اگر عورتوں کو طلاق کا آزادانہ اختیار دیا گیا ہوتا تو آج کے دور کی بہت سی رذیل قسم کی عورتیں نکاح کو تجارت ہی بنالیتیں۔ ان کی نگاہیں مہر اور شوہر کے دوسرے اموال پر ہوتیں اور جب یہ چیزیں اس کے قابو میں آجاتیں تو وہ شوہر کو طلاق دے کر چل دیتیں۔ اس لئے اصولاً یہ بات درست سمجھی گئی کہ جس نے مال خرچ کئے ہوں اسے ہی طلاق کا آزادانہ حق ہو۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ عورتیں بنسبت مردوں کے وقتی تاثرات سے جلد مغلوب ہو جاتی ہیں، اس لئے اس میں ایک طرح کی حفاظت بھی ہے کہ کہیں وقتی تاثرات رشتوں کے انقطاع کا سبب نہ بن جائیں۔
دوسری طرف مردوں کو طلاق کا آزادانہ اختیار تو دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی اس پر ناپسندیدگی بھی ظاہر کردی گئی ہے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے‘‘۔ (سُنن ابی دائود ، کتابُ الطَّلاق، بروایت عبداللہ بن عمرؓ )۔ دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں ’’ طلاق سے زیادہ مبغوض کوئی اور چیز اللہ نے حلال نہیں کی‘‘۔ (سُنن ابی دائود ، کتابُ الطَّلاق، بروایت محارب بن دثارؓ )۔ مذکورہ روایتوں میں اول الذکر روایت اس کے ایک راوی کثیر بن عبید کے لین الحدیث ہونے کی وجہ سے اور ثانی الذکر روایت مرسل ہونے کی وجہ سے اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے گو کہ حاکمؒ نے اس کی تصحیح کی ہے اور علامہ ذہبیؒ نے ان کی موافقت کی ہے لیکن امام ابوحاتمؒ، دارقطنیؒ اور بیہقیؒ نے اس حدیث کے مرسل ہونے کو ہی راجح کہا ہے۔ تاہم اس کے پیغام کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ زوجین کی تفریق انسان کے ازلی دشمن ابلیس کی پسندیدہ ترین چیز ہے جس سے اللہ کے رسول ﷺ نے متنبہ بھی کردیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’بیشک ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے پھر وہ اپنے لشکروں کو (عالم میں فساد کرنے کے لئے) بھیجتا ہے۔ پس اس کے نزدیک مرتبہ میں مقرب ترین وہ ہوتا ہے جو سب سے بڑافتنہ برپا کرے۔ (چنانچہ) ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس اس طرح کیا (مثلاً فلاں کو شراب پلوائی، فلاں سے چوری کرائی وغیرہ) تو ابلیس کہتا ہے کہ تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر ان میں سے ایک آکر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق (جدائی) نہ کرادی تو ابلیس اس کو اپنے سے قریب کرلیتا (چمٹالیتا) ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے بڑا کام کیاہے‘‘۔ ( صحیح مسلم، کتاب صِفَاتِ الْمُنَافِقِیْنَ وَ أَحْکَامِھِمْ، بروایت جابرؓ)۔ اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو چیز ابلیس کی محبوب ترین چیز ہو وہ اللہ عز و جل کی پسندیدہ تو نہیں ہوسکتی۔
اس کے علاوہ طلاق کی اجازت کے ساتھ کئی پا بندیاں بھی لگا دی گئی ہیں۔ مثلاً غصہ کی حالت اور وقتی نا گواری میں اس اختیار کو استعمال نہ کیا جائے، عورت جب حیض کی حالت میں ہو تو اُسے طلاق نہ دیجائے ، اسی طرح اُس طہر کی حالت میں بھی طلاق نہ دیجائے جس میں مجامعت (Intercourse) کی نوبت آئی ہو۔ آخرالذکر دونوں صورتوں میں جہاں عورت کی عدت کی مدت کے طویل ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے ، اس کی تکلیف سے حفاظت مقصود ہے وہیں اس میںیہ بھی حکمت ہے کہ ممکن ہے مقصود مدت کے انتظار میں غصہ فرو ہو جائے اور طلاق کی نوبت ہی نہ آئے۔ اسی طرح شریعت نے ایک اور آسانی یہ بھی رکھی ہے کہ لفظ طلاق کے منہ سے نکلتے تمام رشتے منقطع نہیں ہو جاتے بلکہ ایک یا دو طلاق کی صورت میں عدت کی مدت تک عورت اسی مرد کے نکاح میں رہتی ہے اور اگر وہ دونوں چاہیں تو شرعی قائدے کے مطابق باہم رجوع کرسکتے ہیں ۔ اسی لئے عدت اسی گھر میں گزارنے کا حکم ہے کہ بہت ممکن ہے کہ غصہ فرو ہوجائے اور باہمی مصالحت کی کوئی صورت نکل آئے اور اسی لئے بہ یک وقت تین طلاق کے استعمال سے بھی روکا گیا ہے تاکہ غور و فکر اور رجوع کے امکانات باقی رہیں ، یکسر ختم نہ ہوجائیں۔
ان تمام احکامات پر اگر غور کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ شریعت میں اخیر درجہ تک اس کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ رشتہ ازدواج ٹوٹنے نہ پائے۔ رسول پاک ﷺ نے صحابہ کو اپنی بیویوں سے حتی الا مکان نباہ کرنے کی ترغیب دی، انہیں ان کی خوبیوں پرنگاہ رکھنے اور عیبوں کو نظرانداز کرنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ اگر اس کے اندر کوئی عیب ہے تو کوئی خوبی بھی ہوگی۔ ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن مرد کی یہ شان نہیں کہ اپنی مومنہ بیوی سے بغض رکھے۔ اگر اس کی ایک عادت اُسے ناپسند ہوگی تو دوسری پسندیدہ بھی ہوگی‘‘۔(صحیح مسلم، کتابُ الرِّضَاع، بروایت ابوہریرہؓ)۔ طلاق کے احکامات پر غور کرنے سے دوسری اہم بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ طلاق(کم ازکم رجعی کی حد تک)اصلاحی تدابیر کاہی حصہ ہے اور اسے بالکل اخیر درجہ میں بطور اصلاح ہی استعمال کرنا چاہیے اور حتی الامکان نباہ کی صورت پیدا کرنی چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق دینا، نشہ کی حالت میںطلاق دینا، ایک ہی مجلس میں دو، تین یا اس سے زائد طلاق دینا شریعت کی منشاء کے بالکل خلاف ہے۔ یہ سب وہی لوگ کرتے ہیں جنہیں یا تو شریعت کا علم نہیں یا پھر شریعت کا کوئی پاس ولحاظ نہیں۔
ایک اور پہلو جس کی طرف سے کچھ لوگ لا پرواہی برتتے ہیں عورتوں کا نان و نفقہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق عورتوں کو روٹی، کپڑا اور سکونت اپنی وسعت کے موافق دینا ہر مرد پر لازم ہے۔حکیم بن معاویہ القشیریؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: ’’یا رسول اللہ! ہم پر ہماری بیوی کا کیا حق ہے؟آپؐ نے فرمایا: جب تم کھانا کھائو تو اسے بھی کھلائو اور جب کپڑا پہنو یا کمائو تو اسے بھی پہنائو اور اس کے چہرے پر نہ مارو اور برا بھلا مت کہو اور اسے علیحدہ نہ چھوڑو مگر اپنے گھر میں (یعنی تنبیہ کے لئے اگر اسے اپنے سے علیحدہ کرنا چاہو تو اپنے گھر میں ہی ایسا کرو، اسے گھر سے نکالنا یا کہیں اور بھیج دینا یا اسے چھوڑ کر خود کہیں چلے جانا مناسب نہیں)‘‘۔ (سنن ابی دائود، کتاب النکاح)۔ اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے بشمول چند دیگر حقوق کے عورتوں کے نان و نفقہ پانے کے حق کی بھی وضاحت کی ہے اور صرف یہی نہیں کہ آپؐ نے عورتوںکا نان و نفقہ ان کے شوہروں پر لازم قرار دیا بلکہ اس پر ثواب کی بشارت بھی دی ہے۔ ابو مسعود بدریؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’انسان کا اپنی بیوی اور بال بچوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازي، باب ۱۲، حدیث نمبر ۴۰۰۶)۔ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب مسلمان آدمی اپنی بیوی بال بچوں پر اللہ کا حکم ادا کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے خرچ کرے تو اس میں اس کو صدقہ کا ثواب ملے گا۔ آپؐ کا معاشرتی فرائض کو اخروی انعامات سے جوڑ کر بتانا جہاں اسلامی فلسفہ حیات کی جامعیت کی عکاسی کرتا ہے وہیں یہ ایک ایسے محرک کا کام بھی کرتا ہے جو انسان کے فرائض کی ادائیگی کے جذبہ کی کیفیت کو ہی بدل کر رکھ دیتا ہے۔
آپؐ نے اس بات کی بھی ہدایت دی کہ اگر کسی شخص کے پاس ایک سے زائد بیویاں ہوں تو وہ نان ونفقہ ، لین دین اور شب باشی میں ان کے درمیان عدل کرے۔ محبت ایک فطری چیز ہے جو کسی ایک سے زیادہ ہو سکتی ہے لیکن اس کے غلبہ میں دوسری کو نظر انداز کرنے یا اُس کی حق تلفی کرکے اُسے اذیت پہنچانے کو آپؐ نے بالکل پسند نہیں فرمایا۔ آپؐ نے خود اپنی ازدوواجی زندگی میں عملاً ان اصول و ضوابط کو نافذ کرکے بھی دکھایا ہے۔ روایت ہے حضرت عائشہؓ سے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی بیویوں کے درمیان راتیں عدل کے ساتھ (برابر برابر) تقسیم کرتے تھے اور پھر کہتے یا اللہ یہ میری تقسیم ہے اُس چیز میں جس کا میں اختیار رکھتا ہوں سو تو ملامت نہ کرنا مجھ کو اُس چیز میں جس کا میں اختیار نہیں رکھتا بلکہ تو اختیار رکھتا ہے (یعنی محبت و میلان قلبی وغیرہ میں)۔ (سنن ترمذی، کتاب النکاح)۔
جو لوگ ایک سے زیادہ شادیاں کرلیتے ہیں اور اپنی بیویوں کے درمیان نان ونفقہ ، لین دین اور شب باشی میں عدل نہیں کرتے ان کے بارے میںآپؐ سے وعید بھی منقول ہے۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و انصاف نہ کرتا ہو تو وہ قیامت کے دن (میدان حشر میں) اس طرح آئے گا کہ اس کے بدن کا آدھا حصہ مفلوج ہوگا‘‘۔ (سنن ترمذی، کتاب النکاح)۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اس بات کا اندیشہ رکھتا ہو کہ کہ وہ ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان حسن سلوک اور لین دین میں عدل نہیں کر سکے گا تو اسے ایک ہی شادی پر اکتفا کرنا چاہیے جیسا کہ قرآن کریم کی تعلیم ہے: ’’اگر تم کو اندیشہ ہو کہ عدل نہ کرسکوگے تو ایک ہی نکاح کرو‘‘۔ (نسآء: ۳)۔ ایسا شخص اگر ایک سے زائد نکاح کرتا ہے تو گویا وہ اپنی آخرت کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ غور کیجیے کہ نبی کریم ﷺ نے حسن معاشرت کی کیسی تعلیم دی ہے لیکن یہ ساری باتیں اُسی کے لئے مئوثر ثابت ہو سکتی ہیں جو اللہ پر اور یوم آخرت پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہو اور خدا کے سامنے جوابدہی سے ڈرتا ہو۔ جہاں دین کا کوئی تصور ہی نہیں وہاں ان خیالات کے قدر کی توقع رکھنا یقیناً فضول ہے۔
یہاں ایک سوال کسی ’’روشن خیال‘‘ شخص کے ذہن میں آسکتا ہے کہ آخر اسلام میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت ہی کیوں دی گئی ہے اور پیغمبر اسلام ﷺنے اپنی ازدواجی زندگی میں عملی طور پر اپنا کر اسے کیوں فروغ دیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ بات ذہن سے نکال دینی چاہیے کہ تعدد ازواج کے طریقہ کو حضرت محمد ﷺنے پہلے پہل رائج کیا ہے اور عالم انسانیت کے لئے اسلام کا یہ کوئی نیا حکم تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مردوں کا ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج جس میں تعداد کی قید بھی نہیں تھی ، شریعت محمدیہؐ کی آمد سے قبل سے ہی بشمول عرب سوسائٹی کے دنیا کی مختلف اقوام میں تھا اور تمام ادیان کے پیروئوں میں تھابلکہ اسلام نے تو اسے چار کی تعداد پرمحدود کردیا کیوں کہ لوگ شادیاں تو متعدد کرلیتے تھے اور ان بیویوں کے حقوق ادا نہیں کرتے تھے۔ تو ایک طرح سے تو اسلام نے عورتوں کے حق میں ہی یہ فیصلہ کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایک سے زائد شادی کرنے کی صرف اجازت دی گئی ہے ، یہ کوئی لازمی حکم نہیں ہے کہ ہر مسلمان چار شادی کرے ہی۔ تیسری بات یہ کہ جیساکہ سطور بالا میں ذکر کیا گیا کہ ایک سے زائد شادی کو بیویوں کے درمیان حقوق کی ادائیگی اور داد و دہش میں عدل و انصاف کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے ، بصورت دیگر ایک پر ہی اکتفا کرنے کو کہا گیا ہے جس حکم کی مثال کسی دوسرے مذہب میں شاید ہی ملے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اس میں یتیم لڑکیوں ، بیوائوں اور مطلقہ عورتوں کی خیرخواہی مقصود تھی کہ دوسری شادی کے بہانے ہی سہی انہیں بھی سرپرست اور نگراں نصیب ہوجائے جو ان کی کفالت بھی کرے اور ان کے معاشرتی حقوق کی حفاظت بھی۔ یہ اس لئے بھی ضروری تھا کیوں کہ جنگوں میں بڑی تعداد میں مرد قتل ہوجاتے تھے اور ان کی بیوہ اور یتیم بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا تھا ۔ قرآن کی جس آیت کے ذریعہ یہ اجازت مسلمانوں کو دی گئی یعنی سورہ النساء کی آیت نمبر ۳، اس کے نزول کا سبب اور پس منظر بھی یہی ہے کہ احد کی لڑائی میں ۷۰ مسلمان شہید ہوگئے اور یکلخت ۷۰ (ستّر) گھرانہ سرپرستوں سے محروم ہوگیا۔ اس لئے یہ حکم آیا کہ جو لوگ صاحب استطاعت ہیں اگروہ چاہیں تو ان یتیم لڑکیوں اور بیوائوں کو نکاح کے ذریعہ اپنی سرپرستی میں لے لیں۔ پھر اس حکم کو باقی رکھا گیا ، منسوخ نہیں کیا گیا کیوں کہ ہر زمانہ میں ایسی صورتحال کے واقع ہونے کا امکان تھا اور ایسا ہوا بھی جس کی گواہی عالمی تاریخ دے رہی ہے اور دور حاضر میں بھی یہ صورتحال حقیقی طور سے سامنے آچکی ہے کہ خود کو مہذب، تعلیم یافتہ اور انسانی حقوق کی پاسدار سمجھنے والی اقوام نے محض اپنے مفاد کی خاطر کسی نہ کسی بہانے اور فریب سے دنیا کے متعدد ممالک کو جن میں اکثر مسلم ممالک ہی ہیں جنگ کی بھٹی میں جھونک رکھا ہے جس کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں لڑکے لڑکیاں یتیم اور عورتیں بیوہ ہورہی ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ پھر ان کے ہر قسم کے استحصال کا لامتناہی سلسلہ بھی جاری ہے ۔ لہٰذا قرآن کے تعدد ازواج کی اجازت سے متعلق حکم کی معنویت آج بھی باقی ہے۔
رسول پاک ﷺ نے بھی جو کئی نکاح کئے اس کے پیچھے بھی مذکورہ مصلحت کے علاوہ کئی ساری حکمتیں تھیں۔ ان میں کئی قبائل یا خاندانوں سے رشتے کو استوار کرنابھی مقصود تھا تاکہ وہ اسلام کے فروغ میں معاون بن سکیں اور بعض مرتبہ کسی قبیلہ کے افراد کی دلجوئی اور مدد کرنابھی مقصود ہوتا تھا۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ کی ایک زوجہ حضرت جویریہ ؓبنت حارث ہیں جو بنو المصطلق قبیلہ سے تھیں اور غزوہ مریسیع میں قید ہوکر آگئی تھیں۔ غنیمت کی تقسیم میں وہ ثابت بن قیسؓ کے حصہ میں گئیں جنہوں نے ان کو نو اوقیہ سونے پر مکاتب کرلیا یعنی اتنی مالیت ان کی آزادی کا معاوضہ طے کردیا۔ چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور ان سے عرض کیا کہ میں اپنے قوم کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی جویریہ ہوں اور مجھ پر جو مصیبت گزری ہے اس کا حال آپؐ کو معلوم ہے۔ اب ثابت بن قیسؓ نے نو اوقیہ سونے پر مجھے مکاتب کیا ہے جو میرے بس سے باہر ہے ، اس لئے آپؐ کے پاس مدد کے لئے آئی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تجھے یہ پسند ہے کہ مطلوبہ معاوضہ ادا کرکے میں تجھے آزاد کرادوں اور پھر تجھ سے نکاح کرلوں ؟ ایک سردار کی بیٹی کے لئے اس سے بڑھ کر اعزاز کی بات کیاہوسکتی تھی کہ وہ غلامی سے آزاد ہوکراسلامی حکومت کے سربراہ کی زوجیت میں ہو۔ چنانچہ وہ بخوشی راضی ہوگئیں اور اس طرح رسول اللہ ﷺ کی نکاح میں آگئیں۔ جب صحابہ کو یہ پتہ چلا کہ بنوالمصطلق رسول اللہ ﷺ کا سسرال ہوگیا تو انہوں نے بھی اس رشتہ کے اعزاز میں اپنے اپنے قیدیوں اور غلاموں کو جو اس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے آزاد کردیا اور اس طرح صرف اس نکاح کی وجہ سے سو گھرانے آزاد ہوگئے۔ (سیرت ابن ہشام اردو، اسلامی کتب خانہ ، لاہور، جلد۳، صفحہ ۹۳؛ الرحیق المختوم اردواز مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری، المکتبۃ السلفیہ، لاہور، ۲۰۰۰ء، صفحہ ۴۴۴؛ طبقات بن سعد اردو، نفیس اکیڈمی ، کراچی، جلد۱، صفحہ ۲۹۶)۔
رسول اللہ ﷺ کی متعدد شادیوں کی ایک حکمت مردوں کو عدل بین الازواج اور حسن معاشرت کی تعلیم دینا بھی تھی کیوں کہ جب تعدد ازواج کی اجازت کا حکم باقی رہا تو کچھ لوگ اسلامی معاشرے میں ضرور ہی اس حکم سے مستفید ہوتے۔ لہٰذا ان کے لئے آپؐ کا اسوہ(عملی نمونہ) سامنے آنا لازم تھا تاکہ بعد کو کوئی یہ نہ کہتا کہ اسلام کے دئے ہوئے ان اصولوں پر چلنا کسی کے لئے ممکن ہی نہیں۔ آپؐ کی متعدد شادیوں کے پیچھے ایک مقصد چند ایسی معلمات کا تیار کرنا بھی تھا جو عورتوں کو شرعی مسائل کی تعلیم دے سکیں بالخصوص ان مسائل کی جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ مثلاًحیض، نفاس، جنابت، وظیفہ زوجیت، رضاعت وغیرہ کے احکام۔ دوسری عورتوں کو یہ تعلیمات دینے میں شرم و حیا آپؐ کے لئے بھی مانع رہتی اور ان عورتوں کے لئے بھی۔ لیکن بیویوں کے درمیان ان مسائل کو بیان کرنے میں آپؐ کے لئے کوئی رکاوٹ نہ تھی اور وہ دوسری عورتوںکو بحسن و خوبی اور بغیر کسی رکاوٹ کے یہ تعلیمات پہنچاسکتی تھیں۔ چنانچہ ہوا بھی ایسا ہی کہ آپؐ کی بیویاں عورتوں کی بہترین معلمہ ثابت ہوئیں اور بعض تو عظیم محدثہ بنیں جن سے مرد صحابہ بھی اکتساب فیض کیا کرتے تھے۔ ان بیویوں نے رسول اللہ ﷺ کی نجی اور گھریلو زندگی کے ان روشن پہلوئوں کو سامنے لایاجن پر باہری افراد عام طور پر مطلع نہیں ہوسکتے تھے۔ ایک سے زائد شادیوں کی اجازت اور رسول اللہ ﷺ کا اس حکم پر عمل پیرا ہونے کی مذکورہ مصلحتوں کے علاوہ بھی کئی ساری مصلحتیں اورحکمتیں ہیں جن کو یہاں طوالت کے خوف سے چھوڑا جارہا ہے ۔
سابق ڈین، فیکلٹی آف ایجوکیشن، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
[رابطہ موبائل: 09471867108 ، ای میل:[email protected] )
(باقی باقی)