حقوق العباد تقویٰ کا لازمی جُز

انسانیت کا فریضہ مذہب ،رنگ ،نسل اور جنس کے نام پر امتیاز نہیں سکھاتا بلکہ سب کے ساتھ یکسانیت کا درس دیتا ہے۔قوم پرستی نفرت کو جنم دیتی ہے جب کہ انسان دوستی محبت کا گہوارہ ہے ۔خدا نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد عقل و شعور کی عنایت سے اشرف المخلوقات کا بلند درجہ عطا کیا۔اشرف المخلوقات کا درجہ انسان کو اس لئے ملا کیونکہ انسان میں وہ ساری صلاحیتیں موجود ہیں جس کی بنا پر وہ ایک ایسا معاشرہ وجود میں لا سکتا ہے جس میں ہر قسم کی مخلوق پر مسّرت اور بے خوف و خطر ذندگی گزار سکے گی۔اس ضمن میں کچھ ذمہ داریاں ، قوانین اور فرائض  کے احکامات نازل فرمائے گئے۔جن کو حقوق کا نام دیا گیا ہے جو ایک انسان کو کسی بھی صورتحال میں دوسرے انسان کے لیے انجام دینے ضروری ہیں۔ان حقوق کی ادائیگی خالصتاً انسانی معاشرے کی فلاح و بہبودی کے لئے مخصوص اور امن و سکون کے ساتھ بندگی کو انجام دینا ہے۔حقوق العباد کا مفہوم کافی وسیع ہے یہاں میں چند باتوں کا زکر کرنا چاہوں گا جو ایک صالح معاشرے کی تشکیل کے لئے ناگزیر ہیں۔حقوق العباد کا مطلب عام و خاص ،غریب و رئیس ، مسلم و غیرمسلم ،سفید و سیاہ فام اور مرد و عورت غرض ہر انسان کی بغیر کسی نسلی امتیاز کے مختلف حقوق کی حفاظت اور ادائیگی ہے۔ 
انسان پر مخلوقات میں سے سب سے بڑھ کر حق اس کے ماں باپ کا ہے حدیث پاک آیا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔آپ کے بچے بھی آپ کے ساتھ نیک سلوک کریں گے۔دوسروں کی عورتوں پر پاک نظر رکھو آپ کی عورتوں پر بھی صاف نظر رکھی جائے گی۔یہ حدیث پاک اس بات کا عندیہ ہے کہ جیسا کرو گے ویسا پاؤ گے۔والدین کے حقوق پر اکثر بیشتر مضمون رقم ہوتے رہتے ہیں۔اس کے لئے ایک ہی بات کافی ہے کہ خدا کی خوشی ماں باپ کی خوشی میں ہے اور ناراضگی  ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔والدیں کے ساتھ ساتھ الہامی کتاب میں تاکیداًبتایا گیا ہے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ نیک سلوک کرو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم معاشرہ ایسا ہونا چاہیے جس میں ہر انسان اپنی ضروریات اعتدال کے ساتھ پوری کرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں ،ہمسائیوں، اور حاجت مندوں کے حقوق بھی ادا کرتا ہو۔ان حقوق کی ادائیگی یعنی صلہ رحمی سیعمر اور رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔رشتہ داروں سے صرف اچھا برتاؤ کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ خود پر ان کے حقوق تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔ہر خاندان کے غربا کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوشحال افراد پر ہے پھر دوسروں پر۔حدیث مبارکوں میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے۔ آدمی کے اولین حقدار اس کے والدین، بیوی بچے اور بہن بھائی ہیں پھر وہ جو ان کے قریب تر ہوں اس بنیاد پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے یتیم کے چچا ذاد بھائیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی پرورش کے زمہ دار ہیں۔سورت النحل آیت نمبر نوے میں اللہ سبحان و تعالیٰ عدل ،احسان ،اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے اسی طرح حدیث پاک میں آیا ہے کہ ہر جمعے کی رات میں تمام آدمیوں کے اعمال اور عبادات درگاہ الٰہی میں پیش ہوتے ہیں اور جو شخص رشتے داروں سے بدسلوکی کرتا ہے اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔یہ بات بہت بڑی اور قابل غور ہے کہ ہمارا حال کیا ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا۔آجکل ہمارے معاشرے میں قطعہ رحمی کا رواج ہے اور یہ رواج کسی آفت سے کم نہیں ہے۔
 اسی طرح حقوق العباد کا ایک اور اہم پہلو یتیموں اور مساکین کے ساتھ نیک سلوک کرنا بھی ہے اور قرآن مجید میں اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔صالح معاشرے کی یہ ایک نمایاں خوبی ہے کہ وہاں یتیموں اور مساکین کے حقوق کی حفاظت بھی ہوتی ہے اور ادائیگی بھی۔حدیث میں آیاہے کہ بیوہ اور مسکین کی مدد کے لئے دوڑ دوپ کرنیوالا ایسا ہے جیسے کوئی شخص رات دن عبادت کرتا ہے اور آرام بھی نہیں کرتا۔روزے رکھتا ہے پے در پے اور کبھی روزہ نہ چھوڑے۔مطلب اس حدیث پاک کا یہ ہے کہ محض عبادت کرنے سے بہتر ہے کہ معاشرے میں یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کی مدد کی جائے اس طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار یتیم کی کفالت کرے جنت میں وہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کافی قریب ہونگے اور مسلمان گھرانوں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے نیک سلوک ہورہا ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم کے ساتھ برا سلوک ہو رہا ہو۔یتیموں کی کفالت کافی ثمردار عمل ہے اور فرمایا گیا ہے کہ جس نے کسی یتیم کو اپنے کھانے میں شریک کیا اللہ نے اس کے لئے جنت واجب کردی الّا یہ کہ اس نے ایسا گناہ نہ کیا ہو جو معاف نہ ہوسکتا ہو۔الغرض یتیموں ،بیواوں اور مسکینوں کے حقوق ہم پر واجب ہیں اور ان کی ادائیگی لازمی ہے۔
اسی طرح پڑوسیوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہیے وہ رشتہ دار ہو ،غیر رشتہ دار ہو یا غیرمسلم۔ حدیث مبارک میں آیا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلا جھگڑا جو اللہ کے حضور پیش ہوگا وہ پڑوسیوں کا جھگڑا ہوگا۔اور کسی پڑوسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ پیٹ بھر کے کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔پڑوسی کی عورت سے بدکاری کرنے والا دس عورتوں سے بدکاری کرنے والے شخص سے زیادہ گنہگار ہوگا یہی معاملہ چوری کا بھی ہے۔ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جس نے پڑوسی کو تکلیف دی اس نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دی اور جس نے آپ کو تکلیف دی اس نے اللہ کو تکلیف دی۔ جو پڑوسی سے لڑا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑا اور پھر وہ اللہ سے لڑا۔پڑوسیوں کے ہم پر کئی حقوق ہیں جیسے ان کی مدد کرنا ،راحت پہنچانا ،قرض دینا ،ان کے مکان کی ہوا بند نہ کرنا ،تنگ نہ کرنا ،چیزیں بانٹنا یا چھپانا تاکہ ان میں جلن پیدا نہ ہو،خبر گیری ،کفن دفن میں شمولیت اور مدد،پردہ عیبوں پر رکھنا ،مصیبت میں ہمدردی اور اچھے موقعے پر مبارکبادی وہ بھی بغیر کسی مزہبی یا عقیدے کی امتیاز کے۔
  حقوق العباد میں اتنا ہی نہیں ہے بلکہ گھروں میں رہنے والے نوکروں اور مزدوروں کے ساتھ نیک سلوک کرنا بھی ضروری ہے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان پر ان کے طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو آن کو اچھی طرح سے کھانا کھلاؤ اور پوشاک پہناؤ۔حقوق العباد میں اگر کوئی لاپرواہی برتی گئی تو اس کا معاف کرنا اللہ کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ اسی بندے کے ہاتھ میں ہے جس کا حق مار دیا گیا ہو۔اسی لئے حق مارنے کا انجام بہت ہی برا ہوگا۔۔حساب و کتاب کے وقت جب حق ادائی کی مانگ ہوگی تو وہاں دینے کے لئے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔پھر نیکیاں اور حسنات سے ادائیگی ہوگی اگر وہ برپائی نہ کر پائے تو اس شخص جس کا حق مارا گیا ہوگا کی بدیاں اور گناہوں کا بار حق مارنے والے کو اٹھانا ہوگا۔ یہ وہ عالم ہوگا جہاں نیکیوں کے لئے لوگ ترس رہے ہونگے۔اسی طرح گالی دینا بھی وہ گناہ ہے جو صرف وہ شخص معاف کرسکتا ہے جس کو گالی دی گئی ہو۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم حقوق العباد کی ادائیگی کرتے ہیں اگر نہیں تو پھر یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری ساری عبادتیں ضائع ہو جاتی ہیں اور نجات کی امیدیں بھی ختم۔انسان دوست سماج کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ ہم حقوق العباد کے پاسبان بنیں اور عملی پیروکار بھی۔ چلو کوشش کر کے ایک صالح معاشرہ بنائیں ۔
پتہ۔قصبہ کھْل نور آباد کولگام ،کشمیر