منقسم جموں و کشمیر کو آپس میں تقسیم کرنے والی سرحد جسے حد متارکہ بھی کہاجاتاہے ، پر ہند و پاک افواج میں ایک جنگ جیسی صورتحال کاسامناہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف فوجی بلکہ شہری ہلاکتیں بھی پیش آرہی ہیں جو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک امر ہے ۔ ہمیشہ سے ہندوپاک افواج کے درمیان میدان جنگ بنی رہنے والی اس خونی لکیرپرحالیہ کچھ دنوں سے کشیدگی میں کافی اضافہ ہوا ہے اور طرفین کی فائرنگ اور گولہ باری سے راجوری اور پونچھ کے سیکٹروں میں دونوںجانب بڑے پیمانے پر تباہی ہورہی ہے،جس کی وجہ سے لوگوں کی املاک کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔تازہ گولہ باری میں بالاکوٹ میں ایک ہی گھر کے پانچ افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ دو شدید زخمی ہوئے ۔اس طرح سے ایک ہنستا کھیلتا گھر اس کشیدگی کی وجہ سے اجڑ گیا اور دو زخمی بچیوں کا کوئی پرسان حال نہ رہا جن کے والدین اور تین بھائی ایک ساتھ لقمہ اجل بن گئے ۔یہ ایسی صورتحال ہے جسے ایک جنگ ہی کہاجاسکتاہے ۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران شائد ہی کوئی دن رہا ہو جب حد متارکہ پر سکوت رہا ہو ورنہ زیادہ تر ایام فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلے کا سلسلہ جاری رہتاہے ۔اس کشیدگی کی وجہ سے نہ صرف فوجی اہلکا ر مرتے ہیں بلکہ عام شہریوں کی جانیں بھی تلف ہوتی ہیں اور انہیںاس قدر مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے کہ جسے بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔سرحد پر مقیم آبادی کو نہ دن میں سکون نصیب ہوتاہے اور نہ ہی رات کو چین۔یہ لوگ بندوق کی گولیوں اور مارٹرشیلوں کے خوف سے یاتو گھروں میں محصور ہوکر رہ جاتے ہیں یاپھر گھرہی چھوڑنے کیلئے مجبور ہوتے ہیں۔اس طرح کی صورتحال کا انہیں ہر وقت سامنارہتاہے اور ان کی زندگی سکون سے کم اور بدامنی میں زیادہ گزرتی ہے۔سرحدی آبادی کی حفاظت کیلئے اقدامات کے اعلانات بھی سراب ثابت ہوئے ہیں، اس پر طرہ امتیازیہ ہے کہ دونوں ممالک کے آپسی تعلقات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں اور بات چیت کے سبھی دروازے فی الوقت بند کردیئے گئے ہیں۔بھارت وپاکستان کے درمیان تعلقات کی خوشگواری سے جموںوکشمیر کے لوگوں کی زندگیاں وابستہ ہیں اور جب بھی دونوں میں کشیدگی بڑھ جاتی ہے تو ریاست خاص کر سرحد ی آبادی کا جینا حرام ہوجاتاہے۔موجودہ صورتحال کسی بھی فریق کے لئے سود مند نہیں ہے، کیونکہ دونوں ممالک کشیدگی کے دبائو میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے اپنے قیمتی وسائل کا بے دریغ ضیاع کرکے اپنے عوام کو مشکلات میں ڈال رہے ہیں، نیز اس کشیدگی کے ماحول میں دونوں ملکوں کے اندر مفاد خصوصی کے حامل فریقین کو اپنی روٹیاں سینکنے کا موقع ملتا ہے، جس سے بھارت اور پاکستان کی حکومتیں ہمیشہ دبائو میں رہنے کی وجہ سے کسی درست سمت میں قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں رہتیں۔ عالمی سطح پر یہ سوچ دن بہ دن پختہ ہو رہی ہے کہ جنگ وجدل کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے اور ہر ایک مسئلے کا حل مذاکرات میں ہی مضمر ہے۔ ایسے حالات میں ہند وپاک کی سیاسی قیادت کو چاہئے کہ وہ مخاصمت کی راہ ترک کرکے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرے تاکہ نہ صرف ریاست جموںوکشمیر بلکہ پورے برصغیر میں امن کی راہ ہموار ہوسکے۔ کیونکہ بصورت دیگر دونوں ممالک کے غریب عوام خاص کر ریاست جموںوکشمیر ک لوگ مصائب کی چکی میں پستے رہینگے۔ ٹکرائو زدہ علاقوں میں تصادم آرائیاں دنیا کی اْس صنعتِ جنگ کے لئے مفید اور مطلب بر آہیں، جسکے اشاروں پر دنیا کی حکومتیں اور مملکتی ادارے ناچتے ہیں۔ نتیجتاً عام لوگوں کو مصائب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ برصغیر ہند کے بٹوارے سے چلے آرہے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے دونوں مملکتیں کیوں ناکام رہی ہیں، اس پر دونوں ممالک کے سنجیدہ فکر طبقے کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ خاص کر برصغیر میں ایسی رائے عامہ ہموار ہونی چاہئے، جو دونوں مملکتوں کو امن کی راہ اختیا رکرنے پر آمادہ کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر جاری موجود ہ کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے بھارت اور پاکستان میں براہ راست مسئلہ کشمیر کے مختلف فریقین کے ساتھ مذاکرات کی راہیں استوار کرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے، جس پر کم وبیش سبھی حلقوں کا اتفاق تو ہے مگر عملی طور پر پہل کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی جا رہی ہے جو انتہائی بدقسمتی ہے، خاص کر جموںوکشمیر کے عوام کیلئے۔