کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ پرسکون سمندر کے نیچے کیسی لہریںکس رفتار سے سطح پر آنے کو بے تاب ہوتی ہیں ۔پانچ سا ل پہلے بھی کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ مودی لہر اس زور سے اٹھے گی کہ سامنے آنے والی ہر شئے کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی اور آج بھی کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس منہ زور لہر کو اپنے انجام تک پہنچانے کیلئے ایک اور لہر اٹھنے کو مچل رہی ہے۔ہندوستان کی پانچ اہم ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے اس لہر کے سرسرانے کا انداز ہ کیا جاسکتا ہے ۔تبدیلی فطرت کا قانون ہے اور ہر تبدیلی کے پیچھے ایک اور تبدیلی جنم لینے کو بے تاب ہوتی ہے ۔ ثبات اسی تبدیلی کو ہوتا ہے جس کے اندر انسانوںکی تسلی اور تشفی کے عوامل برتراور برجستہ ہوں ۔مودی لہر ان تبدیلیوں کا شاخسانہ تھی جو کافی عرصے سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کررہی تھیں۔مذہبی ، قومی اور نسلی انتہا پسندی نے کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں سراٹھانا شروع کیا تھا۔ اس انتہا پسندی نے طالبان کو جنم دیا ، اسامہ بن لادن پیدا کیا ، ڈونالڈ ٹرمپ کو ایک ایسے ملک کا سربراہ بنایا جس کے لوگ علم و آگاہی میں سب سے ممتاز سمجھے جاتے تھے لیکن جو چنگاری بھڑک چکی تھی ،اس سے کسی کا محفوظ رہنا ممکن نہیں تھا ۔دنیا کی چند ایک قومیں ہی تھیں جنہوں نے اس چنگاری سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا ۔
ہندوستان قوموں کی مشترکہ ثقافت کا ایک گہوارہ تھا جس کے اندر پہلے ہی ہندوتوا کی انتہا پسندانہ سوچ موجود تھی جس نے راشٹر پتا مہاتما گاندھی کے سینے میں گولیاں اتار دیں لیکن اس ملک نے اس وقت تک اس سوچ کو پنپنے نہیں دیا جب تک نہ بیرونی دنیا کے اثرات نے اس کی آبادی کے ذہنوں کو لپیٹ میں نہیں لیا۔اس وقت تک بی جے پی خود اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ وہ ایک اعتدال پسند سوچ کے ساتھ ہی سیاسی قوت حاصل کرسکتی ہے ۔چنانچہ اٹل بہاری واجپائی نے اس جماعت کی سخت گیر سوچ کو کسی حد تک دبا کر سیاسی کامیابیوں کی ڈگر پر گامزن کیا تھا لیکن پانچ سال ماحول کا تقاضا کچھ اور تھا ۔ نریندر مودی انتہا پسند ہندوتواکی علامت بن کر ابھرے اورہندوستان کے سیاسی افق پر چھاگئے۔ اس طوفان میں بی جے پی کے وہ سارے لیڈر ڈوب گئے جو اعتدال کی راہ اپنانے کے قائل ہوچکے تھے ۔تہذیبی جارحیت کی سوچ کو قوت اور حکومت حاصل ہوئی ۔ رام راجیہ کے قیام کاخواب جاگا ۔ رام مندر کے نرمان کی امید قائم ہوئی ۔ کشمیر کو ہندوستان میں ضم کرنے کا عزم جاگا ۔ پاکستان کو سبق سکھانے کی امید پیدا ہوئی ۔پانچ سال گزر گئے ۔نہ رام راجیہ قائم ہوا، نہ رام مندر بنا ،نہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوئی ،نہ ہی پاکستان کو سبق سکھایا جاسکا۔
مودی کے اقتدار کے پانچ سال میں دنیا میں انتہا پسندی کی سوچ کیخلاف خاموش تحریک نے جنم لیا ۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف نیچے آگیا ۔یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے کی مہم میں امریکہ تن تنہا رہا ۔ اقوام متحد ہ میں اسرائیل کی حمایت میں امریکہ کے ساتھ کوئی ملک کھڑا نہیں ہوسکا ۔ یورپ میں مسلمانوں کیخلاف اٹھنے والی آوازوں کی مخالفت ہوئی ۔ افغانستان سے فوجوں کی واپسی کیلئے راہیں تلاش کی جانے لگیں ۔ آئی ایس آئی ایس میں بھرتیوں کی لہر تھم گئی ۔برطانیہ میں پاکستانی نژاد مسلمان وزیر اعظم کے عہدے کا ممکنہ امیدوار بنا اور ہندوستان کی ہمسائیگی میں پاکستان کے اندر حالیہ عام انتخاب میں سخت گیر مذہبی جماعتوں کو بری طرح سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ عمران خان پر عوام نے اعتماد کا اظہار کیا جو ہر اعتبار سے ایک روشن خیال فرد کی شناخت رکھتا ہے ۔ سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی سماج کو قدامت پرست قرار دیکر اسے تبدیل کرنے کیلئے غیر معمولی اقدامات شروع کردئیے ۔
غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے، اس پر کوئی بحث کئے بغیر خالص اس تبدیلی پر بات کرنا مقصود ہے جو مذہبی ، قومی اور نسلی شدت پسندی کیخلاف پیدا ہوچکی ہے اور جس نے ہندوستانی عوام پر بھی اپنے اثرات مرتب کئے ۔ جس طرح پوری دنیا میں اس بات کو بخوبی سمجھا گیا کہ تشدد اور نفرت قوموں ، ملکوں اور نسلوں کو تباہیوں اور بربادیوں کے سوا کچھ نہیں دے سکتا، اسی طرح ہندوستان کے عوام کو بھی اس ذہنیت کی پستی کا اندازہ ہوا جو انسان پر جانور کوترجیح دیتی ہے ۔ جو تاریخ کو مسخ کرکے کسی قوم کی عظمت کا جھنڈا بلند کرنا چاہتی ہے ۔ جو علاقوں کے نام بدل کر آگے بڑھتے ہوئے زمانے کو پلٹ کر پیچھے لیجانے کی ضد کرتی ہے ۔ جس کا فوکس انسانی ضرورتوں سے زیادہ گزرنے زمانے کے کھنڈروں پر ہے۔اس طرح کی پست اور بدترین ذہنیت کو سائنس کے عروج اور ترقی کا یہ زمانہ کیسے زیادہ دیر برداشت کرسکتا ہے ۔اس طرح کی ذہنیت کا مقدر ہی شکست ہوتا ہے ۔
پاکستان میں شدت پسندی کا ایک دور گزرا جس کا خمیازہ اس ملک کو آج بھی بھگتنا پڑرہا ہے اور اس کے بوئے ہوئے بیج نہ جانے کب تک زہر اگاتے رہیں گے ۔ پاکستانی کے عوام کو اب اس بات کا بھرپور اندازہ ہوچکا ہے ۔چنانچہ یہ بات امید افزاء ہے کہ برصغیر ہند و پاک میں تبدیلی کا عنصر نمایاں ہورہا ہے ۔ دونوں ملکوں میں شدت پسندانہ سوچ کو مسترد کرنے کی ابتداء ہوچکی ہے ۔ پاکستان میں تبدیلی آچکی ہے اور بھارت میں تبدیلی نے پر کھول دئیے ہیں ۔ پاکستان میں برسر اقتدار آنے کے ساتھ ہی عمران خان نے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی۔یہ کہہ کر انہوں نے تعلقات کے ایک نئے باب کو کھولنے کی دعوت دی کہ وہ ایک قدم ہماری طرف بڑھائیں گے تو ہم دو قدم بڑھائیں گے لیکن بھارت کی طرف سے اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا ۔ سب جانتے ہیں کہ اس کی وجہ آنے والے عام انتخابات ہیں۔ موجودہ بی جے پی حکومت کے لئے ہندوتوا کارڈ کے سوا اورکوئی سہارا باقی نہیں بچا ہے اور اس کے لئے پاکستان کے ساتھ سخت گیرانہ رویہ ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس سخت گیرانہ روئیے کے باوجود بھی مدھیہ پردیش کے سخت گیر ہندو بیلٹ نے بی جے پی کو سب سے بڑا دھچکا دیا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ قیادت کی سمجھ میں یہ بات آجائے اور وہ اپنے روئیے میں تبدیلی پر آمادہ ہو لیکن اگر ایسانہیں ہوا تو آنے والے انتخابات میں ہندوستان ایک نئی تبدیلی کا منظر دیکھے گا ۔
ڈیڑھ ارب لوگوں کی آبادی میں پڑھے لکھے نوجوان بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعات کا حل ناممکن بھی نہیں ہے ۔ دونوں ملک افہام و تفہیم سے مسائل کو حل کرسکتے ہیں اور مفاہمت کی ایسی فضاء قائم کرسکتے ہیں جس میں دونوں ملکوں کے وہ مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے جو ان کے لئے سوہان روح بنے ہوئے ہیں ۔ جیسا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ باہمی تجارت کو فروغ دیا جائے تو غربت کا خاتمہ کرنا بہت آسان ہوگا ۔
بشکر یہ ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر