سرینگر //کشمیر میںلڑکیوں کی شادی میں تاخیر سے نہ صرف خواتین ماں بننے سے قاصر رہتی ہیں بلکہ حمل ٹھہرنے کے بعد اپنی جان بھی گنوادیتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل سنوار نے کی کوشش میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بچوں سے محروم ہورہی ہے۔ حاملہ خواتین کا عالمی دن زچگی کے دوران فوت ہونے والی خواتین کی یاد میں ہر سال 15اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر میںشعبہ زچگی کی سربراہ ڈاکٹر نگہت فردوس نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’لل دید اسپتال میں پچھلے تین ماہ کے دوران زچگی سے کسی خاتون کی موت نہیں ہوئی ہے‘‘۔ڈاکٹر نگہت نے بتایا کہ زچگی کے دوران اموات کی سب سے بڑی وجہ بچے کو جنم دینے سے قبل حاملہ عورت کا خیال نہ رکھنا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ اس کیلئے حاملہ خواتین اور انکے اہلخانہ میں جانکاری بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حاملہ خواتین کیلئے علاج کی سہولیات پرائمری ہیلتھ سنٹر سے سپرسپیشلٹی اسپتال تک ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حمل کے دوران موت کی دوسری بڑی وجہ تاخیر سے لڑکیوں کی شادی کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن لڑکیوں کی شادی تاخیر سے ہوتی ہے ، ان لڑکیوں میں حمل کے دوران مشکلات پیدا ہوتی ہیں کیونکہ یہ لڑکیاں پہلی سے ہی ہائی بلڈ پریشر، شوگر ، تھائرائڈ اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کی تاخیر سے شادی ہم سب کا سماجی مسئلہ بن گیا ہے لیکن تاخیر سے شادی کی دو بڑی وجوہات غربت اور پڑھی لکھی لڑکیوں کی اپنی پیروں پر کھڑا ہونے کی خواہش ہے۔ ڈاکٹر نگہت نے بتایا ’’ غریب لڑکیوں کی شادی میں تاخیر تو سمجھ میں آتی ہے لیکن موجود دور میں پرھی لکھی خواتین کی ایک بڑی تعداد تعلیم مکمل کرنے، اپنے پیروں پر کھڑی ہونے اور دیگر چیزوں کیلئے بچنے نہیں ہوتنے دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں شادی کرنے والی اکثر لڑکیوں کی عمر 30سال سے زیادہ ہوتی ہے اور اسی صورت میں خواتین کا ایک بڑا حصہ بچوں کو جنم دینے سے قاصر ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر نگہت نے بتایا کہ خواتین میں بانج پن کافی برھ رہا ہے اور اسلئے میں ہمیشہ لڑکیوں کو مشورہ دیتی ہوں کہ اپنے کنبہ کو اولین ترجیحات میں شامل کریں کیونکہ کنبہ پورے ہونے کے بعد بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ شعبہ زچگی کی خاتون سربراہ نے نوجوان لڑکیوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ شادی کے بعد اپنے کنبہ کو پورے کرنے کو اولین ترجیحات میں شامل کریں‘‘۔سینئر ماہر زچگی ڈاکٹر فرحت جبین نے بات کرتے ہوئے کہا ’’ زچگی کے دوران خواتین کی جان بچانے میں علاج کی فراہمی اور صحیح وقت پر شادی کرنا لازمی ہے‘‘۔انہوں نے کہا ’’ حاملہ خواتین کی جان بچانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ بچے کو جنم دینے سے قبل اس کا خاصل خیال رکھے اور ضرورت پڑنے پر علاج فراہم کیا جائے‘‘۔ڈاکٹر فرحت جبین نے کہا کہ ہماری 70فیصد آبادی گائوں میں رہتی ہے جہاں لوگوں کو نہ تو جانکاری اور نہ ہی علاج میسر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حاملہ خواتین کیلئے علاج کی سہولیات پرائمری سطح سے دستیاب رکھنے کی ضرورت ہے لیکن ہر جگہ پر خواتین کو علاج کی سہولیات دستیاب نہیں ہے۔ ڈاکٹر فرحت نے مزید بات کرتے ہوئے کہا ’’ حاملہ خواتین میں حمل کے دوران پیدا ہونے والی مشکلات کی دوسری بڑی وجہ تاخیر سے شادی ہے اور کسی بھی صورت میں لڑکیوں کی شادی 30سال سے کم عمر میں کرنی چاہئے۔