔۔۔مشتہر کرو۔ کئی روز تک یہ نعرہ بازی کا سلسلہ جاری رہا اور اس عمل میںان کے دوست احباب بھی جڑتے رہے عوامی غم و غصہ کو دیکھ کر کچھ خالی پڑی اسامیوں کو مشتہر کیا گیا۔جن میں پروفیسر کی چند ایک اسامیاں بھی تھیں۔فارم بھرتے ہی کچھ دنوں کے اندر اندرانٹرویو کا انعقاد کیا گیا۔اُس دن فریحا ہنستے کھلکھلاتے ہوئے انٹر ویو روم سے باہر آئی اور سیڑھیاں اترتے ہی رحمان صاحب سے چمٹ کر بے ساختہ بول اٹھی۔’’بابا میں نے ایک ایک سوال کاصحیح جواب دیا۔میں سلکٹ ہوں‘‘وہ خوشیوں سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔یہ سن کر رحمان صاحب کے چہرے سے بھی خوشی جھلکنے لگی اور دونوں بازار جاکر ڈھیر ساری شاپنگ کرکے گھر لوٹے تو آنگن میں بیٹھے افراد خانہ ان کی طرف لپکے ا ور فریحاکی ماں بے تابی سے بولی’’بیٹی انٹر ویو کیسا ہوا‘‘اس نے ماں کو کس کر گلے سے لگالیا اور کہا’’ماں انٹرویوایکدم بڑھیا ہوا۔میں سلکٹ ہوں‘‘’’ تمہارے منہ میں گھی شکر۔سچ بولتی ہوبیٹی۔‘‘’’ہاں ماں، میں نے ہر ایک سوال کاصحیح جواب دیا‘‘وہ خوش ہوکر بولی’’تم سب اندر بیٹھو ۔میں خواجہ صاحب کی درگاہ ہو آتی ہوں، تمہاری سلکشن کے لئے دعا کروں گی‘‘۔سب ہشاش بشاش گھر کے اندر چلے گئے،کچھ ہی پلوں میں فریحا کی ماںواپس لوٹ کراپنے خاوند سے مخا طب ہوکر بولی’’میں یہ منت مانگ کے آئی ہوں کہ میری بیٹی کی تقرری ہو جائے توایک بڑا سا بھیڑدرگاہ پر نذر چڑھاوں گی‘‘۔رحمان صاحب بولے’’فریحا سلکٹ ہوجائے تو ایک کیا ۔۔۔۔دو۔۔دو بھیڑ نذر چڑھائیں گے‘‘اور دیر تک اسی موضوع پرباتیں ہوتی رہیںپھر کچھ عرصہ کے بعددونوں میاں بیوی روبرو تھے کہ رحمان صاحب بولے’’میں سوچ رہا ہوں کہ اسی سال فریحا کی سگائی ہونی چاہیے اس کی تقرری کا آرڈر بھی آتا ہی ہوگا۔پھر گھر میں دہری خوشیاں آئیں گی ۔ تم اس بارے میں کیا سوچ رہی ہو۔کچھ دیر تک وہ خاموش رہی پھر بغیر غصے کے بولی۔’’میں سوچ رہی ہوں کہ تم جو سوچ رہے ہوٹھیک سوچ رہے ہو۔اب وقت موزون ہے‘‘بیوی کی مثبت سوچ دیکھ کر رحمان صاحب باغ باغ ہوئے۔پھر فریحا کے ما ما جی کو بلوا کرکہا ’’میں تم پر ایک بڑی ذمہ داری ڈالتا ہوںتم فریحا کے لئے ایک اچھا سا لڑکا ڈھونڈلوفریحا کی سگائی اسی سال کریں گے تو گھر خوشیوں سے بھر جائے گا۔‘‘ماما جی رشتہ ڈھونڈ نے میں ہمہ تن جُٹ گئے۔ آس پڑوس میں نظریںدوڑائیں اور کچھ ہی دنوں میں ایک خوبرو لڑکے کا انتخاب کرکے رحمان صاحب کو بتا دیا۔’’بھئی میں نے ایک لڑکے کو تو ڈھونڈ لیا ہے مگر اس کی ایک شرط ہے۔‘‘ ’’شرط۔۔بھلا رشتے ناتوںمیں شر ائط بھی رکھی جاتی ہیں۔پھر یہ انتخاب صحیح نہیں ہے۔‘‘رحمان صاحب سوچوں کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گئے توما جی نے سوچوں کا تسلسل توڑتے ہوئے کہا۔’’ لڑکے کی شرط ہے کہ لڑکی نوکری کرتی ہو۔خیر میرا یہ یقین دلانے پر کہ فریحاجلد پروفیسر بننے والی ہے، اس نے حامی بھر لی۔‘‘رحمان صاحب کو بھی پورا یقین تھا کہ اس کی بیٹی کی تقرری ضرور ہوجائے گی۔پھر سگائی کی تاریخ طے کر دی گئی۔گھر میں رونق آگئی۔اہل خانہ‘رشتہ دار‘دوست احباب خوشیوں سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ سب سگائی کی تیاریوں میں جٹ گئے۔فریحا کی سہیلیاں اس کو مبارک باد دینے آئیں۔ وہ خوش وخرم لگ رہی تھیںایک بولی ۔’مبارک ہو ۔‘’سلامت ‘مگر فریحا۔۔کیا رحمان صاحب تمہاری جدائی برداشت کریں گے۔ وہ تو تمہیں اپنی جان سے زیادہ چاہتے ہیںان کی خوشیاں تم سے بندھی ہیں۔تم چلی جائوگی مانو اس گھر کی خوشیوں کا جنازہ ہی نکل جائے گا‘’یہ کیا الٹی سیدھی باتیں کرنے لگی ہو ۔اللہ اس گھر کو سدا خوشیوں سے آباد رکھے۔‘دوسری سہیلی نے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا’میں مذاق کر رہی تھی۔‘’خیر چھوڑو یہ مذاق کی باتیں۔کسی نے دولہے کو دیکھا ہے‘’ ہاں بھئی ۔وہ بہت خوبصورت ہے۔ یہ جوڑی بہت جچے گی۔’ہماری فریحا بھی تو کسی سے کم نہیں ہے ‘‘دیر تک یہ گپ شپ چلتی رہی۔ اس دن تمام رشتہ دار‘دوست احباب موجود تھے۔ گھر میں بڑی چہل پہل تھی، ضیافتیں پک رہی تھیں،گانے بج رہے تھے کہ فریحا کی ایک سہیلی نے آکر اسے کہا۔’پروفیسر کی اسامیوں کی سلکشن لسٹ ابھی ابھی مشتہر ہوئی ہے مگر۔۔۔۔۔۔!’مگر کیا۔۔!فریحا بے تابی سے بولی۔’تم ڈراپ ہو۔یہ سنتے ہی اس کے پیروں تلے زمین جیسے کھسکنے لگی۔اس پر جیسے غموںکا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔آنکھوں سے آنسوں رسنے لگے۔سہیلی بولی۔’یہ آنسو پونچھ ڈالو۔آج خوشی کا دن ہے۔دیکھو سب کتنے خوش ہیںلڑکے والے بھی آتے ہی ہوں گے۔ عین اسی دقت فریحا کا فون بج اُٹھا اور وہ اوپری منزل میں چلی گئی۔فون اٹھاتے ہی ایک کرخت آواز سنا ئی دی۔’تمہارے گھر والوں نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ تم لسٹ سے ڈراپ ہوچکی ہو۔اب یہ سگائی نہیں ہوسکتی۔انتظار مت کرنا۔‘’ہیلو۔۔دیکھو میرے بابا سے کچھ مت کہناوہ مر جائیں گے۔‘فریحا اور بھی کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن فون کٹ چکاتھا وہ پاگلوں کی طرح چیخنے چلانے لگی۔بال نوچنے لگی۔اور زور زور سے کہنے لگی۔’میں اپنے بابا کی بے عزتی ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔‘آن کی آن میں اُس نے اپنے گلے میں رسی ڈال کر خود کو پنکھے سے لٹکا دیا۔اور لاش ہوا میں کچھ دیر تک جھولتی رہی۔چاروں اور کہرام مچ گیالوگ بڑی تعداد میں جمع ہوکرروتے رہے۔ ارمان بجھ گئے خوشیاں روٹھ گئیں۔اپنی خوشیوں کا جنازہ نکلتے دیکھ‘ رحمان صاحب سدھ بدھ کھو کر ننگے پیروں بیابانوں کی طرف دوڑ گئے۔۔۔۔
صدر مرکز شعروادب دلنہ
دلنہ بارہمولہ،موبائل نمبر:-9906484847