سرینگر //جموں وکشمیر میں خود کشی کے واقعات میں نا قابل یقین حد تک واقعات رونما ہورہے ہیں۔خطہ چناب اور پیر پنچال کے علاوہ جموں میں بھی روز اس طرح کے دلدوز واقعات پیش آرہے ہیں جن کے بنیادی محرکات میں ذہنی تنائو یا گھریلو مجبوریوں کا عمل دخل ہوتا ہے لیکن وادی میں خودکشی کے واقعات کی رفتار بہت زیادہ ہے اور آئے روز نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی زندگی کا کام تمام کررہے ہیں۔انتہائی قابل افسوس بات یہ ہے کہ نوجوان نسل اب اپنی زندگیاں ختم کرنے سے قبل سوشل میڈیا کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔وادی میں ملی ٹینسی کیخلاف سیکورٹی فورسز کے آپریشن شروع ہونے کے بعد 1990سے لیکر ابتک تقریباً 6ہزار لوگوں نے خود کشی کی ہے ۔ان اعدادوشمار کے اگر ملکی یا عالمی انڈیکس کے پیرائے میں دیکھا جائے تو جموں کشمیر کی آبادی کو مد نظر رکھ کر یہ بہت زیادہ تعداد ہے۔اعدادوشمار کے مطابق کورونا لاک ڈائون سے اب تک صرف کشمیر وادی میں 100 کے قریب واقعا ت رونما ہو چکے ہیں ۔ماہرنفسیات کا کہنا ہے کہ خودکشی کے بڑھتے واقعات کی اہم وجوہات میں معاشی بدحالی، گھریلو تنازعات ،ذہنی پریشانیوں سے مایوسی ، نااُمیدی، افسردگی اور دیگر معاملات شامل ہیں۔خودکشی اب گلیمرائزکرانے کی کوشش ہورہی ہے،حالیہ دنوں میں بیشتر واقعات ایسے سامنے آئے کہ خودکشی کرنے والے افراد نے انتہا قدم اٹھانے سے پہلے اپنا ویڈیو ریکارڈ کرائے اور سو شل میڈیا پر اپ لوڈ کئے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی تشویشناک رجحان ہے جس پر فوری طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر یاسر راتھرنے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وادی کے نوجوان کافی حساس ہیںاور موجودہ ترقی یافتہ دور میں مختلف مسائل کو لیکر جلد احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں قوت برداشت کی کمی ہے ۔ڈاکٹر یاسر کہتے ہیں ’’ یہ بات سچ ہے کہ جموں وکشمیر میں پچھلے کچھ برسوں سے لوگوں میں ذہنی امراض میں اضافہ ہوا ہے‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ ذہنی امراض میں مبتلا کسی شخص پر تنائو جب زیادہ حاوی ہو جائے تو وہ خودکشی کر لیتا ہے ۔ جامعہ کشمیر کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرپرسن پیرزادہ امین کا کہنا ہے کہ ’ کشمیر میں کچھ بھی ممکن ہے، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جو کسی کو بھی متاثر کرسکتا ہے‘‘ ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جہاں انہیں شدید ذہنی دباؤ ہے۔ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں یہاں دبائو بہت زیادہ ہے،کویڈ لاک ڈائون،شٹر ڈائون اور یہاں کے حالات اس کے اہم اسباب ہیں نیزکورونا سے مالی صورتحال خراب ہوئی ہے،جب لوگوں کو ان کی ضروریات نہیں ملیں گی، تو پریشانیاں بڑھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خود سوزی کی وجہ سے سماجی مسائل بھی ہوسکتے ہیں جیسے گھریلو تشدداور جہیز جیسے معاملات ۔انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام بھی کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی زندگی کچھ مختلف ہے۔یہاں کبھی حالات ہی ایسے نہیں رہے کہ لوگوں کی پریشانیاں دور ہوں ۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ خود کشی کے واقعات کو روکنے کے لئے معاشرے میں بڑے پیمانے پر بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے سرکاری و غیر سرکاری و مذہبی تنظیموں کو آگے آنا چاہیے۔