بھارت جسے آزادی دلانے میں مسلمانوں نے اپنی ہر چیز قربان کی ہے، یہاں تک کہ اپنی جانیں بھی ملک عزیز پر نچھاور کردی ہیں،ملک کی آزادی کے لئے اس ہزارو ں کی تعداد میں مسلمانوں کا خون وطن کے لئے بہا اور ان کی قربانیوں کے بعد انگریزی سامراجیت سےہمارا ملک ہندوستان آزاد ہوا۔آزادی حاصل کرنے کے بعد ملک کے مسلمان یہ سمجھتے رہے کہ ہم انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگئے اور اب ہمیں ملک کے دیگر ہم وطنوں کے برابر آزادی اور خوشحالی نصیب ہوگی۔مگر افسوس اُن کا یہ خواب ابھی تک پورا نہیں ہورہا ہےاور اس وقت ملک کی جو صورت حال ہے وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ اشارہ دیتا رہا کہ خواب ہمیشہ پورے نہیں ہوتے۔دراصل حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے قبل سے ہی یہاں کے کچھ منافر لوگ اس وطنِ عزیز کو کسی اور راہ پر ڈالنے کے درپے تھے اور اس سلسلہ میں دبے پائوں آگے بڑھتے جارہے تھے ،چنانچہ یہ لوگ آزادیٔ ملک کے بعد برسر اقتدار لوگوں میں گھل مل کر مکرو فریب کی پالیسی کے تحت اپنا کام بڑے پیمانے پر چلاتے رہے، جبکہ اقتدار پر فائز کانگریس پارٹی نے بھی اس معاملے پر تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے رہے،جس سے انہیں پنپنے کا خوب موقع فراہم ہوا ۔حق بات یہ بھی ہےکہ کانگریس میں بھی ایک خاصی تعداد ایسی ہی ذہنیت والے لوگوں کی تھی جو ان منافرانہ قوتوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ اس طرح ان منافر طاقتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی جس کے نتیجے میں سنگھ پریوار اور اس قبیل کی دوسری تنظیموں کو ہمت اتنی بڑھ گئی جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ گئی جو اب موجودہ ہندوتوا کے علمبردار بن کر سامنے آگئے ہیں اور کھلم کھلا میدان ِ عمل میں آکر ’’ہندو ،ہندی ،ہندوستان ‘‘ کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ دراصل اس نعرے کے پیچھے جو مقصد کارفرما تھا، وہ یہی تھا کہ سرِ نو ہندوئوں کی ذہن سازی کی جائے اور اُن کے سیدھے سادھے اور صاف و شفاف ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جائے کہ اس ملک یعنی ہندوستان کے صرف تم ہی مختارِ کُل ہو۔گویا جیسے جیسے عام لوگوں اور صاف ذہن ،ہندو بھائیوں میں یہ زہر گھولا جاتا رہا، ویسے ویسے ملک کے حالات میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔
فرقہ وارانہ فسادات کا نہ رُکنے والا سلسلہ، مسلمانوں کے خلاف ہر محاذ پر نفرت کا بازار گرم کرنا، مسلمانوں کے ہر ایک ہنر کو عیب بتاکر پیش کرنا، اور طرح طرح سے دیگر جھوٹے پروپیگنڈوں کے تحت برادران وطن میںمنافرت پیدا کرکے مسلمانوں کے خلاف منفی ماحول بنانا ،شروع سے ہی ان کا معمول رہا ہے۔جس کے باعث اب لوگوں میں ایک خوف پیدا ہوگیا ہے اور وہ ایک قابل لحاظ تعداد مسلمانوں کو قابل التفات ہی نہیںسمجھتے۔جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب ملک میں ان منافر گروہوں اور ان کے حمایتیوں کا کا ایک ہی ہدف ہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کی مذہبی تشخص کو ختم کیا جائے، اُن کی نشانیوں کو مٹایا جائے۔ چنانچہ پورے ملک میں قدیم و تاریخی مسلم ناموں کو بدل دیا جارہا ہے،جہاں کہیں بھی مسلم لفظ کی کوئی بھی جھلک نظر آجائے، فوری اسے تبدیل کردیا جاتا ہے۔اسی عمل کے تحت اسکولوں ، کالجوں اور دیگر تعلیمی مراکز میں طلبہ و طالبات کے سوچ و شعور کو متنفر کرنے کے لئے تاریخی واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا رہا، تاکہ جب یہ نئی نسل جوان ہوجائے، آگے بڑھیں اور حکومتی ایوانوں،سرکاری ایجنسیوں اور انتظامی اداروں میں چھوٹے بڑے عہدے پر فائز ہوجائیںتو وہ ملک کی اقلیت کے ساتھ منصفانہ طرزِ عمل اختیار نہ کرسکیں اور ہر معاملے میں ہر سطح پر جانبدارانہ کردار ادا کرسکیں۔بغور دیکھا جائے تو آج کل بیشتر محکموں میں یہی کچھ صورت ِ حال نظر آرہی ہے۔ہر سرکاری کام کا افتتاح ہندو تہذیب کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے جبکہ ہمارا یہ ملک سیکولرملک ہے، کسی بھی ڈپارٹمنٹ میں جایئے وہاں پر ایک ہی مذہب کی نمائندہ نشانی دیوار پر آویزاں ملے گی، جو دستور کے خلاف ہے۔
ان لوگوں نے بھارت کے دستور کے بنائے جاتے وقت ایک ایسا شوشہ اس میں رکھ چھوڑا ہے جو دفعہ 44 کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کامقصد یہ تھا کہ آگے جاکر جب بھی اس پریوار کو اقتدار حاصل ہوگا،وہ اسے لا گو کریں گے۔مسلم طالبات کے حجاب پر یونیفارم کے نام سے جو روک لگائی جارہی ہے، یہ بھی یونیفارم سول کوڈ کی طرف بڑھتے قدم معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے ہی ان لوگوں کو پوری اکثریت کے ساتھ حکو مت بنانے کا موقع حاصل ہوگیاتو اقتدار پر فائز ہوتے ہی سارے ملک میں ایک عجیب صورتحال پیدا ہوگئی ،خاص طور پر بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں قانون کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا جارہا ہے۔قانون و دستور کا کوئی پاسدارینہیں کی جاتی، دن کی روشنی میں ماب لنچنگ ہوتی ہے، معصوم وبے بس لوگ مارے پیٹے جاتے ہیں، مگر ملزمین پر مجبوراً نیم دلانہ کاروائی ہوتی رہتی ہے، اکثر گواہوں کی لاغری سے مجرمین صاف بچ کر نکل جاتے ہیں۔اب انتہا یہ ہوگئی کہ مسلمانوں کے قتل عام کی باتیں دھرم سنسد منچ سے مذہبی رہنمائوں کی طرف سے کی جارہی ہیں۔ یہ سب چیزیں جو سامنے آرہی ہیں اُسی بات کی طرف نشاندہی کر رہی ہیں کہ اس ملک ، جو سیکولرملک ہے اور اس کا آئین بھی کسی مذہب کی نمائندگی نہیں کرتا، سب ہی مذاہب کا احترام کرتا ہے، اور ملک میں رہنے والے ہر شہری کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ چیز انہیں ایک نظر نہیں بھاتی۔ اب یہ لوگ ملک کا دستور بدلنا چاہتے ہیں، یکساں سول کوڈ کی آڑ میں غیر محسوس طور پر ہندو تہذیب وتمدن کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مسلمانوں کی یادگاروں کو ختم کرنا، اگر یہ ممکن نہ ہوسکے تو ان کے نام کو حرفِ غلط کی طرح ہٹاکر ایک خاص تہذیب کا نمائندہ نام رکھنا، یہ اُسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر طرف اُن کی ہی اجارہ داری قائم ہو جائے۔ پہلے تو داڑھی ٹوپی سے نفرت کی باتیں کی جاتی رہیںاور اب چند برسوں سے خواتین کے حجاب پر نکتہ چینی شروع کردی گئی ہے۔ حالیہ دنوں کرناٹک اسٹیٹ میں مسلم طالبات کے حجاب پر شکنجہ کستے ہوئے ان کے دستوری حق کو سلب کرنے کی کوشیش کی جارہی ہیں، حا لانکہ مسلم طالبات برسوں سے حجاب میں اپنی تعلیم حاصل کررہی ہیں اور ان کی ہندو اور عیسائی بہنوں و سہیلیوں کو بھی اُن کے حجاب پہننے پرکوئی اعتراض نہیں ہے، صرف بھگواداری لوگ ہی خوامخوہ مسائل پیدا کرکے مسلم تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔خود ہی لا اینڈ آڈر کو خراب کر رہے ہیں اور ہندو مسلم منافرت پھیلا کر ملک کو کمزور کر رہے ہیں۔ اگرچہ کہ ہمارے وزیر اعظم نے قوم کو یہ نعرہ دیا ہے کہ ’’بیٹی پڑھائو بیٹی بچائو‘‘لیکن خود کرناٹک کی بی جے پی گورنمنٹ مسلم طالبات کو حجاب کے نام پر کالج میں داخل ہونے پر روک لگارہی ہے،جس پر مرکزی سرکار پھر تجاہلِ عارفانہ کا رویہ اختیار کرکے عظیم بھارت کے وزیر اعظم نریند مودی کے نعرہ کا مذاق اڑا رہی ہے۔
(سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ فون نمبر9849099228)