گزشتہ دنوں جواہر لال یونیورسٹی( جے این یو ) نئی دلی کی سٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار ، عمر خالد، ا نربن بھٹاچاریہ اور دیگر سات کشمیری طلبہ۔۔۔ عاقب حسین ، منیب حسین، عمیر گل، رئیس رسول ،خالد بشیر، بشارت علی۔۔۔ کے خلاف دلی پولیس نے تین سال بعد مقدمہ غداری قائم کیا ۔۹؍ فروری ۲۰۱۶ء کو افضل گورو کی یاد میں جے این یو میں منائی جارہی تقریب کوآر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اَکھل بھارتیہ ودیا رتھی پر یشد نے بوجوہ سبوتاژ کر نے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ پریشد نے تقریب کے منتظمین پر ’’قابل اعتراض‘‘ نعرہ بازی کا الزام لگاکر سٹوڈنٹ یونین کے چند عہدیداروں اور کچھ دیگرطلبہ کے خلاف پولیس میں ایف آئی آردرج کر ائی ۔قانون کی رُو سے ایف آئی آر پر نوے دن کے اندر پولیس ملزمین کے خلاف چارج شیٹ عدالت میں پیش کرنے کی مکلف تھی مگر اس نے تین سال بعد ملزمین پر فردِجرم عائد کر نے کی زحمت گوارا کی ۔ ملزمین کو اب عدالت میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر نا ہو گا ۔ دلی پولیس نے نجی موبائیل فونوں پر ریکارڈ’’ قابل ِاعتراض‘‘ نعرہ بازی کی فوٹیج کو اپنی تفتیش کی بنیاد بناکربارہ سو صفحات سیاہ کر کے ملزمین کو ماحوذ ٹھہرایا ہے ۔ پٹیالہ ہاؤس عدالت دلی میں ملزمین کے خلاف آگے کی قانونی کارروائی ہوگی ۔ اگر بالفرض عدالت پولیس چارج شیٹ کی روشنی میں جرح وتعدیل کے بعد ملزمین پر غداری کا مقدمہ حق بجانب قراردیتی ہے تو جے این یو سٹوڈنٹ یونین صدر کنہیا کمار سمیت دیگرنو ملزموں کو عمر قید کی سزا مل سکتی ہے ۔ واضح رہے کہ تین سال قبل ۹؍فروری کو جے این یو میں پھانسی یافتہ کشمیری نوجوان افضل گورو کی برسی کی تقریب اس غرض سے منائی جارہی تھی کہ ملک سے سزائے موت کو موقوف کیا جائے۔ سٹوڈنٹ یونین کی جانب سے مجوزہ تقریب کے انعقاد پر اَکھل بھارتیہ ودیا پریشد کی مخالفانہ پوسٹر بازی اور شدید برہمی کے سبب یونیور سٹی حکام نے تقریب کی اجازت واپس لے لی تھی مگر یونیورسٹی کیمپس میں طلبہ نے جوں توں تقریب کا انعقاد عمل میں لایا ۔ چار روز بعد محولہ بالا تینوںطلبہ لیڈروں کو’’ قابل اعتراض نعرہ بازی‘‘ کی اے بی وی پی شکایت پر گرفتار کر کے تہاڑ جیل پہنچا دیا گیا ۔ گو کہ محبوسین کو بہت جلد عدالت نے ضمانت پر رہائی دلائی مگر یہ تنازعہ ملک میں ایک بڑے مباحثے کاسلگتا موضوع بنا ۔ بحث ومباحثہ کا مر کزی موضوع آزادی ٔ اظہار اور اختلافِ رائے کاجمہوری حق تھا۔اس پر رائے عامہ دو خیموں میں منقسم پائی گئی : ایک جانب آزاد خیال اور جمہوریت نوازوں کا مکتبۂ فکر تھا جس نے جے این یو کے طلبہ لیڈروں کے آزادی ٔ اظہار اور آزادی ٔ اجتماع کی کھل کر حمایت کی ، دوسری جانب ہندوتووادی تھے جنہوں نے طلبہ لیڈروں کی ’’باغیانہ اور قوم دشمنانہ‘‘ حرکت کی بھر پور مخالفت کی۔ اس دوران ہر چیز کو بھینگی آنکھ سے دیکھنے کا عادی میڈیائی حلقہ پیچھے نہ رہا ، اس نے عادت سے مجبور ہوکرجلتی پر تیل ڈالا اور نون مرچ ملاکر اس معاملے کو اُچھال اُچھال کر رائے عامہ گمراہ کر نے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میڈیا کے اس مخصوص حصہ نے ا س بارے میں جو فوٹیج ٹیلی کا سٹ کی،اس کے جنیون ہونے پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ، ناقدین اور ماہرین بر ملا چیختے چلاتے رہے کہ ویڈیو جعلی ہیں اور ان سے طلبہ لیڈروں کے خلاف کوئی قابلِ دست اندازی ٔ قانون کیس نہیں بنتا مگر بے سود ۔ بہر صورت جے این یو سٹوڈنٹ یونین اور اس کے سابق صدر کنہیا کمار کے سیاسی نظریات اور سماجی خیالا ت چاہے جو کچھ بھی ہوں، اُن کی حُب الوطنی اور حق گوئی کسی سوال یا شک وریب سے بالاتر ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اے بی وی پی والے کمار کی دیش بھگتی پر اُنگلی اٹھاکر اُن سے اپنا پرانا حساب چگتا کر نا چاہتے ہیں،اس لئے موقع، موسم ، دستور کو غنیمت سمجھ کر سرگرمِ عمل ہیں ۔گرچہ کمار نے کئی بار اپنی حُب الوطنی پر اُنگلی اٹھانے والے فرقہ پرستوںکو دندان شکن مدلل جواب دئے پھر بھی آج کی تاریخ میں اُنہیںعدالت کے کٹہرے میں بطور ’’ قومی غدار‘‘ کھڑا کیا گیا ہے ۔جے این یو میں زیر تعلیم ان سابق اور موجودہ طلبہ کے خلاف عدالتی کارروائی کا حتمی نتیجہ کیاہوگا،اُس پر قبل ازوقت کوئی رائے زنی نہیں کی جاسکتی،البتہ مقدمہ کے بارے میں کنہیا کمار کا یہ تبصرہ قابل اعتنا ء ہے۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً تین سال بعد عین لوک سبھا انتخابات سے قبل واقعے کی چارج شیٹ پولیس کی جانب سے عدالت میں پیش کر نا اصلاً حکمران پارٹی کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا رقص ِنیم بسمل ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مودی حکومت نوٹ بندی اور بے روزگاری ومہنگائی کے حوالے سے اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے ووٹروں کو اب انہی چیزوں سے رجھاتی ہے ۔ کمار نے طنزاًمودی حکومت کا یہ کہہ کرشکریہ اداکیا کہ بقول ان کے پولیس پر دباؤبنا کر ہی مجھ پر اور دیگر طلبہ پر غداری کا مقدمہ قائم کیا جا چکا ہے ۔ بایں ہمہ ا س نامی گرامی سٹوڈنٹ لیڈر کا عدالتی پروسس پر اپنے غیر متزلزل یقین واعتماد کا اظہار کر نے سے باورہوتاہے کہ موصوف عدالت سے مثبت فیصلے کی اُمید کر تے ہیں ۔ بلا شبہ ملک میں اب بھی عدلیہ ہی ایک ایسا ادارہ بچاہے جس پر انصاف کی ہی نہیں بلکہ جمہوریت کی بقاء کی ذمہ داری آن پڑی ہے ۔ ا س میں دورائے نہیں کہ زیر بحث معاملے میں اب عدالت ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرے گی ۔ قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب کشمیر کے بارے میں بات کر نے کی جسارت پر غیر کشمیری طلبہ لیڈروں کے خلاف اس نوعیت کا سنگین مقدمہ عدالت میں چلے گا ۔ مقدمے کے تعلق سے چونکہ سات کشمیری طلبہ بھی عدالتی کارروائی کا سامنا کریں گے، اس لئے اس خبر پر کشمیرکے عوامی اور سیاسی حلقوں میں تیکھا ردعمل ظاہر ہوا۔ حسب ِتوقع اس حوالے سے مزاحمتی حلقوں نے حکومت کی کڑی نکتہ چینی کی اور کہا کہ جواہرلال یونیورسٹی میں زیر تعلیم سات کشمیری طلبہ پر غداری کا مقدمہ چلا ناان کے تعلیمی کیر ئر سے کھلواڑ کر نا ہے ۔ انہوں نے ارباب ِ حل وعقد سے زوردارمطالبہ کیا کہ مذکورہ طلبہ کے خلاف مقدمہ واپس لیا جائے۔ تادم تحریرمتحدہ مزاحمتی قیادت، جماعت اسلامی ، تحریک حریت ، لبریشن فرنٹ ( جاوید میر گروپ )، انجمن شرعی شعیان اور مسلم لیگ نے اس معاملے پر اپنے الگ الگ بیانات میں یہی نکتہ اُبھارا کہ اس مقدمے کو واپس لیا جائے ۔ غور طلب ہے کہ پی ڈی پی صدر اورسابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس کارروائی پر اپنی فکر وتشویش ظاہر کی ہے ۔ انہوں نے مر کزی حکومت کو اس سلسلے میں آڑے ہاتھوں لے کر کہا کہ ۲۰۱۴ء میں کانگریس نے پارلیمانی انتخابات سے ذرا قبل افضل گورو کو بھی تختۂ دار پر لٹکاکر فی الاصل الیکشن میں رائے دہندگان کو اپنی جانب رجھا نے کی لا حاصل کاوش کی تھی، آج کی تاریخ میں بھاجپا اسی طرزِسیاست کا اعادہ کررہی ہے۔ بہر حال اس بحث کو ٹالتے ہوئے کہ آیا کشمیری طلبہ پر غداری کا مقدمہ چلاکر واقعی مودی سرکار انتخابی جیت کے لئے کانگریسی نسخہ آزما رہی ہے جسے افضل گور و کی صلیب کی صورت میں کا نگریس نے آزما کر ناکامی کے سوا کچھ نہ پایا، اب عدلیہ ہی ایک واحد سہارا ہے جو مقدمہ ٔ غداری میں حق و انصاف کا پلڑہ ہر صورت میں بھاری رکھے گی۔