اسلام میں حقوق و فرائض کا تصور اُتنا ہی بلند و قدیم ہے جتنا کہ انسان کا وجود ہے۔ انسان کے خالق و مالک نے اپنے بندوں کیلئے اُن کی ہر ضرورت کو پورا کردیا ہے۔ جس میں طبعی ومعاشرتی تمام ضروریات کا سامان فراہم کردیا، خواہ ہوا وپانی ہو یا پھر خوراک و روشنی غرضیکہ جتنے بھی اسباب زندگی انسان کیلئے ضروری ہیں،وہ سب چیزیں ان پر نچھاور کررکھی ہیں۔تاہم مالکِ کائنات نے اپنے بندوں کیلئے معاشرتی زندگی میں حسن پیدا کرنے اور انسانی مساوات و احترام کو قائم رکھنے کیلئے ایک ضابطہ حیات بھی دے دیا ہے۔تاکہ وہ دنیا میں ایک دوسرے کے ادب واحترام کے ساتھ زندگی کا گزربسرکرسکے۔لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں انسان نے اپنے لئے جو ضابطہ حیات بنارکھا ہے، خواہ جمہوری طرز حکمرانی ہو یا ملوکیت یا پھر کوئی شاہی طور طریقہ کی جمہوریت ہو ،ان سب میں ایک بات مشترک دکھائی دیتی ہے کہ یہ سب مالکِ کائنات کی مرضیات سے بے پرواہ ہوکر اپنی رعایا پر اپنی حکومت چلاتے ہیں اور حاکمیت کو دوام بخشنے کے لیے ہر جائز وناجائز ذرائع اختیار کرتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی سرو کار ہی نہیں کہ عوام یارعایا کس حال میں زندگی بسر کررہے ہیں اور اِن پر کیا کچھ گزر رہی ہے۔ یہ لوگ اپنے اقتدار کے نشے میں مست اپنے اپنے ملک کے مالک بن بیٹھتے ہیں۔ شائد وہ یہ بھول گئے ہیںکہ اُن کو اقتدار تک پہنچانا بھی مالکِ کائنات کے قبضۂ قدرت میں ہے اور وہ جب چاہے اُنہیں اقتدار سے بے دخل بھی کرسکتا ہے۔ یہی حال دنیا بھر کےرہ رہےعام انسانوں کا بھی ہے،جن میں سے اَسی فیصد انسان مالکِ کائنات کے مقرر کردہ دائرۂ اختیار سے دور ہوگئےہیںاور وہ سب کچھ کرتے چلے جارہے ہیں،جس کی اُنہیں مالکِ کائنات نے مناہی کردی ہے۔جس کے نتیجے میںآج کے اس جدید دور کاحضرت انسان دنیا بھر میںکسی نہ کسی طرح پریشان ،عاجز اور تنگ و ننگ بن چکاہے۔ مادیت اور شہوانیت کے سیلاب نے تمام اخلاقی قدریں تہہ وبالاکرڈالی ہیں، معاشرتی نظام بدکاری اور عریانیت کا مرکب بن چکا ہےاورہر معاملہ سود اور حرام کی زنجیروں نے جکڑ رکھا ہے، صداقت وراستی اور خیرخواہی کے اوصاف د م توڑ چکےہیںاورانحراف و بگاڑہر سُو مشرق ومغرب، عرب وعجم، شہرودیہات،گلی و کوچہ میں پھیل گیا ہے۔ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے بھی مالکِ کائنات کے احسانات و احکامات سے روگردانی کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی اور فخر کے ساتھ دوسروں کے تہذیب و تمدن اور طرز ِعمل کو اپنایا ہےاور نہ صرف زندگی کے اہم میدانوں میں اسلامی ہدایات کی خلاف ورزی کی بلکہ اسلامی حقائق کے بالائے طاق رکھ کر بہت سی خرابیوں اور بُرائیوں کوچوم چوم کر گلے لگایا ،جس کے نتیجے میں آج وہ جہاں ہر معاملے میں دوسری اقوام سے زیادہپریشان، عاجز اور درماندہ ہوچکے ہیں، وہیںمختلف معاملات میں پیچھے رہ کر اُن کی غلامی کرنے پر مجبورو لاچارہیں۔اب اگر ہم اپنے کشمیری معاشرے کی بات کریں تو ہمارا حال بھی اس صورت حال سے قطعی مختلف نہیں ہےبلکہ بعض معاملات میں ہم اُن سے آگے بڑھ گئے ہیں۔جہاں ایک طرفپوری دنیا میں خون ریزیاں ہورہی ہیں، انسانیت کے پر خچے اُڑا دیئے جارہے ہیں، ظلم وستم کی انتہاہوگئی ہے، انسان کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے ،وہیں ہمارے یہاں بھی بے بسی ،بےحسی اور انسانیت کے تقاضوںسے لاتعلقی بڑھ رہی ہےاورایسے ایسے انسانیت سوز واقعات رونما ہورہے ہیں کہ انسانیت ہی شرم سے پانی پانی ہورہی ہےجبکہ معاشرتی بگاڑ کا اثر ہمارے رویوں پربھی پڑ گیا ہے اور معاشی اونچ نیچ، معاشرتی تفاوت، سیاسی افراتفری ، جھنجلاہٹ، حسد، بغض اورغصہ دن بہ دن فروغ پا رہا ہے۔جس سے ہمارا رہن سہن، ہماری روز مرہ زندگی اور ہمارے رویے بُری طرح متاثرہورہے ہیں۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب ہم نے مثبت سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔جس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ مزید پست اور خست ہورہا ہےاور حکمت و دانائی سے محروم ہورہا ہے۔ضرورت اس بات ہے کہ ہم جہاں سے بھی ملے،حکمت و دانائی کوحاصل کرنے کی کوشش کریں ،کیونکہ اس میں مالکِ کائنات کی ودیعت ہوتی ہےاور حکمت و دانائی ہی بحرِ زندگی میں سلامتی سے کنارے اُتار دیتی ہے۔