سجاد پونچھی
تیرے قلم سے فن یہ قلم کا جواں ہوا
دل کے ورق پہ حمد کا دریا رواں ہوا
غارِ حرا میں نُور کے پیکر کو دیکھ کر
ہر سمت آسماں پہ تقدّسُ عیاں ہوا
قوَسین سے بہت ہی قریب اور بھی قریب
بندہ تِرا ، جو تجھ سے ملا ضَو فِشاں ملا
حقِ سرّہ کا ورد کیا قُمریوں نے یوں
حمد و ثنا میں صُبح کا عالم بیاں ہوا
سجدے میں قیس کے تھے نہاں عشق و معرفت
در پردہ حُسن ، صورتِ محمل عیاں ہوا
موسی فرازِ طور پہ بے ہوش ہوگئے
ظاہر جو تیرا جلوہ سَرِ آسماں ہوا
اک ذرۂ حقیر تھا سجادِؔ بے بساط
صد شُکر تیرے فیض سے وہ بے کراں ہوا
338 محلہ جھولاکاں جموں
موبائل9419104353
بیادِ شاد ؔنقشبندی
شاد نقشبندی فنون لطیفہ کے حوالے سے ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فن خوشنویسی پر مہارت تامہ رکھتے تھے۔ اُنکے فن خوشنویسی کے کئی نمونےیاد گار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مرحوم کو یہ امتیاز حاصل رہا ہے کہ وہ وادیٔ کشمیر کے اولین کارٹونسٹ تھے۔ شاد کی فنی بوقلمونی پر لکھنا اہل تحقیق پر قرض ہے۔ مرحوم کی برسی 13مئی کو تھی اور انکے دوست سلطان الحق شہیدیؔ نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
شاد صاحب نقشبندی کا ہے یہ یوم وصال
محفلِ یاد ان کی پندرہ مئی کو ہوتی ہے بحال
خوش قلم خوش فکر خوش اَطوارخوش اعمال کا
ذکرِخیر آتا ہے ہر اک اہلِ دل کا نقدِ حال
صاحبِ علم و ہُنر،ذوقِ ادب سے بہر ہ ور
اپنے ہم جنسوں میں تھے لاریب آپ اپنی مثال
خوبیاں پیدا کرو۔ احسان کرنے کےلئے
زندگی بھر تھا مشن مرحوم کا تاارتحال
کام آنا دوسروں کے ہے عبادت کا نچوڑ
یہ نہ کر پاؤو تو خالق کو بھی ہوتا ہے ملال
میری جانب سے دُعائوں کا ہے اک گلدستہ پیش
ہو قبولِ بار گاہ حق، نہ کچھ کم اور نہ بیش
اے خدا دونوں جہاں میں رکھ ہمیں آباد رکھ
صدقے میں نیکوں کے اپنے رحم فرما شاد رکھ
سلطان الحق شہیدیؔ
رابطہ: ستہ بونی لعل بازار سرینگر،9797946911
غـزلـــیـــات
دستِ ہوس میں تیغِ جفا ہے،تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
کیسی عبرتناک سزا ہے، تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
شہرِ تمنا سہما سہما لرزاں لرزاں بزم خیال
سارا عالم خوف زدہ ہے،تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
دنیا کے ان ایوانوں سے لوح و قلم کی محفل تک
سناٹا ہی سناٹا ہے، تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
اس پر بھی تو سو چویارو، اس پر بھی تو غور کرو
آج زمانہ کیوں ایسا ہے، تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
گھٹ گھٹ کر مرجانا بھی تو دل والوں کی رسم نہیں
یہ جینا بھی کیا جیناہے، تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
کچھ تو بولو درد کے مارو ،کچھ تو جی ہلکا کر بولو
ہائے یہ کسی شرط ِوفا ہے،تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
گویائی بھی قہر سراپا، خاموشی بھی جُرم و حیدؔ
جینا جیسے کوئی سزاہے، تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
وحید ؔمسافر
باغات کنی پورہ چاڈورہ
9419064259
اُلجھن کو سُلجھاتے رہئیے
بگڑی بات بناتے رہیے
ایسے دِل میں سماتے رہئیے
اپنے وعدے نبھاتے رہئیے
گرتے ہوئوں کواُٹھاتے رہئیے
اپنافرض نبھاتے رہئیے
میں بھی آپ کاٹھہرا مُرید
میرے گھربھی آتے رہئیے
سب کے غم میں شامل ہوکر
سب کی دُعائیں پاتے رہئیے
جوبھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہوں
سب کوراہ دِکھاتے رہیئے
فرض سے جوغافل ہوں ہتاشؔ
نیندسے انھیں جگاتے رہئیے
پیارے ہتاشؔ۔۔ جموں
8493853607
ہوا دیتے ہیں ،جسکو تھا بجھانا
رقابت کا یہ شعلہ ہے پرانا
شریفوں کے ہی ہاتھوں کو ہوا کیا؟
تڑپتا ہے شرافت کا زمانہ
چمن میں ہر جگہ ہے آگ برپا
بچے بلبل کا کیسے آشیانہ
میرے ناعاقبت اندیش دل نے
حقیقت کو بنا ڈالا فسانہ
اُگا سورج عمل کا ،ولولوں کا
تمنا کو نہ خوابوں میں سجانا
بصیرت ہی چراغِ آرزو ہے
فریبِ نفس میں ہر گز نہ آنا
تمہاری بات ہادیؔ قیمتی ہے
ہوئی دنیا کسی کا کب ٹھکانا
حید ر علی ہادیؔ زیارت بٹہ مالو
8803032970
میرے دل کی کہانی تم ہی تو ہو
آنسوؤں کی روانی تم ہی تو ہو
بچپن کی نشانی تم ہی تو ہو
میری بڑھتی جوانی تم ہی تو ہو
اِس جہاں کی بھی بانی تم ہی تو ہو
اْس جہاں کی بھی بانی تم ہی تو ہو
جھیل کا میٹھا پانی تم ہی تو ہو
اس خدا کی نشانی تم ہی تو ہو
تم ہی توہو فراز کی وہ غزل
جس کی جادو بیانی تم ہی تو ہو
جس کا دیوانہ ہے ازل سے وہی
نور کی وہ کہانی تم ہی تو ہو
سہہ نہیں پاتا ہوں میں تیرا بُرا
کیونکہ میری جوانی تم ہی تو ہو
سید بسمل ؔمرتضیٰ
پیر محلہ شانگس اسلام آباد
9596411285
آسماں بھی آگ برساتا رہا ہے بے سبب
وادیٔ ظلمت کو چمکاتا رہا ہے بے سبب
ابرِباراں کی تمنّا طائروں کی بے محل
کون ان کے قلب بہلاتا رہا ہے بے سبب
برق سی دوڑی ہے میرے دل میں تیرے تیر سے
آگ ،داغِ عشق بھڑکاتا رہا ہے بے سبب
ہے نہتّا، کن گناہوں کی سزا اس کو ملی
اک نوالے کے لیے جا تا رہا ہے بے سبب
اس میں میری کیا خطا ہے، یہ کشش ہے حسن کی
یہ تعاقب مجھ کو بٹھکاتا رہا ہے بے سبب
عشق کا اب تک معمہ دل نشیں ہوتا رہا
تو وبالِ خرد سلجھاتا رہا ہے بے سبب
میں نہیں صیّاد سے رکھتا ذرا بھر آسرا
ایک تو ہے، دام الجھاتا رہا ہے بے سبب
چاہتے ہیں وہ نشہ ، لذّت ہو جس میں دائمی
ہم کو ساقی یوں ہی بہکاتا رہا ہے بے سبب
میں پھڑکتا ہی نہیں ، وہ خاطرِ لطفِ نظر
بے مروّت ہو کے پھڑکا تا رہا ہے بے سبب
غور سے انسان کی انسانیت کو دیکھئے
دار پر انساں کو لٹکاتا رہا ہے بے سبب
میں مظفّرؔ کیوں نشیمن کے زیاں پر رو دیا!
روز اوّل ہی سے تڑپاتا رہا ہے بے سبب
مظفّرؔ منظور، اسلام آباد کشمیر
( ریسرچ اسکالر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)
Mob: 9906519996, Email: [email protected]
چلو مجلس میں بیٹھے دوستو محفل کو گرمائیں
کہ اپنی آتش دل سے چراغ ِبزم بھڑکائیں
کبھی الفت کے گیتوں کو زبانِ دل سے دہرائیں
کبھی ہنس کر ذرا رو دیں کبھی رو کر بھی مسکائیں
چلائیں دور ،ساقی سے ذرا کہہ دو کہ ہم آئے
نہ پینے کا جسے ہو شوق اسکو جام پکڑائیں
کبھی ہجراں کے نغموں سے فضا اَفسردہ سی ہو لے
کبھی ان کے نکھرتے جلووں کو ہم دل میں لہرائیں
مرے یارو کسی پل بھی توجہ مت ہٹانا تم
کسے معلوم کس لمحہ حجاب نور ِسرکائیں
کوئی بلبل کی صورت نغمۂ حسن و چمن گائے
کوئی چوں چوںکوئی کُو کُو کوئی غاں غاں کوئی کائیں
ارے! حامی ؔاسی مجلس کے کونے میں تو بیٹھے ہو
چلو اشعار کہتے ہو کہ ہم تم سے کہلوائیں
تسنیم الرحمان حامیؔ
رابطہ :مرہامہ کپوارہ کشمیر
متعلم کشمیر یونیورسٹی شعبۂ انجینیرنگ
9419466642 / [email protected]