اسلام جس میں مثالی تہذیب و تمدن کے قیام کے لیے ہمیں سر گرم عمل دیکھنا چاہتا ہے ، اس کے قیام کافطری طریق عمل یہ ہے کہ ہم صالح او ر پاکیزہ معاشرہ قائم کریں ۔ غور کیجیے کہیں آپ بھی خاندانی زندگی میں اس شکست خوردگی کے شکار تو نہیں ہیں ؟ بے بس دیکھ کر آپ اپنی تنہائیوں میں خاموش فریاد تو نہیں کرتے ، صحیح فیصلہ ، صحیح فکر ، صحیح جذبہ رکھنے کے باوجود آپ کے گھر میں خود آپ کا فیصلہ نافذ کیوں نہیں ہوتا ؟ دیکھا یہ جارہاہے کہ خاندانی زندگی میں لڑکے اور لڑکی کی شادی ہونے کے بعد بدقسمتی سے کچھ معاشرتی مسائل اور اُلجھنیں پیدا ہوتی ہیں ۔ خاندان کے افراد میں باہمی حقوق کی کشاکش شروع ہوتی ہے ۔ ترجیح و تقدیم کے سوالات ابھرتے ہیں ۔ شادی شدہ لڑکے کے لیے بھی اس کی بیوی اور والدہ کے تعلق سے اور شادی شدہ لڑکی کے لیے بھی اس کے والدین اور شوہر کے گھر والوں کے تعلقات سے ، نوشہ جو اپنا اپنا گھر بسانے کے لیے گرم جذبات اور انتہائی مسرت کے ساتھ رفیق حیات کو لے کر آیا ہے اور جو اپنی نئی جنت سجانے کے سنہرے خوب دیکھ رہا ہے ، اس کے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ وہ ساس بہو کی اس کم نصیب کشا کش اور حقوق وفرائض کے خود ساختہ ٹکرائو میں کس کے حق کو مقدم رکھئے ، کس کو ترجیح دے اور کیا کرے کہ اس کے قدم جادہ حق سے ہٹنے نہ پائیں ۔ اسی طرح وہ نئی دلہن جو ماں باپ سے رخصت ہو کر اپنا گھر سسرال میں بسانے گئی ہے ،جو اس کی دلچسپیوں کا مرکز اور خوابوں کی تعبیر ہے ،وہ شوہر اور والدین کے حقوق کی کشا کش اور اختلات میں کس کو ترجیح دے ۔ کس کے کہنے پر چلے اور کس کے حق کو اولیت دے ۔ اس نازک موڑ کے لیے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیمانہ اور فصیل کن ہدایت دی ہے :’’ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کا ہے ۔
یہ حدیث گھریلو اور خاندانی زندگی کے ایک بنیادی ،دور رس نتائج کے حامل اور سنجیدہ سوال کا قطعی جواب ہے ۔ مرد ہو یا عورت خاندانی زندگی میں قدم قدم پر اس کے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ وہ حقوق کے ٹکرائو ، کشاکش اور کسی ایک کے حق کو ترجیح دینے کے فیصلہ کن مرحلے میں کیا طرز عمل اختیار کرے ، مرد کس کے حق کو سب پر مقدم رکھے اور ایک وفا دار بیوی کس کے حق کو سب کے حقوق پر ترجیح دے ۔ ایک شادی شدہ خاتون کا تعلق صرف شوہر ہی سے نہیں ہوتا ہے ۔ شوہر کے ماں باپ سے بھی ہوتا ہے ۔ اپنے ماں باپ سے بھی ہوتا ہے بہن بھائیوں سے بھی ہوتا ہے اور سب ہی کے کچھ حقوق ہوتے ہیں ۔ خاندانی زندگی میں سب ہی کے حقوق ادا کرنے ہوتے ہیں ۔ خدا کے آخری رسول ؐ کی یہ واضح اور قطعی ہدایت سامنے آتی ہے کہ ’’ بیوی پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے‘‘ ۔حقوق کے کشا کش نازک موڑ پر ایک نیک فطرت اور وفا دار بیوی کے دین کا واضح تقاضا اور رسول خدا ؐ کا بے لاگ فیصلہ یہی ہے ۔ مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کا ہے ، یعنی وہ اس کشا کش میں ایسا رویہ اختیار کرے کہ ماں کے نازک جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور ماں کو کسی وقت بھی یہ احساس نہ ستائے کہ ناز اور پیار سے پالا ہوا بیٹا آج بیوی کو ماں پر ترجیح دے رہا ہے ۔ شوہر صبر و تحمل اور دانشمندی سے کام لے اور ساتھ ہی ساتھ نہایت حکمت ، دل سوزی اور پیار کے ساتھ بیوی کو یہ حقیقت سمجھائے ، اس پر سوز اور پیہم مخلصانہ کوشش کے ساتھ اپنے رب سے انتہائی عاجزی سے گڑ گڑا کر برابر یہ دعا بھی کرتے رہے : پروردگار! میں نے تو اپنے بس بھر کی کوشش کی ، اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے گھر والوں کو دین پر جمائے رکھ ، دلوں کا پھیرنا اور استقامت بخشنا تیرے ہی قبضہ قدرت میں ہے ۔ دین پر عمل اور دین کی حفاظت و اشاعت کی توفیق دینا تیرا ہی کام ہے۔ دل تیری ہی چٹکی میں ہے ۔تو جدھر چاہتا پھیرتا رہتا ہے ۔ قرآن کی یہ جامع دعائیں بھی ورد زبان رہیں : میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہیں اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو اور میری اولاد کو بھی نیک اٹھا کہ مجھ سکھ دے میں تیری طرف رجوع ہوتا ہوں اور تیرے فرماں بر داروں میں ہوں۔۔۔ اے ہمارے رب ۔ ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہمیں متقیوں ہی کا امام بنا ۔