قرآن کریم میں ’’حجاب‘‘یعنی پردے کے حوالے سے مسلمان خواتین سے خطاب میں ارشاد فرمایا گیا: تم اپنے گھروں میں رہا کرو اور زمانۂ جاہلیت کی عورتوں کی طرح نہ پھرو‘‘۔ اس آیت کریمہ سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہورہی ہے کہ اصل مطلوب عند اللہ عورتوں کے لیے یہ ہے کہ وہ گھروں سے بے حجاب اور بلاضرورت باہرنہ نکلیں، ان کی تخلیق گھریلو کاموں کے لیے ہوئی ہے، وہ انہیں میں مشغول رہیں اور اصل پردہ جو شرعاً مطلوب ہے وہ حجاب بالبیوت (گھروں میں اپنے حقوق و آداب کے ساتھ رہنا) ہے (معارف القرآن۷/۱۳۳)
پردہ کی ابتداء ازواجِ مطہراتؓ کے گھروں سے کی گئی اور عام لوگوں کو حکم ہوا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہوں اور اگر امہات المومنینؓ سے کوئی سامان وغیرہ لینا چاہتے ہیں تو پردے کے پیچھے سے لیا کریں۔ترجمہ: اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔ (سورۃالاحزاب:۵۳)
آیت کریمہ کی صاف بتا رہی ہے کہ اجنبی مردوں اور عورتوں کے درمیان دلی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے پردے کا اہتمام نہایت ہی ضروری ہے، جب دل صاف ہوں گے تو معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کافروغ نہیں ہوگا، امت کی پاکیزہ ترین خواتین یعنی ازواجِ مطہراتؓ اور امت کے پاک باز ترین افراد یعنی صحابۂ کرامؓ کو یہ تاکیدی حکم دیا جانا پردے کی اہمیت کو واضح کررہا ہے۔ پھر یہ حکم ازواجِ مطہراتؓ اور صحابۂ کرامؓ کے ساتھ خاص نہیں رہا، بلکہ ساری امت کے لیے عام ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے دنیا سے بے حیائی کو ختم کرنے کے لیے اور عفت مآب معاشرہ عطا کرنے کے لیے حجاب کا حکم دیا ہے، اسلامی حجاب ہی وہ واحد شئے ہے جس سے عورتوں کا صحیح معنی میں تحفظ ہوسکتا ہے، اس حجاب کو اپنائے بغیر نہ تو فواحش ومنکرات پر بند لگ سکتا ہے اور نہ بے حیائی ختم ہوسکتی ہے۔ حجاب کے بغیر عورتوں کے تحفظ کا خیال ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا، یقیناً اسلامی حجاب پوری انسانی برادری کو پرسکون اور باوقار زندگی عطا کرنے کی فطری تدبیر اور یقینی ضمانت ہے، اسی لیے اسلام نے پردے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے،اسلام میں حجاب یعنی پردے کی اہمیت اس سے واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں سات آیتیں پردئہ نسواں اور اس کی تفصیلات کے متعلق نازل ہوئیں اور ستر سے زیادہ احادیث میں قولاً اور عملاً پردے کے احکام بتائے گئے۔
اسلامی حجاب کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو گھروں میں قید کردیا کہ وہ ہمیشہ اندر ہی رہیں کبھی باہر نہ نکلیں، جیسا کہ آج کے نام نہاد روشن خیال اور جدید تہذیب کے علم برداروں کا خیال ہے، بلکہ اسلام نے خواتین کو ضرورت کے وقت پردے کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:اے پیغمبر! آپ اپنی بیویوں اور مسلمانوں کی عورتوں کو کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادریںاپنے اوپر لٹکائیں،اس میں یہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں اور کوئی انہیں نہ ستائے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (سورۃالاحزاب:۵۹)
آیت کریمہ سے دلالتہً یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ اگر خواتین کو ضرورت کے وقت باہر نکلنا پڑے تو وہ لمبی چاریں (یا برقعہ وغیرہ) پہن کر باہر نکلیں۔ اس سے پردئہ شرعی کے حکم کی تعمیل بھی ہوجائے گی اور بہت سہولت کے ساتھ شریر لوگوں سے حفاظت بھی، جلابیب جلباب کی جمع ہے جو لمبی چادر کو کہا جاتا ہے، جس میں عورت سر سے پیر تک مستور ہوجائے، جس کی ہیئت کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ وہ چادر ہے جو دوپٹے کے اوپر اوڑھی جاتی ہے۔ (ابن کثیر)
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے اس کی ہیئت یہ بیان فرمائی: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے چادر لٹکا کر چہروں کو چھپالیں اور آنکھ (راستے میں دیکھنے کے لیے) کھلی رکھیں۔ (ابن کثیر)
امام محمد بن سیرینؒ سے مروی ہے کہ مشہور تابعی حضرت عبیدہ ؒنے آیت ’’ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ‘‘ کی تفسیر فرماتے ہوئے چادر کو چہرے پر اس طرح لپیٹا کہ صرف ایک آنکھ نظر آرہی تھی (احکام القرآن ۳/۳۷۱) گویا آیتِ مبارکہ کی تفسیر اس طرح فرمائی کہ عورت پورے بدن کو چہرے سمیت ڈھانک لے اور بہ قدر ضرورت آنکھ کھولے رکھے، تاکہ راستے میں دیکھ کر چلنے میں دشواری نہ ہو۔
نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ازواجِ مطہراتؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تمہارے لیے اس کی اجازت ہے کہ تم اپنی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلو۔( صحیح مسلم) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آیتِ حجاب نازل ہونے کے بعد اس پر شاہد ہے کہ ضرورت کے مواقع میں عورتوں کو گھروں سے پردے کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت ہے جیساکہ حج وعمرہ کے لیے ازواجِ مطہراتؓ کا آپ ﷺکے ساتھ جانا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم بحالت احرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر حج میں تھے تو جب قافلے کے لوگ ہمارے سامنے آتے تو ہم اپنی چادر سرسے چہرے پر لٹکالیتے تھے اور جب قافلے آگے بڑھ جاتے تو ہم اپنے چہرے کھول لیتے تھے۔ (سنن ابوداؤد ۱/۲۵۴، ابن ماجہ ۲۱۰)
دیکھیے! امت کی سب سے پاکیزہ ترین خواتین ازواجِ مطہراتؓ پردے کا کس قدر اہتمام فرما رہی ہیں۔ اسی طرح بہت سی روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ ازواجِ مطہراتؓ اپنے والدین وغیرہ سے ملاقات کے لیے گھروں سے نکلتی تھیں اور عزیزوں کی بیمار پُرسی اور تعزیت وغیرہ میں بھی شرکت کرتی تھیں، لیکن ان تمام صورتوں میں پردے کا مکمل اہتمام رکھا جاتا تھا۔ اسی طرح مؤمن عورتیں جب ضرورت کے وقت گھروں سے باہر نکلا کرتی تھیں تو برقع اور موٹی لمبی چادریں لپیٹ کر نکلا کرتی تھیں۔
اسلامی حجاب عورت کا وقار ہے، خواتین میں جو برقع پہننے کا رواج ہوا ہے، یہ دورِنبوت کی پاکیزہ خواتینِ اسلام کے عمل سے ہی ماخوذ ہے، برقع بھی اسی چادر کے قائم مقام ہے جس کا تذکرہ قرآنِ کریم میں لفظِ جلباب سے کیاگیا ہے، البتہ پہلے زمانے میں برقع کالے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے ہوا کرتے تھے اور خواتین اسی قسم کے برقعوں کو پسند کرتی تھیں، جو پورے بدن کو بھی چھپالیتے تھے اور عورت کی شرافت کو بھی ظاہر کرتے تھے؛ لیکن آج کے دور کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں ایسے برقعے آگئے ہیں جن سے برقع کا مقصد ہی فوت ہورہا ہے، کپڑا اتنا باریک کہ جس سے اندر تک کا لباس نظر آتا ہے۔ سائز اتنا تنگ کہ جس سے جسم کی ساخت بھی ظاہر ہوتی ہے، رنگ برنگ دھاگوں کے پھول، ڈیزائن، رنگوں چمکیوں اور موتیوں وغیرہ سے مزین بڑے بڑے قیمتی اور جاذبِ نظر برقعے آج مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ جن کے پہننے سے برقعے کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔
لہٰذا لازم ہے کہ خواتین ڈھیلے ڈھالے، سادے اور غیرجاذب نظر برقعے پہن کر ہی باہر نکلیں اور یہ بات یاد رکھیں کہ برقعے زینت کے اظہار کے لیے نہیں، بلکہ زینت کو چھپانے کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)