سماج کو درپیش مسائل میں اِس وقت رشتوں کا انتخاب بالخصوص لڑکیوں کی شادی ایک بہت اہم مسئلہ بن چکا ہے ۔کئی والدین چاہتے ہوئے بھی اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے نہیں کرپارہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ غیر اسلامی اور غیر انسانی رسم و رواج کی وجہ سے غرباء کی بیٹیاں بے بسی اور بے چارگی کی چادر اوڑھے چار دیواری میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہورہی ہیں۔اس بات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ لڑکی کا دنیا میں پہلا روپ ہی رحمت ہے ،جو بیٹی بن کر خاندان کے دلوں پر راج کرتی ہے۔بہن بن کر بھائی کی سچی اور مخلص دوست اور ماں کا بازو بن کر رہ جاتی ہے۔ بیوی ہوتی ہے تو ایک پختہ اور ہمیشہ ساتھ نبھانے والی اور جب وہ ماں بنتی ہے تو اللہ اس کا رتبہ اتنا بلند کر دیتا ہے کہ جنت کو اٹھا کراس کے قدموں میں ڈال دیتا ہے۔
معاشرے میں اس(عورت) کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کا موضوع زمانہ قدیم سے ہی مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں زیر بحث رہا ہے۔ دنیا میں انسانی زندگی کا دار و مدار جتنا مردوں پر ہے اتنا ہی عورتوں پر بھی ہے جبکہ فطری طور پر عورتیں خلقت کے انتہائی اہم امور سنبھال رہی ہیں۔ خلقت کے بنیادی امور جیسے عملِ پیدائش اور تربیت اولاد انہی کے ہاتھوں میں ہے۔عورت کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جو بلند انسانوں کی پرورش کرکے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ ویسے کنبہ تو مرد اور عورت دونوں سے مل کے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں لیکن گھر کی فضا کی طمانیت اور آشیانے کا چین و سکون عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔
اگر ہم اپنی وادی پر سرسری نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ آج ایسی ہزاروںکنواری لڑکیاں موجود ہیں جن کے والدین اچھے اور مناسب رشتے کی راہ تکتے رہے اور اس دوران نوبت یہاں تک آگئی کہ اب جو رشتہ آتا بھی ہے وہ یہ کہہ کر واپس چلے جاتے ہیں کہ ہمیں تو اپنے بیٹے کیلئے کمسن لڑکی کا رشتہ چاہئے۔ ذرا سوچئے کہ اس صورتحال میں اْن والدین کی کیا حالت ہوگی جن کی بیٹیاں ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں گھر کی دہلیز پر بیٹھے بیٹھے ہی بوڑھی ہوئی جارہی ہیں۔ یہ ایسا سنگین سماجی مسئلہ ہے جس نے ہماری معاشرتی جڑوں کے اندر مادیت اور مفاد پرستی سرایت کرجانے کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی بات ہے جس نے ہمارے معاشرے کا رجحان تبدیل کردیا ہے؟ وہ کیا معیار ہے جو لڑکے والے، ہونے والی بہوؤں میں تلاش کرتے ہیں؟ آخر وہ کیا چیز ہے جو لڑکوں کے آنے والے رشتوں میں خامی بن کر بیٹیوں کے ماں باپ کو رشتہ قبول کرنے سے انکار پر مجبور کردیتی ہے؟وقت کے ساتھ ساتھ اقدار کا بدلنا سماج کا ارتقائی عمل ہے، یہ نہ رکا ہے اور نہ ہی آئندہ اسے روکا جاسکے گا لیکن ہمیں سوچنا ہے کہ سماجی اقدار کے ارتقا ء میں کیا ہمیں اپنی اْن بنیادی روایتوں کو بھی تبدیل کردینا چاہئے جن پر اس سماج کی بنیاد کھڑی ہے؟ یقیناًنہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے لیکن افسوس کہ ایسا ہی ہورہا ہے۔ جب ہم بحیثیت فرد اس بات کا خیال نہیں رکھتے تو پھر ہمیں کسی دوسرے سے بھی شکوہ نہیں کرنا چاہئے۔
وہ لوگ جو خود ساختہ بدلتی اقدار کا لبادہ اوڑھ کر بہوؤں کی تلاش میں بیٹی والوں کی دہلیز تک جاتے ہیں، واپس کیوں پلٹ آتے ہیں؟ بیٹی کیلئے اچھا سوچنا ہر ماں باپ کا فرض ہوتا ہے لیکن وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے بیٹی کیلئے آنے والا رشتہ انہیں قبول نہیں ہوتا اور پھر جب بیٹیاں گھر کی دہلیز پر بیٹھے بیٹھے عمر بیت جانے کی تصویر بن جاتی ہیں تو وہ کفِ افسوس ملتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ اچھا رشتہ نہیں ملتا ہے‘‘۔بیٹیوں کے رشتے آج کے دور میں بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن اس دور میں اچھے رشتے نہ ملنے کا سب سے بڑا سبب خود ہمارا دوہرا معیار ہے۔ ہم اپنے بیٹوں کیلئے رشتہ تلاش کرتے ہیں تو لڑکی اور اْس کے گھرانے کا ایک بلند معیار اپنے ذہن میں قائم کرلیتے ہیں۔ یہ معیار خود ہمارے اپنے سماجی معیار سے بھی کہیں بلند ہوتا ہے لیکن جب ہم خود اپنی بیٹی کیلئے آنے والے رشتے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے معیار بالکل بدل جاتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ لڑکے والوں کا سماجی و معاشی مقام ہم سے کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، ہماری بیٹی سے صرف شرافت اور اس کی سیرت کو دیکھ کر رشتہ کردیں۔جب ہم بیٹے والے بن کر لڑکی والوں کے گھر جاتے ہیں تب ہم خود یہ سب کچھ کیوں نہیں سوچتے؟ اْس وقت شرافت، سلیقہ شعاری اور سیرت کے بجائے ہم اْس کے والدین کے سماجی و معاشی قد سے اپنے ذہن میں قائم خودساختہ معیار کا موازنہ کیوں کرنے لگتے ہیں؟
یہ تو ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پہ طے ہوتے ہیں پھر بھی ہر کوئی رشتے نہ ہونے یا دیر سے ہونے کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہے۔روز بروز یہ مسئلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہردوسرے گھر میں یہی مسئلہ والدین کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔ لڑکیوں کی عمریں گزرتی جا رہی ہیں اور اُن کے والدین کی راتوں کی نیندیں حرام ہورہی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کا معیار اس قدر تلخ ہو چکا ہے کہ ہر ایک ماں باپ خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے والدین کو اپنی بیٹیوںکیلئے وہ دن دیکھنے پڑتے ہیں جو انہیں ایسی منزل پر پہنچا دیتے ہیں جہاں وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ لڑکا جیسا بھی ہو ، منظور ہے۔
لڑکیوں کی شادی میں تاخیر اور اچھے رشتوں کے نہ ملنے کا رونا وہی لوگ روتے ہیں جن کا معیارِزندگی دو رخی ہوتا ہے۔ جو لوگ بدلتے ہوئے سماجی اقدار کے باوجود اس خیال سے متفق ہوتے ہیں کہ رشتے بنائے نہیں جاتے بلکہ یہ آسمانوں پر طے ہوتے ہیں، زمین پر تو صرف ان کا ملن ہوتا ہے، ایسے لوگ کبھی پریشانی کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے گھروں کے آنگن خوشیوں سے محروم رہتے ہیں۔ لہٰذا شرافت اور لڑکے میں کسبِ کمال کی صلاحیت کو اپنے مدنظر رکھیں کیونکہ جس شخص میں اپنی محنت سے دو وقت کی روٹی کما لینے کی صلاحیت ہو، وہ دنیا بھر کی آسائشیں بھی خدا کی مرضی سے وقت آنے پر حاصل کر ہی لیتا ہے۔
ایسا بھی دیکھنے یا سننے کو ملتا ہے کہ اگر کسی خاندان میں لڑکی کے معیار کے مطابق مناسب رشتہ نہ آرہا ہو تو اکثر مائیں یہ کہتی سنائی دیتی ہیں کہ میری بیٹی کے رشتے پر کسی نے بندش لگوا دی ہے اور ایسی بہت سی باتیں کہی اور سنی جاتی ہیں جو ان کی پریشانیوں او راذیتوں کو کم کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ ان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے گھروں پر نت نئی مصائب او راذتیں دستک دیتی رہتی ہیں پھر ایسے لوگ توہم پرستی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ یتیم، ناداراور بے سہارا لڑکیوں کی شادی بہت مشکل ہوگئی ہے۔ سفید پوش گھرانوں کے والدین اپنی بچیوں کی شادی کے وقت ضروریاتِ زندگی اور مہمانوں کو کھانا کھلانے کے انتظام کرنے کے لئے دن رات تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے افراد اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے نہیں کرپارہے ہیں۔ تحریکِ فلاح مسلمین ٹرسٹ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی ایک سروے کے مطابق صرف سرینگر میں دس ہزار ایسی بالغ لڑکیاں موجود ہیں جن کی شادیاں اُن کے والدین کی بدترین مفلسی کی وجہ سے نہیں ہوپارہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ پوری وادی میں ایسی لڑکیوں کی تعداد لاکھوں میں ہوسکتی ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ برائیوں کی آندھیاں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں اور معاشرہ برائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ہمیں کسی بات کا ہوش نہیں رہاہے۔ ہمیں یہ احساس بھی نہیں کہ ہماری نوجوان نسل بہت تیزی سے تباہی کی روش اپنا رہی ہے اور ہمارے خوابیدہ معاشرے کو اس تباہی کی سنگینی کا نہ تو اندازہ ہے اور نہ ہی پروا۔ انسان کو جن چیزوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے ان میں ایک سکون ہے۔ انسان کو یہ نعمت کنبے اور خاندان سے ملتی ہے، عورت کو بھی اور مرد کو بھی۔اس سکون کیلئے نکاح ایک بہترین ذریعہ ہے ۔