فریاد
محمد عرفات وانی
آج میرا موضوع ان طلبہ کے مسائل پر ہے،جن کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ جے کے بوس اپنا کام بہتر طریقے پر انجام دینے قاصر ہے اور اپنے ناقص نظام کی وجہ سے طلاب کو پریشانی، ڈپریشن اور نقصان سے دوچار کررہے ہیں۔جبکہ کڑوا سچ یہی ہے کہ ہمارےیہاںتواتر کے ساتھ امتحانات کے نتائج دیر سے نکلتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بارہویں جماعت کے امتحان کا نتیجہ چالیس دن میں نکل جاتا ہے، لیکن اگر کسی طالب علم کو کسی پیپر میں مشکل پیش آتی ہے اور وہ چند مارکس کی وجہ سے فیل ہو جاتا ہے، تو وہ دوبارہ تشخیص فارم بھرتا ہے۔ تاہم اس دوبارہ تشخیص کا نتیجہ بھی امتحان کا وقت قریب آتے ہی نکل آتا ہے، جب تک کہ ریویلیوشن کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ جو کہ یہاں کے طلاب کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے،جس سے عیاں ہورہا ہے کہ جے کے بوس اپنے کام مناسب ڈھنگ سے انجام نہیں دے رہا ہے۔ اگر ریویلیوشن کا نتیجہ وقت پر نہیں آتا تو ریویلیوشن فارم بھرنے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ بدقسمتی سے ریویلیوشن کا نتیجہ دیر سے آنے کی وجہ سے طلبہ کو ایگزام فارم بھی دوبارہ بھرنا پڑتا ہے۔ یہ صورتحال طلبہ کے لیے شدید مشکلات کا باعث بنتا ہے اور بعض اوقات یہی پریشانی انہیں ڈپریشن کا شکار بھی کر دیتی ہے۔
جو کوئی طالب علم ریویلیوشن کا فارم بھرتا ہے اور اس دوران نیٹ یا نرسنگ کے امتحان دیتا ہے، تو جب مشاورت ہوتی ہے تو وہاں مارکس کارڈ کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے اُس وقت بھی ریویلیوشن زیر التواء ہوتا ہے، جو جے کے بوس کے لئےناقص کارکردگی کی مثال بن جاتا ہے۔
جے کے بوس، جموں و کشمیر کے بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی کئی کمزوریاں ہیں۔ تعلیمی معیار، نصاب اور تعلیمی مواد میں فرق ہوتا ہے۔ امتحان کی نگرانی میں دھاندلی یا غیر منصفانہ عمل درآمد بھی ہوتا ہے، جبکہ انتظامی امور میں سست روی یا ناقص کارکردگی اور نااہلی بھی ایک مسئلہ ہے اور یہ مسائل تعلیمی نظام پر منفی اثر ڈال دیتے ہیںہیں، ان مسائل کو دور کرنے کے لئےفوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اگر پرائیویٹ امتحانات کی بات کریں تو آج 55 دن ہو چکے ہیں مگر ان کا نتیجہ اب تک نہیں آیا۔ کچھ طلاب نے پرائیویٹ کالجوں میں داخلے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن انہیں اب تک اپنے نتائج نہیں ملے، جس کی وجہ سے ان کا داخلہ متاثر ہورہا ہےاور کچھ کالجوں میں آنلاین داخلہ ہوتا ہے ،جو پانچ سو یا ایک ہزار روپے ایڈمیشن فیس لیتے ہیں پھر بعد میں اُن سے کہا جاتا ہے کہ آپ کا ایڈمیشن نہیں ہو سکتا ہے۔یہ کیسا نظام ہے،جس میں غریب طلباء کے ساتھ یہ ظلم روا رکھا جاتا ہے،ان چیزوں کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ جے کے بوس کو طلاب کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔چنانچہ جب داخلے بند ہوجاتے ہیں تب یہ نتائج نکلیں گے،تو ظاہر ایسے نتائج سے طلباءکو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ طلبہ کا ایک سال ضائع ہونا کوئی مذاق نہیں ہے۔ یہ وہ طال علم سمجھ سکتا ہے جس کے گھر والے اس کوطعنے دیتے رہتے ہیں اور جب وہ داخلے کے لیے جاتا ہے تو اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جے کے بوس کی سستی کی وجہ سے طلاب ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اور کئی تو کوئی شدید قدم اٹھانےکے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا کسی طالب علم کا ایک مارکس کی بنیاد پر ایک سال ضائع ہونا صحیح ہے؟ یہ نظام ہی غلط ہے اور ہماری حکومت کو بھی شاید طلبہ کے مستقبل کی فکر نہیں ہے۔
میںجے کے بوس کے تمام عہدیداروں سے یہی کہنا چاہوں گا کہ خدارا اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور طلاب کی پریشانیوں کو محسوس کریںاور بہتر طریقے پر اپنا منصبی کام انجام دینے کی کوشش کریںتاکہ طلاب کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہ ہوجائے۔ساتھ ہی یہاں کی نئی حکومت سے درخواست ہے،کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لےتاکہ یہاں کے طلاب کے ساتھ ہورہی اس نا انصافی کا ازالہ ہوسکے۔
[email protected]