خاتم النبیین رحمتہ اللعالمین خیر الانام صلی اللہ علیہ و سلم اُمت مسلمہ کی خیر و عافیت کےلیے تنہائیوں میں اللہ کے حضور دعا ئیںمانگتے تھے۔ اُمت کی خاطر ہر دم بے چین اور فکر مند رہتے تھے۔ آپ صلعم اپنے سینہ مبارک میں انسانیت کا غم کا پہاڑ لئے بیٹھےتھے اور اُمت کے ایمان وصالحیت کی خاطر بے حد اشک بار ہوتے تھے۔ آپ صلعم کی بے چین و بے قراری کو قرآن مجید نے سورۃ الکہف میں یوں نقشہ کھینچا، ارشاد فرمایا کہ ’’پس اگر یہ لوگ اس بات (قرآن)پر ایمان نہ لائے تو کیا آپ ان کے پیچھے اس غم میں اپنی جان کو ہلاک کر ڈالیں گے۔(الکہف ۶)
قرآن کریم پر ایمان نہ لانے والوں کا آپ صلعم کو اتنا غم کہ قرآن کو نازل فرمانے والا رب زوالجلال ہی اپنے محبوب نبی سرورکونین صلعم کو دلاسہ ، ہمت اور حوصلہ دے رہاہے ۔ طائف کی وہ ستم گزیدہ گلیاں جو جنگ ِاُحد سے بڑھ کر آپ کی تکلیف دیکھتی رہیں ، اس بات کی گواہ ہیں کہ آپ صلعم کو دعوتِ دین پیش کرنے پر جسم اطہر کو لہو لہان ہونا پڑا، مصیبتوں کا پہاڑ توڑ گیا، دل مبارک کو زبردست رنج پہنچایا گیا ، لیکن اس کے باوجود بھی رحمت للعالمین پیغمبر اسلام صلعم بددعا کے بدلے عالم ِانسانیت کی ہدایت وسدھار کے حق میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج طائف کے شہر میں ہر در پر اسلام کا پرچہ بلند ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
ہبار بن الاسود جیسے ظالم جابر سخت دل شدت پسند قاتل بنت نبی ؐزینب رضی اللہ عنہا اور آپؓ کے کوکھ میں پل رہے بچے کو بڑی بےدردی سے شہید کرنے والے کے جرم عظیم کو بھی معاف کیا اور فتح مکہ کے موقع پر رحیم، شفیق و غم خوار پیغمبر اسلام صلعم نے فرمایا :اے ہبار ! میں نے آپ کو اسی وقت معاف کیا جب میں نے آپ کے اس جرم کے متعلق سنا۔‘‘ حالانکہ نبی اکرم صلعم چاہتے تو یہ بھی فرماتے کہ میری اس بے گناہ معصوم لاڈلی بیٹی اور آپ کی کوکھ میں معصوم بچے نے آپ کا کیا بگاڑا تھا جو آپ نے دشمنی کی حد یں ا س قدر پارکر لیں لی۔ شفیق و رفیق نبی کریم صلعم کی اُمت سے بے پناہ محبت یہاں بھی خوب جھلکتی ہوئی نظر آرہی ہے۔آپ صلعم کے لب ہائے مبارک پر دشمنوں اور حاسدین کے لئےکوئی گلہ و شکوہ نہیں، چہرہ مبارک پر کوئی ناراضگی کے آثار نہیں، دل مبارک میں کسی سے کوئی نفرت نہیں،کیونکہ آپ صلعم تمام عالموں کےلیے رحمت بن کر آئے تھے ۔ اسی مناسبت سے’’ مسدس حالیؔ‘‘ میں مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ان اشعار میں عشق نبی صلعم کے سمندر کو ٹھاٹھیں مارتا ہوا یاد کر دیا ؎
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کاغم کھانے والا
فقیروں کا ملجا،ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولا
آپ صلعم کے اُمت پر بے شمار احسانات ہیں ،ان ہی احسانات کے بدولت امت کو بھی آپ صلعم کے بے شمار حقوق عائد ہوتے ہیں جن میں لا محدود وغیر مشروط محبت النبی کا حق اعلیٰ درجہ اور ایمان کے کسوٹی کا حامل ہے۔
نبی ؐ سےمحبت کیسی ہونی چاہیے :
بے حد احسان کرنے والے سے بے حد محبت کرنا واجب بن جاتا ہے۔ اس عظیم الشان پیغمبر آخر الزمان صلعم کی ذات اقدس کے ساتھ بے پناہ محبت ہونی ایمان کی لازمی شرط ہے۔اس کا مطالبہ اور توجہ قرآن نے اہل ایمان سےیوں کیا، ارشاد فرمایا :’’اے محبوب! فرما دیجئے ان کو کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری اتباع کرو، خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کر دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا بڑی عنایت فرمانے والا ہے‘‘ (القرآن ۳:۳۱)
قرآن کریم نے صاف اعلان کر دیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ اللہ کے محبوب نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کریں، تب جا کے ان کا دعویٰ حق بجانب ہوگا۔ یعنی توحید کے ساتھ ساتھ رسالت پر ایمان لانا لازم و ملزوم ہیں۔اللہ اور اللہ کے رسول صلعم کی اتباع کرنا بنا کسی نئی بات، نیا طریقہ، نئی راہ اختیار کئے پیرویٔ دین کہلاتا ہے ۔اور اپنی زندگی کے تمام لمحات یعنی ہر وقت اور ہر حال میں نبی کریم صلعم کی مبارک زندگی کےطریقے کی ہوبہو اطاعت گزاری ایمان کہلاتا ہے ۔ نبی صلعم کی رضا میں ہی اللہ کی رضا ہے۔ حضور صلعم کی محبت صرف جذبے یا قول کی حد تک ہی محدود نہ ہو بلکہ ہماری چال ڈھال، رہن و سہن، قول و فعل، ظاہر و باطن، معاملات و معاشرت، علم و ادب اور اخلاقیات و سیاسیات میں اس کا نمایاں اثر واضح طور نظر آرہا ہو۔
رب ذوالجلال نے قرآن حکیم میں دوسری جگہ طبعی (Natural ) محبتوں کی پوری فہرست دے کر قبل از وقت آگاہ کردیا کہ کہیں یہ طبعی چیزوں کی محبت میرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے محبت پر بھاری (Dominant) ہوئی تو تمہیں نافرمانوں میں شمار کر کے ہدایت سے بھی محروم ہونا پڑے گا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اے رسول صلعم! آپ لوگوں کو فرما دیجئے کہ تمہارے ماں باپ، تمہاری اولاد، تمہارے بھائی برادر، تمہاری بیویاں، تمہارا کنبہ قبیلہ اور تمہارا مال و دولت جسے تم نے کمایا ہے اور تمہاری وہ تجارت جس کے ٹھپ پڑجانے کا تم کو ڈر ستاتا رہتا ہے اور تمہارے رہنے کے وہ مکانات جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ ساری چیزیں) تم کو زیادہ محبوب اور عزیز ہیں اللہ اور اللہ کے رسول صلعم سے اور اس کے دین کےلیے کوشش کرنے سے تو اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے ۔‘‘ (القرآن، التوبة )
اس آیت مبارکہ پر غور و فکر کرکے ذرا ہم اپنے ضمیر سے پوچھے کہ ہمیں ان سب اسبابِ دنیوی کی محبت زیادہ ہے یا اللہ اور اللہ کے رسول صلعم کی محبت؟ ہمارے عشق نبی صلعم کا دعویٰ کس حد تک سچا ہے؟ کہیں ان اسبابِ دنیوی کی محبت ہم میںاللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت پر بھاری تو نہیں ؟
آقائے نامدار خیر الانام سرور کونین صلعم سے محبت کا دعویٰ کس حد تک ہونا چاہیے حدیث مبارک میں واضح فرمایا گیا :’’کوئی شخص تم میں سے مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک میں (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) اس کو اس کے ماں باپ اور اولاد سے اور سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘( البخاری و المسلم)
خاتم النبيين صلعم نےحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایمان نامکمل ٹھہرایا جب تک کہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضور صلعم کی ذات ِاقدس کو اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہونے کا اعتراف نہ کیا۔ا س پر آپ ؓ کے مکمل ایمان ہونے کی ضمانت دربار رسالت صلعم سے مہر ڈالتے ہی مل گئی ۔ قرآن کے ارشاد کے مطابق :’’مومن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ قوی محبت ہوتی ہے‘‘ برگزیدہ صحابی سیاہ فام غلام حضرت بلال حبشیؓ نےواقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک ہی ملاقات پر فدا ہونے کا صحیح ثبوت دے دیا کہ تمام مصائب وآلام کو خندہ پیشانی سےبر داشت کیا ؎
محمدؐ کی غلامی دین کی شرط اول ہے
اسی میں ہو خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
محبتِ نبوی ؐ کا کیا تقاضا ہے:
عشق محمدی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے عاشق تاریخ اسلام کی ابتداء سے ہی ہمیں جوق درجوق ملتے ہیں جنہوں نے اس دعویٰ کا سچا اور پکا ثبوت پیش کر کے قیامت تک آنے والے امتیوں کے لیے عشقِ نبوی ؐ کا ایک معیار (Standard) اور نقش ِراہ (Road Map) دنیا کےسامنے رکھ دیا۔اس کو موجودہ زمانہ کے امتیوں کواختیار کرکے دعویٰ کا سچا ثبوت دینا ہوگا، تب جاکے بات بنے گی ۔ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلعم کی مقدس ذات سے بے پناہ محبت کرنے والے اصحاب رسول صلعم کے اَن گنت سنہرے واقعات ایسے ہیں جو ان کے لافانی عشق النبیؐ سے لبر یز ہیں۔ ان کا ذکر کیے بغیر یہ کالم بے وزن اور نامکمل ہوگا ۔
عہد نبوی صلعم کے ابتدائی مبارک دور میں اسلام کی دعوت چھپ چھپ کر خاموشی سے دی جاتی تھی ۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جن کا رُواں رُواں حضور اکرم صلعم کی محبت میں سرشار تھا، نے علی الاعلان اعلائے کلمتہ اللہ کی خاطر کافی اصرار کے باوجود حضور صلعم سے اجازت حاصل کی۔ آپؓ نے مشرکین مکہ کے سامنے جونہی پہلی بار دعوتِ اسلام پیش کی تو وہ آپؓ پر ٹوٹ پڑے، فرش ِزمین گرا کر آپؓ کو اپنے ناپاک پاؤں سے روندڈالا، چہرہ مبارک پر اتنے گھونسے مارے کہ بے ہوش ہوگئے ۔ اپنے قبیلے بنو تمیم نے آپؓ کو نیم مردہ حالت میں دیکھ کر ان ظالم ودرندہ صفت کفار سے چھڑا لایا ۔ ہوش آتے ہی آپ نے پہلا کلام یوں فرمایا : رسول اللہ صلعم کا کیا حال ہے؟ اس پر بنو تمیم نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا، وہ برہم ہوئے اور ملامت کرنے لگے کہ آپؓ پھر سے اس شخص کانام لیتے ہیں جس کی وجہ سے آپؓ کا یہ حال بنادیا گیا۔ اس پر عشق محمدی ؐ میں ڈوبے عاشق ِرسول صلعم کا پیمانۂ صبر ٹوٹااور اہل ِ قبیلہ سے مخاطب ہو کر فرمایا :’’ارے نادانو! تمہیں کیا خبر ہے کہ آپ صلعم کی خاطر سختیاں جھیلنے میں جو لذت ہے وہ دنیاداروں کو پھولوں کے بستر پر بھی حاصل نہیں ہوتی۔‘‘
لہو کا قطرہ قطرہ بہا دے گے قسم سے
نبیؐ پہ جان اپنی لٹا دےگے قسم سے
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلعم کی ناپسندیدگی پر اپنے زیب تن کئے ہوئے ریشمی جبہ کو دہکتے تنور میں جھونک کر جلایا ۔یہ فعل بھی آپ ؐکی محبت ہی کا عکاس ہے، حالانکہ حضور اکرم صلعم نے عورتوں کےلیے ریشم کو جائز قرار دیا، لیکن محبوب خدا صلعم کوجو چیز پسند نہیں ،اسے جلانے کے قابل سمجھنا ہی حضور صلعم سے بے انتہا محبت کا مظاہرہ ہے ۔ایک اور صحابیؓ کا رحمت للعالمین صلعم کی ناپسند یدگی پر اپنی سونے کی انگوٹھی دربار رسالتؐ سے دوبارہ نہ اٹھانا بھی آپؐسے بے انتہا محبت کا اظہار ہی سکھاتا ہے اور اس پر کیا خوبصورت انداز میں فرمایا :’’جس چیز کو میرے محبوب صلعم نے پھینک ڈالا اس کو میں لے کر کیا کروں گا؟ جو میرے اور میرے محبوب کے درمیان محبت میں رکاوٹ پیدا کرے وہ بے قیمت چیز کس کام کی ہے ؟ حضرت عبداللہ زوالبجادین رضی اللہ عنہ جو غریب، یتیم، مسکین اور بے سہاراتھے لیکن چچا نے پرورش کی اور جوان ہو کر اپنی ساری جائیداد، مال و دولت اور غلام دے کر بے نیاز بنا دیا لیکن اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کرنے پر چچا نے ان سب چیزوں سے بے دخل کر کے اُنہیں بے یارو مددگار چھوڑا۔ آپ ؓنے اللہ اور اللہ کے رسول صلعم کی غیر متزلزل محبت میں یہ سب کچھ چھوڑ دیا۔ اس پر آپؓ کو اللہ کے محبوب رسول صلعم کی خوشنودی حاصل ہوئی اوردنیا و آخرت کی بے لوث دولت مل گئی۔
حضرت عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کا حکومت، دولت اور شہزادی کو ٹھکرانا اور خود اذیتیں اور تکالیف برداشت کرنا کسی غیر معمولی محبت کا تقاضا نہیں۔ حضرت انس بن نظر رضی اللہ عنہ کا جنگ احد میں بڑی بہادری و جانثاری سے لڑنا اور ۸۰ سے زیادہ زخم کھا کر شهادت با عزیمت پانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سچے اور پکے غلاموں کا ہی شیوہ ہو سکتا ہے؎
دل ہوا جب سے آقا غلام آپ کا
میرے لب ہے اور آقا ہے نام آپؐ کا
اس طرح کمال محبت و عظمت، ایثار و قربانی اور لافانی عشق کے ان بے شمار مثالی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کا تقاضا یہی ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے پیش کیا ، جنہوں نے تمام طبعی (Natural ) اسباب کے ہونے کے باوجود بھی اللہ اور اللہ کے رسول صلعم پر اپنی محبت ہر حال میں فائق رکھی اور اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہی رکھتے تھے ۔
عشق رسول صلعم کے رنگ میں رنگنا:
اللہ اور اللہ کے رسول صلعم کے رنگ میں رنگنے کے لیے آج سے چودہ سو سال پہلے اس مبارک زمانے میں جانا ہوگا جس میں قرآن پاک نے صاف اور واضح انداز میں فرمایا کہ قیامت تک آنے والے تمام علاقوں، قوموں اور قبیلوں میں رہنے والے انسانوں کے لیے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب نبی صلعم کو کامل نمونہ بنایا۔ اُن کے نقش قدم پر چل کر ہی ہر دور کا انسان راہ حق پر چل کر انسانیت کی جملہ عظیم الشان صفات سے مزین ہوسکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’بےشک تمہارے لیے رسول صلعم ایک کامل نمونہ ہیں‘‘(القرآن سورتہ الأحزاب ۳۳:۲۱)
ان ناقابل تردید روشن حقائق کی بنیاد پر دنیا کے تمام دانشوروں، فلاسفروں، حکمرانوں، منصفوں اور دیگر ذہین دانش ورورں (Intellectual)اور دیگر تمام تخلیقیات میں سے بڑھ کر بہترین تخلیق کردہ نور البشر(Best of all the creations) حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہی قرار دیا ہے جن کی اتباع، اطاعت اور شریعت تمام لوگوں پرعموماً اور مسلمانوں پرخصوصاً واجب ہیں۔ مہد سے لحد تک زندگی کے تمام شعبوں میں آپ صلعم کی اتباع کرنا اہل ایمان پر لازم ہے ۔ آپ صلعم کے مبارک طریقہ ہائے حیات کے مطابق پل پل اعمال کو بجا لانا ضروری ہے ۔ ’’كان خلقه القرآن‘‘( آپ کے اخلاق قرآن کی منہ بولتی تصویر ہیں ) کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ طیبہ قرآن مجید کی محفوظ ترین عملی شکل ہے اور قرآن مجید بذات خود حضور اکرم صلعم کی سیرت مبارک کی محفوظ ترین تحریری شکل ہے۔ اسی لیے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلعم کو مضبوطی سے پکڑ کے رکھنا گمراہی وکج روی سے بچا جا سکتا ہے ۔ ا س کے لازم ہے کہ باپ داداؤں کے خود ساختہ رسوم و رواج کو توڑ کر شریعت محمدیہ صلعم کو زندگی کے گوشے گوشے میں نافذکیایا جائے۔ قرآن کو نسخہ کیمیا اور مردہ دلوں کی آواز بنا کر ایک ایسا نظام اپنا یا جائے جہاں جوان گناہوں سے پاک وصاف ہوں ، عورتوں کی عفت و عصمت ہر لحاظ سے محفوظ ہو، دین کی عزت و آبرو کا خاص خیال ہو، چوری، نشہ، دھوکہ دہی، دغابازی، جھوٹ، فساد اور بےایمانی جیسے بُرے افعال سے صاف و پاک معاشرہ معرض وجود میں آئے۔پیارے نبی صلعم کی طرح غریبوں، محتاجوں و مسکینوں، بیواؤںاور موجودہ دور کی نیم بیواؤں، یتیموں اور دیگر ضرورت مندوں کا ماویٰ اور والی بن کر ہر دم اور ہر پکار پر ان کی حتی الوسع کی جائے ۔ یہ ہیں حب ِ نبوی کے عملی درورس ۔ آپ صلعم کے سکھائے ہوئے سلوک کے مطابق اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں، دوستوں کے علاوہ غیر مسلموں اور اجنبیوں کے غم خوار بن کر انسانیت کے ناطے پر ایک کے ساتھ کمال مہر بانی سے پیش آنا عشق محمدی ؐکی پکار ہے۔ بتان ِ رنگ، نسل، ذات اور مسلک کو توڑ کر ایک جسم کے مانند اسلامی بنیادوں پر بھائی چارہ قائم کرنا اور مشترکہ طور دشمن قوتوں کو ناکام بنانا محبت النبیؐ کا تقاضا ہے ۔ اسلام میںلڑکا اور لڑکی کو برابر کےحقوق دینا اور خصوصاً وراثت کا حق دینا شریعت کا ابدی مطالبہ ہے، حضور صلعم کا غلام بن کر اپنی لڑکیوں کا باپ ہونے پر فخر محسوس کیا جائے۔،انہیں عزت وقار دے کر ہیرے موتی سے بڑھ کر محفوظ رکھا جائے ، حلال اور حرام میں تمیز کرکے حرام کمائی سے بھی بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ یہ ہے محبت پیغمبر ؐ کا قرینہ ۔انسانیت کے سب سے زیادہ ستم رسیدہ طبقے یعنی بوڑھے بزرگوں کے ساتھ احترام و اکرام کا معاملہ اختیار کر نا، ان کے حقوق پورا کرنے کی کوشش کرنا،انہیں مرکز ِوقار (Centre for Dignity) جیسے سرکاری اصطبلوں کے بجائے اپنے ساتھ اپنی رہائش گاہ میں میسر تمام سہولیات فراہم رکھنا، اپنے بچوں کو بھی ان کے ساتھ مل جل کر رہنے کا سلیقہ دینا ، یہ ہے وہ کام جن میں مسلمانیت کی لاج اوعشق محمدی ؐ کی چاشنی چھپی ہے۔ اس طرح سے ہماری پہچان پسماندہ لوگوں (Backward People) میں نہیں بلکہ اسلامی مہذب معاشرے (Islamic Civilised Society) کی تسلیم ہو گی ۔ یہ ا یک ایسی دنیا ہے جہاں ہر ابایمان فرد کے چال ڈھال، قول و فعل، عقائد و عبادات، خیالات و نظریات، معاملات و معاشرت، اخلاقیات و انسانی برتاؤ کے تمام طریقے آقا ئے نامدار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رنگ میں رنگی ہوںگی۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے محبوب نبی صلعم کی حقیقی محبت سے سرشار فرمائے ۔ آمین ۔
فون نمبر9858109109