سرینگر// حکومت نے اشیاء اور خدمات ٹیکس(جی ایس ٹی) پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے کل جماعتی گروپ کی میٹنگ سابق نائب وزیر اعلیٰ مظفر حسین بیگ کی صدارت میںمنعقدہوئی ۔تاہم نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے اس میٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔ بھارت کی دیگر ریاستوں میںیکم جولائی سے یکساں محصول نظام کے لاگو ہونے سے قبل ہی ریاست میں سرکار کی طرف سے اس قانون کو لاگو کرنے کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کا ایک گروپ تشکیل دیا گیا تھا جس میں سابق وزیر خزانہ عبدالرحیم راتھر کے علاوہ محمد یوسف تاریگامی،نظام الدین بٹ،ایڈوکیٹ سنیل سیٹھی،اعجاز احمد خان،حکیم محمد یاسین، غلام حسن میر اور پون گپتا سمیت انجینئر رشید کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب درابو نے مشاورتی گروپ کے تمام ممبران کو جمعرات کو ہی مدعو کیا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ میٹنگ میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے نمائندوں نے شرکت نہیں کی جبکہ دیگر ممبران کے علاوہ وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب درابو، قانون کے وزیر ایڈوکیٹ عبدالحق خان،چیف سیکریٹری بی بی ویاس،سیکریٹری خزانہ نوین چودھری،کمشنر کمرشل ٹیکس ایم آئی خطیب کے علاوہ اعلیٰ افسران ے شرکت کی۔ ذرائع کا کہنا کہ میٹنگ میں جی ایس ٹی کے اطلاق پر ممبران کے درمیان مختلف پہلوں پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس دوران اس قانون کے قانونی،مالیاتی اور اقتصادی پہلوں کو بھی اجاگر کیا گیا۔سرکاری ذرائع کے مطابق میٹنگ میں اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ جی ایس ٹی کے بغیر نفاذ سے ریاست بین الریاستی تجارت میں مالیاتی اور اقتصادی افراتفری کا شکار ہوگی۔ میٹنگ میں تاہم اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اس قانون کے نفاذسے عوامی حلقوں میںسیاسی سطح پر جو تحفظات ہیں،ان کو بھی دور کیا جانا چاہے۔ مظفر حسین بیگ نے میٹنگ کے اختتام پر کہا کہ مشاورتی کمیٹی میں جی ایس ٹی کے اطلاق سے متعلق3 باتوں پر اتفاق پایا گیا،جن میں اس معاملے میں یک رائے بنانے کیلئے مزید وقت کی فراہمی بھی شامل ہے۔انہوں نے بتایا کہ بعد میں یک رائے بنا کے ہی اس قانون کو اسمبلی میں لیا جا سکتا ہے جہاں سے کابینہ کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پر پیش رفت کرے۔اس دوران نیشنل کانفرنس نے اس میٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔پارٹی کے سنیئر لیڈر اور سابق وزیر خزانہ عبدالرحیم راتھر نے ڈاکٹر حسیب درابو کے نام ایک مکتوب روانہ کیا جس میں کہا گیا’’ میں آپ کو یاد دہانی کراتا ہوں کہ گزشتہ میٹنگ کے دوران وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ اس معاملے پر مزید میٹنگوں کو طلب کرنے سے قبل سرکاری منصوبہ اور اس سے متعلق تمام دستاویزات تمام ارکان کو فراہم کی جائیںگی،تاہم ایسا نہیں ہوا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میٹنگ میں شمولیت کیلئے کچھ گھنٹے قبل ہی دعوت نامہ بھی ملا‘‘۔ راتھر نے کہا کہ دستاویزات کے بغیر وہ یہ طے نہیں کرسکتے کہ آخر کار حکومت اس قانون کو کسی طرح اور کس روح میں لاگو کرنا چاہتی ہے،اس لئے انہوں نے میٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔