حیراں ہوںدل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں!

شکایت تھی کہ سجاد غنی لون کی گپکار الائینس سے علیحدگی پر اس اتحاد کے روح رواں اور خالق محترم فاروق عبداللہ کی طرف سے کوئی بیان یا وضاحت نہیں آئی تھی اور اب یہ شکایت کسی کو نہ رہی کیونکہ ایک شوروم کی افتتاحی تقریب کے دوران فاروق صاحب نے اپنے روائتی انداز میں اپنی پالیسی بیان کو پھر ایک بار دہرایا کہ وہ ریاست کے مفادات یعنی ر یاستی درجے کی بحالی کے لئے ’’ لڑتے‘‘ رہیں گے بلکہ اب انہوں نے اس تقریب میں یہ بھی کہا کہ370 کی بحالی بھی ان کی مانگ ہے ،، سجاد غنی لون کی علیحدگی پر جو مختصر باتیں انہوں نے کی ہیں ،ان کا متن بڑا واضح اور صاف تھا کہ ’’ سجاد صاحب اپنی ذاتی مجبوریوں کی بنا پر ہی الائینس سے الگ ہوئے ہیں اور یہ کہ ہمیں ان وجوہات کا علم نہیں‘‘ ۔
ظاہر ہے کہ اس ایک جملے کے کئی معنی لئے جاسکتے ہیں اور ہر سیاسی تجزیہ نگار اس پر مختلف انداز فکر سے بھی غور کرسکتا ہے لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ایسے سیاسی جملے اُسوقت استعمال میں آتے ہیں جب حقائق کو آپ پوشیدہ رکھنے کی خاطر ’’بھولے بھالے ‘‘انداز میں کنفیوژن پیدا کرنے کی جستجو رکھتے ہوں تاہم فاروق صاحب اپنے لوگوں کے لئے لڑ رہے ہیں ،ایسا وہ کہتے ہیں اور اب یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ انہیں اللہ کی جواب دہی اور جہنم کی آگ بھی یاد آرہی ہے جس میں کل وہ لوگ بھسم ہوں گے جنہوں نے ڈی ڈی سی انتخابات کے نتائج الٹنے کے لئے ہارس ٹریڈنگ کی ہے یعنی خرید وفروخت کی ہے۔
ہمارے فاروق صاحب کو اب بے تحاشا اٹل جی کی یاد بھی ستارہی ہے جو مسلہ کشمیر کے حل کو ذہن کے کسی گوشے میں ضرور پنہاں رکھتے تھے ، لیکن کشمیر نشین سیاست دان ایسی سوچ و فکر سے بیزار اور خفا رہا کرتے تھے۔بہر حال سیاست اور جمہوری طرز نظام ایک ایسا میدان ہوچکا ہے جہاں’سام دام ڈنڈ ‘ کے سواکہیں کچھ نظر نہیں آتا ۔شاید اسی لئے مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ مستقبل کے بہت ہی قریبی دور میں ساری دنیا سے اس طرزنظام کو خود ہی لوگ ایک گندی چادر سمجھ کر پھینک دیں گے۔بہر حال فاروق صاحب لڑتے رہے ہیں اور اب بھی بقول ان کے لڑ رہے ہیں ۔ ایک عجب تماشا ہے کہ سبھی مین سٹریم اپنی الگ الگ ٹیم کے ساتھ ایک ہی میدان میں جمع ہوکر لڑرہے ہیں اور آگے بھی لڑتے رہیں گے ۔ جیسے محبوبہ مفتی جی بھی اب ریاست کی بحالی کے لئے نہیں بلکہ اس سب کے لئے لڑ رہی ہیں جو چھینا جاچکا ہے۔ سجاد غنی لون صاحب بھی لڑ رہے ہیں کیونکہ لڑنے کے بغیر اور ان کا کام بھی کیا ہے؟۔دیکھا جائے تو جو زیادہ باتیں نہیں بناتے لیکن کشمیری سیاسی میدان میں بہت عرصے سے کھیل رہے ہیں ،وہ بھی لڑ رہے ہیں ، یعنی تار یگامی صاحب ۔ سید الطاف بخاری نے ابھی لڑنا شروع کیا ہے اور اس عمر میں لڑ رہے ہیں جب بچہ گھٹنوں کے بل چلتا ہے اور دوسرے اس میدان کے شہسواروں کو دو ٹوک کہہ رہے ہیں کہ یہ لڑتے لڑتے ہمیشہ عوام کے ساتھ ’’فول ‘‘ کھیلتے رہے ہیں۔ انہیںابن لوقت اور فریبی قرار دے کر ان کے کھیل کو ہی نہیں بلکہ ان کے میدانوں کو بھی ایک رنگین دھوکہ سے تعبیر کرتے ہیں اور ہمارے نئے سرپنج ، ڈی ڈی سی ممبراں اور ا ن جیسے ہزاروں افراد بھی لڑرہے ہیں اور ’’سبھی عوام‘‘ کی عزت و آبرو ، تحفظ اور ریاست کی بحالی کے لئے لڑ رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے پنڈت بھائی بھی اسی میدان کار زار میں سر گرم ہیں ،لڑ رہے ہیں تاکہ کشمیر کے اندر پنڈت دوبار ہ علیحدہ کالونیوں میں بس سکیں ۔سب کا یہی کہنا ہے کہ عوامی مفادات اور ریاست جموں و کشمیر کے لئے لڑ رہے ہیں اور اتنے سارے الگ الگ لشکر جب  ایک ہی میدان میںلڑ رہے ہوں تو یہ سمجھنا بھی ایک معمہ ہی ہو جاتا ہے کہ کون کس کے لئے اور کس چیز کے لئے میدان کارزار میں’’ کار جہاد ‘‘ کر رہا ہے۔
 بیانات، شکوہ شکائتوں تک سمٹ چکے  ہیں اور اپنے ہر بیان سے یہ پارٹیاں تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں کہ اس دور میں ہند نواز سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں زیر عتاب ہیں ۔انہیں یہ شکایت ہے کہ مرکزی سرکار ان کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی اور دوسری طرف کشمیری عوام ان سب الحاق نواز پارٹیوں سے اوب چکے ہیں ، ان پر اعتماد نہیں کرتے اور انہیں عوام کا دوست اور غمخوار نہیں سمجھتے ۔اس لحاظ سے ان کی پوزیشن بہت ہی نازک ہوچکی ہے اور اس کے لئے ایک محاورہ بھی ہے جس سے میں نہیں دہراؤں گا ۔اپنے ایک بالکل تازہ بیان میں محبوبہ جی نے ایک اور جملے کا بھی اضافہ کیا ہے کہ ’’ نہ صرف  ریاستی درجہ بلکہ وہ سب کچھ تر جیحات میں ہے جو ہم سے چھینا جاچکا ہے ‘‘ ۔میں نہیں جانتا کہ وہ تاریخ سے دلچسپی رکھتی ہیں کہ نہیں لیکن اصل میں ہم نے جو کچھ بھی کھویا ہے اس کے لئے ہمیں ماضی میں جانا پڑیگا۔ہم بی جے پی کے ان بیانات کو نظر اندز کرتے ہیں جن میں وہ کہتے ہیں کہ370 وغیرہ کھوکھلے ہوچکے تھے اور اب ان کی کوئی افادیت نہیں رہی تھی۔ ان بیانات پر ہنگامہ برپا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ حق یہی ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ1953 میں کھویا ہے اور اس لحاظ سے اگر محبوبہ جی ،فاروق عبداللہ اور دوسرے سیاسی کھلاڑیوں کا مطلب وہ سب کچھ سے ’’53سے قبل پوزیشن کی بحالی اور ترجیحات‘‘ ہیں تو ہم صحیح ٹریک پر گامزن ہیں لیکن ایسا میرا مفروضہ ہی ہوسکتا ہے کیونکہ کوئی بھی مین سٹریم پارٹی یہ ’’حرف غلط‘‘ زباں پر لانے کی جسارت نہیں کرسکتی اس کے باوجود کہ یہ مطالبہ آئین اور الحاق ہند کے پس منظر میں کوئی جرم اور کسی بھی طرح دیش دروہی کے زمرے میں نہیں آسکتا ۔
ظاہر ہے کہ ا ن سب صاحباں کا مقصد اور مطلب 5اگست ہی ہوسکتا ہے جس روز یہ کھوکھلا درخت ایک ہلکے سے دھکے کے ساتھ گرادیا گیا تھا۔ گپکار الائنس کی ساری امیدیں ریاستی درجے کی بحالی پر ہیںجس کے بارے میں پھر ایک بار امیت شاہ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ ریاستی درجہ بحال ضرور ہوگا لیکن اپنے مناسب وقت پر ۔ سوال یہ ہے کہ یہ مناسب وقت کیا ہے جس کا انہیں انتظار ہے۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ امن کی بحالی کے ساتھ ہی یہ درجہ بحال کیا جائے گا ۔در اصل جب یہ بل پانچ اگست کو پارلیمنٹ میں پاس ہوگیا تھا تو اسی وقت امیت شاہ نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ ریاستی درجہ بحال بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے مناسب وقت کی تلاش رہے گی۔ آج بھی وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ انہیں یعنی حکمران جماعت کو مناسب وقت کی تلاش ہے۔ ہم نے بھی کئی اپنے مضامین میں یہ لکھا ہے کہ ریاستی در جہ ضرور دیا جائے گا  لیکن پہلے اس غبارے کی ہوا بھی نکال دی جائے گی اورپھر یہ وقت کسی بھی حال میں نئی انتخابی حد بندی سے پہلے نہیں آئے گا جس کا کام جاری و ساری ہے اور دوئم یہ کہ اس ریاستی درجے کا دستار کس پارٹی کے سر باندھاجائے گا یہ بھی وقت ہی بتائے گا کیونکہ اس دور میں جب بھی کوئی بات وقوع پذیر ہوئی ہے اس میں بہت زیاددہ ڈرامائی عنصر رہاہے ۔ریاستی درجہ جب بھی بحال ہوگا ،یہ جب بھی اور جس حالت میں بھی بحال ہوگا، گپکار الائنس کیلئے یہ دعویٰ کرنے کی گنجائش ہو کہ نہ ہو ، اس بحالی کو کیش کرنے کے جتن ضرور کریں گے اور اس سے اپنی قربانیوں کا ثمر اور نتیجہ ضرور قرار دیں گے۔ اور ان ’’نا معلوم قربانیوں‘‘کے عوض انہیں اقتدار چاہئے۔اس سے یقینی طور پر ان سب لوگوں کو انتخابات میں آنے کا جواز مل جائے گا۔ یہ بات بی جے پی بہت اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ’ خون کے دریا بہیں گے والے بیانات کی ہوا اکھڑ چکی ہے‘۔ یہاں امن قائم ہے ، خاموشی ہے ، سناٹے ہیں اور سناٹوں کو امن سے اگر یہ تعبیر کر رہے ہیں تو کوئی غلط نہیں کر رہے کیونکہ 5 اگست سے اب تک یہاں سیاسی اصطلاح میں ’امن ‘نظر آرہا ہے ، زمینی سطح پر قائد انقلاب کی انقلابی لہریں بھی سمندروں کی تہوں میں کھو چکی ہیں اور وہ جو حریت کانفرنس کے نام سے کوئی متوا زی اتحاد اور سیاسی پلیٹ فارم کشمیر میں کبھی ہوا کرتا تھا ، اپنی جانوں کے خوف یا مصلحتوں کی بنا پر ان سناٹوں کی شائیں شائیں کا جائزہ لے رہا ہے ۔ اس کے بغیر ان کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں۔ 
لوگ ریاست کی بحالی سے زیادہ پریشان نجی تعلیمی اداروں سے ہیں جوتعلیم بیچنے کے سارے حقوق اپنے نام محفوظ کرچکے ہیں اور جس طرح چاہتے ہیں کشمیری والدین کو ہانکتے ہیں ۔ پھر آئے روز کے نئے قوانین ، ٹیکسز اور مہنگائی اور دوسرے مسائل اور مصائب جن سے اب سیاست اور ریاست پر سوچنے کا نہ موقع ہی ملتا ہے اور نہ کوئی جرأت رندانہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اس لئے وہ شاید کھونے اور پانے کی حدود سے ہی بے بہرہ ہوکر کھاؤ ،پیو اور موج مناؤ تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں یا کہیں غالب کی زباں میں ’’مشکلیں مجھ پر پڑی اتنی کہ آساں ہوگئیں ‘‘۔
 جو کچھ بھی ہو، عوام اپنے ان ’غمخواروں ‘کے آئے روز بیانات اور ان کی جاری لڑائی، جس کے بارے میں یہ پتہ نہیں کہ کس سے لڑ رہے ہیں ، کیوں لڑ رہے ہیں ،کیسے اور کس کے لئے لڑ رہے ہیں، اتنا ماتم ضرور کرتے کہ نوحہ خواں ساتھ رکھنا ضروری ہوجاتا لیکن انہیں بھی قانون کی لاٹھی کا ڈر اور خوف ہے۔ اسلئے اب کشمیری نہ تو کسی نئی مصیبت پر توجہ د یتا ہے اور نہ کوئی ردِ عمل ظاہر کرتاہے۔بس اسی ادھیڑ بن میں دن گذار رہا ہے کہ   ؎
’حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں‘