سرینگر// حقوق بشری کے تحفظ کے عالمی دن کے موقعہ پرسنیچر کو سرینگر میںمزاحمتی تنظیموں کے ساتھ ساتھ کئی لیڈروں کی طرف سے احتجاجی دھرنوں ،سمیناروں اور جلوسوں کا اہتمام کیا گیا اور ریاست میں ہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ گمشدہ افراد کے لواحقین کی تنظیم اے پی ڈی پی کے بینر تلے پرتاپ پارک خاموش احتجاجی دھرناگیا۔اس دوران مشترکہ مزاحمتی گروپ کی طرف سے یو این او مارچ کو پولیس نے ناکام بناکر درجنوں کارکنوں کو گرفتار کیا جبکہسید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کو خانہ نظر بند رکھا گیا۔ ’یو این او‘ سونہ وار مارچ کے پیش نظر مزاحمتی قیادت کی جانب سے دئے گئے پروگرام کے پیش نظر کوکر بازار مسجد حمزہؓ سے ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا ۔جلوس میں شامل شرکاء آزادی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے جبکہ انہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈس اٹھا رکھے تھے جن پر انسانی حقوق کے دن کے حوالے سے نعرے درج تھے ۔احتجاجی مارچ میں کچھ کارکنوں نے آنکھوں پر کالے چشمے پہنے تھے اور پیلٹ گنوں سے آنکھوں کی بینائی کھونے والے بچوں کی عکاسی کی تھی ۔جلوس میں شامل شرکاء نے جب امیرا کدل بنڈ سے ہوتے ہوئے سونہ وار کی جانب پیشقدمی کی تو یہاں پولیس نے پہلے سے ہی گاڑیوں کو تیاری کی حالت میں رکھا تھا جبکہ علاقہ میں پولیس کی بھاری جمعیت کو تعینات کیا گیا تھا ۔پولیس کی طرف سے کھڑی رکاوٹوں کو دیکھتے ہوئے احتجاجیوں نے کوکر بازار کے راستے آگے جانے کی کوشش کی تاہم پولیس نے فوری طور وہاں بھی گاڑیاں کھڑا کردیں جس دوران امن جلوس کو منتشر کرنے کیلئے کئی قائدین و ارکین کو گرفتار کرلیا جن میں شیخ عبدالرشید، امتیاز حیدر،عمر عادل، محمد عرفان، علی محمد بٹ، علی محمد میر،نذیر احمد حجام اور محمد الطاف رینہ قابل ذکر ہیں۔گرفتاری سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے مزاحمتی قائدین نے کہا کہ آج کا یہ احتجاج جموں کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی اور بڑے پیمانے پر جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف منعقد کیا جارہا ہے۔قائدین نے کہا کہ ۱۰ دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی یوم قرار دے کر دنیا بشمول بھارت نے اس معاہدے پر دستخط کئے ہیں اور اس معاہدے میں لوگوں کے حق خودرادیت کو بھی انسانی حق قرار دیا گیا ہے۔اب جبکہ کشمیری اپنے حق خودارادیت کا مطالبہ کررہے ہیں تو بھارت پچھلے 70برس سے کشمیریوں کے خلاف فوجی و پولیس طاقت کا بے تحاشہ استعمال کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر محض اسی برس کے دوران کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا جائزہ لیا جائے تو محض 150 دن میں بھارتی فورسز نے ہمارے 100سے زائد معصومین کے لہو کی ہولی کھیلی ہے جبکہ اسی دوران ہمارے بیش ہزار سے زائد لوگوں کو زخمی کردیا گیا جن میں سے ایک ہزار سے زائد کی بینائی پیلٹ دہشت گردی کے ذریعے چھین لی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بڑے بڑے جنگوں میں بھی اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو اندھا بنانے کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن آج تجارتی تعلقات اور اقتصادیات نے اخلاقیات اور انسانی حقوق کو روندھ ڈالا ہے اور دنیا اس صریح انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہوئے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ادھر مرکزی جامع مسجد سرینگر سے حریت رہنمائوں اور کارکنوں مشتاق احمد صوفی ، محمد شفیع خان ، ایڈوکیٹ یاسر رئوف دلال، فاروق احمد سوداگر، ساحل احمد وار، عبدالرشید ٹنکی، ایڈوکیٹ مولوی محمد اشرف، جاوید احمد زرگر اور عبدالمجید وانی اور دیگر افراد نے جلوس نکالنے کی کوشش کی تاہم پُر امن جلوس کو نقشبند صاحبؒ خواجہ بازار سے فورسز اور پولیس نے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی اور انہیں طاقت کے بل پر منتشر کیا گیا۔ اسی سلسلے میں ایک اور جلوس انجینئر ہلال احمد وار نے مائسمہ سرینگر اپنی نظر بندی توڑ کر اپنے رفقا کے ہمراہ نکالنے کی کوشش کی لیکن اسے بھی روک دیا گیا ۔حریت (ع) ترجمان نے مزاحمتی قائدین اور کارکنوںکو مسلسل خانہ و تھانہ نظر بند رکھنے اور قائدین کی پر امن سیاسی سرگرمیوںپر ایک نہ دوسرے بہانے قدغنوں اور پابندیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اب صبر و برداشت کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے لہٰذا بین الاقوامی برادری خاص طور پر بنیادی انسانی حقوق کی عالمی مسلمہ تنظیموں کو کشمیر کی انتہائی مخدوش اور جاں گسل صورتحال پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔اس دوران گمشدہ افراد کے لواحقین کی تنظیم ’’اے پی ڈی پی‘‘ کے اہتمام سے پریس کالونی میں ایک احتجاجی دھرنا دیا گیا جس میںلاپتہ افراد کے اقرباء کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔انہوں نے اپنے ہاتھوں میں بینر پلے کارڈس اور اپنے گمشدہ عزیز و اقارب کی تصاویر اٹھارکھی تھیں۔ادھر زمردہ حبیب کی سربراہی میں کشمیر تحریک خواتین سے وابستہ خواتین نے پریس کالونی میں احتجاج کیا جبکہ پروینہ آہنگر کی سربراہی والے گمشدہ افراد کے لواحقین کی تنظیم نے پرتاپ پارک میں خاموش دھرنا دیا۔