افسانچہ نگاری میں بشیر احمد صاحب زمین پر جنت نظیر وادئ کشمیر کی ایک بلند اور باوقار آواز ہے۔
رخت بہ کاشمیر کُشا کوہ وتل ودمن نگر
سبزہ جہان جہان ببین لالہ چمن نگر نگر
صفحۂ قرطاس پر آپ کا قلمی نام ’خالد بشیر تلگامی‘ نظر آتا ہے۔ آپ کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے ایک خوبصورت مقام تلگام سے ہے۔ ایم اے (پبلک ایڈمینسٹریشن) کے بعد آپ نے بی۔ ایڈ۔ کی تعلیم حاصل کی اور گورمنٹ پرائمری اسکول تلگام بالا میں درس وتدریس کے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ یوں تو آپ سال2000سے لکھ رہے ہیں لیکن 2005 سے آپ کے افسانچے اور نگارشات ہند و پاک کے تمام مؤقر اخبارات و رسائل میں شائع ہو رہے ہیں۔ آپ کو اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور کشمیری زبان پر بھی دسترس حاصل ہے اور ان زبانوں میں بھی خوب افسانچے تحریر کر رہے ہیں۔ کشمیری زبان میں آپ شاعری، افسانہ نگاری، ڈرامہ نگاری اور دیگر نثری اصناف میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔
خالد بشیر تلگامی صاحب ایک مشفق استاد اور ایک مخلص ہونے انسان کے ساتھ ساتھ ایک مخلص قلم کار بھی ہیں۔ دینی یا دنیاوی نکتہ نظر سے قلم کار کی بے لوث کوشش، نیک نیتی، خلوص، غرض کہ نیت کا پاک و صاف ہونا ایک قلم کار کو مخلص بنا دیتا ہے۔ آپ میں اور آپ کی افسانچہ نگاری میں یہ تمام روشن اور تابناک انسانی قدریں شامل نظر آتی ہیں۔ آپ لفظوں، جملوں اور تحریروں میں انسانیت، مذہب، قوم و ملت، وطن اور سماج کے درد سمیٹ کر کہانی بُننے کا ہنر جانتے ہیں۔ آپ سماج کی نبض پر ہاتھ رکھ کر نہایت ہی اہم اور نمایاں موضوعات کو منتخب کرتے ہیں اور اسے قلم بند کرتے ہیں۔ جس طرح پرندوں اور ہواؤں کو سرحدوں کی بندشوں سے روکا نہیں جا سکتا اسی طرح آپ کی تحریروں میں کہیں کوئی سرحدوں کی بندشیں نظر نہیں آتی۔ آپ کا سماج اِدھر بھی ہے اور اُدھر بھی! آپ کے سینے میں سماج کے ہر طبقے کے لیے درد ہے جو بخوبی آپ کے افسانچوں میں چھلک پڑتا ہے۔
میں نے آپ کے کافی افسانچوں کا مطالعہ کیا اور اس مطالعے کی روشنی میں ایک بات بڑی ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے افسانچے دراصل انسانی حقوق، انسانی زندگی اور انسانی رواداری کا ثبوت اور شاہد ہیں۔ آپ کے افسانچے دراصل حقیقت کے ترجمان اور نظیر ہیں۔ آپ افسانچوں کے تمام لوازمات کا خیال تو رکھتے ہی ہیں لیکن اختصار کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے۔ اکثر افسانچوں میں چھوٹے چھوٹے لیکن بامعنی مکالمے استعمال کرتے ہیں۔ آپ کے افسانچے میں افسانچوں کا اہم جزو یعنی پنچ لائن کافی گہرے طنز کی شکل میں ہوتی ہیں جس کی کاٹ سے افسانچوں کا دیر پا اثر قائم رہتا ہے۔
انکساری، اخلاق، اخلاص، بھولے پن، رواداری اور برداشت کو اگر کسی لفظ میں یکجا کیا جائے تو وہ کشمیریت کہلاتا ہے اور آپ کے افسانچے اور نگارشات ’کشمیریت‘ سے لبریز ہوتی ہیں۔ گویا خالد صاحب کے افسانچے بھی ’خالد‘ ہے۔ یعنی وہ تحریریں جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔۔۔!
خالد بشیر تلگامی صاحب کو ان کے اولین افسانچوں کے مجموعے کے لیے مبارکباد اور نیک خواہشات!
���
کامٹی (ضلع ناگپور) مہاراشٹر