نئی دہلی// سپریم کورٹ نے نیشنل کانفرنس صدر اورممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے دفعہ 370پر دیئے گئے ریمارکس پر انکے کیخلاف بغاوت کا کیس چلانے کی مفاد عامہ کے تحت دائر کی گئی عرضی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی رائے سے اختلاف اور اس کے خلاف بیان دینا ملک سے بغاوت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے عرضی گزاروں پر 50 ہزارروپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔جموں وکشمیر کی خصو صی پوزیشن دفعہ 370 کی منسوخی سے متعلق تبصرہ کرنے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے خلاف سپریم کورٹ میںملک سے بغاوت کا مقدمہ دائر کرنے کے لیے ایک عرضی داخل کی گئی تھی۔ یہ عرضی ایڈوکیٹ شیو ساگر تیواری کے توسط سے رجت شرما و دیگر افراد نے دائر کی تھی ۔ اس عرضی میں فاروق عبداللہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے دفعہ370 سے متعلق بیان میں بھارت کے خلاف چین اور پاکستان سے مدد طلب کی ہے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ فاروق عبد اللہ کا رویہ ملک دشمن ہے ،نہ صرف وزارت داخلہ کو ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہئے بلکہ ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت بھی منسوخ کی جانی چاہئے۔ عرضی میں مزید کہا گیا تھا کہ اگر وہ بدستور رکن پارلیمنٹ رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت میں ملک دشمن سرگرمیاں قبول کی جارہی ہیں اور اس سے ملک کے اتحاد کو نقصان پہنچے گا۔ بد ھ کو سپریم کورٹ کے جسٹس سنجے کشن کول اور ہیمنت گپتا پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اس عرضی پر سماعت کی۔دوران سماعت عرضی گزاروں کے وکلا نے یہ دلیل پیش کی کہ فاروق عبد اللہ نے تعزیرات ہند کی دفعہ 124-A کے تحت قابل سزا جرم کیا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے براہ راست بیان دیا ہے کہ آرٹیکل 370 کی بحالی کے لئے وہ چین کی مدد لیں گے جو واضح طور پر اشتعال انگیزی کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہانکے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 124-اے کے تحت سزا دی جانی چاہیے۔ تاہم وکلا کے دلائل پیش کرنے کے بعد عدالت نے فاروق عبداللہ کے خلاف دائر کی گئی اس عرضی کو خارج کرتے ہوئے درخواست گزاروں پر پچاس ہزار روپے کا جرنامہ عائد کیا۔ عدالت نے کہا کہ حکومت کی کسی بھی پالیسی پر اعتراض اور مخالفت کرنا غداری نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ درخواست گزار یہ ثابت نہیں کرسکے کہ فاروق عبداللہ کو چین اور پاکستان سے کس طرح مدد مل رہی ہے۔