رخصتی کی عجیب عجیب رسمیں :دلہن کی رخصتی کے وقت بھی عجیب عجیب مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ خاندانوں میں قرآن پکڑ کر اسے دلہن کے سر پر چھتری کی طرح تان کر قرآن کا اس پر سایہ کیا جاتا ہے۔ گویا قدم قدم پر ہر کام میں اللہ کی نافرمانی اور قرآنی تعلیمات کی مٹی پلید کرنے کے باوجود ہم قرآن سے اس جذباتی تعلق کا اظہار کر کے اللہ تعالی سے کہتے ہیں:یا اللہ! دیکھ لے اس سب خود فراموشی اور خدا فراموشی کے بعد بھی بطور تبرک تیرے قرآن کریم ہی کو استعمال کر رہے ہیں۔قرآن کریم کے ساتھ کتنا بھونڈا مذاق ہے۔ (نعوذ باللہ)کیا روز حشر اللہ تعالی ہم مسلمانوں سے نہیں پوچھے گا کہ کیا قرآن کریم میں نے صرف اس لیے نازل کیا تھا کہ تم اس کو حریر و ریشم کے غلافوں میں لپیٹ کرگل دستہ طاق نسیاں بنا کر رکھ دینا اوراپنے کاروبار میں معاملات زندگی میں اور اپنی معاشرتی تقریبات ( شادی بیاہ وغیرہ) میں اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھنابلکہ اس کو کبھی کبھی تبرک کے طور پر یا مردے بخشوانے اور کھانے پرفاتحہ پڑھنے کے لیے استعمال کر لیا کرنا۔ تاکہ تم اللہ کو اور اپنے نفسوں کو یہ دھوکہ دیتے رہو کہ تم قرآن کریم کو ماننے والے ہو۔ سچ فرمایا اللہ تبارک وتعالی نے (سورہ البقرہ میں)ترجمہ: یہ اللہ کو اور اہل ایمان کو دھوکہ دیتے ہیں اور ان کو یہ پتہ ہی نہیں کہ دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔‘‘
بے غیرتی کے مناظر : شادی کے اختتام پر مرد حضرات اپنی اپنی خواتین کو لینے کے لیے ہال کے گیٹ پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ماشاء اللہ سب خواتین چونکہ بے پردہ، ہرطرح کے فیشن سے آراستہ نیم عریاں لباسوں میں ملبوس اور الٹے سیدھے میک اپ سے اپنے چہروں کو اور پلکوں کو بزعم خویش سجایا بھڑکایا ہوتا ہے تو کیا باہر نکلتے ہوئے یہ عورتیں مردوں کے سامنے سے بلاجھجھک نہیں گزرتی ہیں؟اور کیا مرد رنگ ونور کے اس سیلاب سے، یا حسن و جمال کے اس جلوہ ہائے بے تاب سے یا بکھرتے اور دھنکتے اس قوس قزح سے محظوظ نہیں ہوتے؟کیا بے حیائی و بے پردگی کے ان مناظر اور مظاہروں کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے؟ اور جن مسلمان کہلانے والے مردوں نے اپنی بیگمات، بیٹیوں اور بہنوں کو اس بے حیائی کا مظہر ہونے کی اور ’’بے حیاباش و ہرچہ خواہی کن۔‘‘ کا مصداق بنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ کیا وہ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ اگر وہ واقعی مسلمان ہیں تو کیا اس بے غیرتی کا ان کے پاس کوئی جواز ہے؟ کیا انہوں نے بھی سوچا ہے اسلام کی اس طرح مٹی پلید کرنے پر وہ اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ بارگاہ الہی میں کسی طرح سرخرو ہوں گے؟کیا اس جواب سے ان کا چھٹکار ہو جائے گا کہ بیوی یا بیٹی نہیں مانتی تھی؟ یا ہمارے معاشرے کا رواج ہی یہ تھا کہ شادی بیاہ کے موقع پر شریعت کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا تھا؟ یا اگر ہم اپنی خواتین کو سادہ لباس اور باپردہ لے جاتے تو لوگ ہمیں دقیانوسی خیال کرتے اور یہ پھبتی کستے۔
مجموعی حیثیت بے حیائی کی :شادی یا نکاح میں یہ صورت حال نہایت المناک ہے اور اہل دین کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سب شادیوں میں تو ایسا نہیں ہوتا، بلاشبہ یہ بات صحیح ہے لیکن بات تو چند افراد یا چند شادیوں کی نہیں بلکہ قوم کی حیثیت مجموعی کی ہے۔ رسم و رواج اور بے حیائی کا طوفان اور دینی اقدار و روایات سے یکسر انحراف کا سیلاب اتنا عام اور تیز ہوگیا ہے کہ بڑے بڑے دین دار گھرانے اور خاندان بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں اور دولت اور وسائل کی فراوانی کی وجہ سے ان کے اندر بھی دین کی پابندی کے بجائے شان وشوکت کے اظہار کا جذبہ بڑھتا جارہا ہے۔اس کی وجہ سے بہت سی مذکورہ خرابیاں دینداروں کی خواتین میں بھی عام ہوتی جارہی ہیں۔ امیرانہ شان و شوکت کا اظہار۔ ان کی خواتین نے ظاہری طور پر تو پردہ کیا ہوا ہوتا ہے لیکن پردے کے پیچھے وہی زرق برق لباس کی نمائش، زیورات کی نمائش، میک اپ اور آرائش کی نمائش، تفاخر اور برتری کا احساس وغیرہ۔
یہ چیزیں کمتر حیثیت کی خواتین کے اندر احساس محرومی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ فضول خرچی کے علاوہ معاشرے کے محروم طبقات کے اندر احساس محرومی کے جذبات پیدا کرنا بھی شرعی طور پر ناپسندیدہ ہے۔پھر مائیں تو پردے کا بھی اہتمام کرلیتی ہیں لیکن ان کے ساتھ ان کی نوجوان یا قریب البلوغت بچیاں ہوتی ہیں، وہ اکثر بے پردہ بھی ہوتی ہیں اور مذکور فیشنی مظاہر سے آراستہ بھی۔علاوہ ازیں دین دار خاندانوں کے سارے رشتے دار بھی یا تو دین دار نہیں ہوتے یا دینی اقدار و روایات کے زیادہ پابند نہیں ہوتے۔ نیز ان کے قریبی احباب میں بھی بہت سے دین سے بہت دور ہوتے ہیں۔ ان کی خواتین بھی جب بارات اور ولیمے میں شرکت کرتی ہیں تو وہ اسی بے پردگی اور اس کے لوازمات کا مظہر ہوتی ہیں جس کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔
مشرکانہ رسمیں اپنانا :بڑی باراتوں اور ان کی ضیافت کے لیے دین داروں کو بھی وسیع پیمانے پر انتظامات کرنے پڑتے ہیں شادی ہال کا اور انواع و اقسام کے کھانوں کا۔ جوفضول خرچی ہی کے ذیل میں آتاہے۔لڑکی کی شادی ہو یا لڑکے کی۔ شادی والے گھر ہی میں کئی کئی دن چراغاں ضروری نہیں ہوتا بلکہ گلی، چوراہوں میں بھی اس کا اہتمام ہوتا ہے اور دیندار ہوں یا غیر دین دار، سب ہی اس کا اہتمام کرتے ہیں حالانکہ خوشی کے موقعے پر چراغاں کرنا مسلمانوں کا شیوہ بھی نہیں رہا۔ یہ آتش پرستوں کی رسم ہے جسے ہندؤں نے اختیار کیا اور ہندووں سے میل جول کی وجہ سے یہ مشرکانہ رسم مسلمانوں میں بھی آگئی۔یہ چند مفاسد وہ ہیں جو دین دار گھرانوں اور خاندانوں میں بھی عام ہوتے جارہے ہیں اور ان سے بچنے کا داعیہ اور جذبہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہاہے۔
سب ملکر ’’بیمار قوم کا اپریشن‘‘ کریں :جب بیماری شدید اور ناسور خطرناک ہو جائے تو بیماری اور ناسور کے خاتمے اور بیمار کی زندگی کو بچانے کے لیے آپریشن ناگزیر ہو جاتا ہے اور یہ ناگوار اقدام مریض سے ہمدردی اور محبت کا تقاضا ہوتا ہے۔شادی بیاہ کی رسمیں، جن میں بارات بھی ایک مرحلہ ہے۔ خطرناک ناسور کی صورت اختیار کرگئی ہیں۔ اس مریض قوم اور اس ناسور بھرے معاشرے کے معاج اور ہمدرد صرف اور صرف اہل دین ہیں۔ اس لیے معاشرے کے ان پھوڑوں (ناسوروں) کی نشتر زنی انہی کی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنی ذمے داری کو محسوس کریں۔ لوگوں کی باتوں سے نہ ڈریں، طعن وتشنیع کی پرواہ نہ کریں اور بغیر ’’لومتہ لائم‘‘ کے خوف کے اس ’’بیمار قوم‘‘ کے ’’آپریشن‘‘ کا آغاز کریں اور اس کے لیے ابتدائی قدم یہ ہے کہ اپنے گھر سے اسے شروع کریں۔ بالخصوص جو اصحاب حیثیت دینی خاندان اور افراد ہیں۔ وہ ہمت کریں اور فوری طور پر بارات کا سلسلہ ختم کریں۔بے شک اللہ نے ان کو سب کو کچھ دیا ہے۔ وہ سینکڑوں نہیں، ہزاروں افراد پر مشتمل باراتوں یا ان کی ضیافت کا اہتمام کر سکتے ہیں لیکن اللہ نے یہ دولت فضول خرچی کے لیے نہیں دی ہے، اس پر تو آپ سے باز پرس کی جاسکتی ہے۔ اس دولت کو مصارف پر خرچ کریں جس کی ہمارے معاشرے میں سخت ضرورت ہے۔ اس کی مزید وضاحت ان شاء اللہ ہم جہیز پر گفتگو کے ضمن میں کریں گے۔ یہ ایک مستحسن اقدام ہے جسے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔یہ کام صرف ایک تنظیم یا اس سے وابستہ افرادکا کام نہیں ہے، یہ ایک دین کا تقاضا ہے جو سارے اہل دین کے مل کر کرنے کا کام ہے۔ صرف ایک تنظیم کے چند افراد کا کردار قابل تعریف ہونے کے باوجود معاشرے میں اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کی حیثیت کی صحرا میں پکار یا نقارخانے میں طوطی کی صدا سے زیادہ نہیں ہے۔
ایمانی غیرت و حمیت کا نمونہ پیش کریں :ملک میں اہل دین کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو دینی شعور اور اس کی تعلیمات سے بہرہ ور بھی ہے۔ دینی اقدار و روایات سے وابستگی کا جذبہ بھی اس کے اندر ہے اور بے دینی و بے حیائی کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے پریشان اور اس کا رخ موڑنے کی خواہاں بھی ہے لیکن ہے بے عملی، ایمانی دینی غیرت وحمیت کے فقدان اور ہوا کے رخ پر ہی بغیر کسی مزاحمت کے چلتے جانے کی روش نے اتنی بڑی تعداد کو بے حیثیت بنایا ہوا ہے۔ بنابریں ضرورت عملی اقدامات کی ہے۔ ایمانی غیرت وحمیت کے مظاہرے کی ہے۔ایک مضبوط تحریک برپا کرنے کی ہے اور تمام دینی جماعتوں سے وابستہ دین دار افراد کے یہ عہد کرنے کی ہے کہ وہ باراتوں میں شریک نہیں ہوں گے اور خود بھی بارات کے بغیر شادی کریں گے تاکہ مذکورہ خرافات سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور قوم کے سامنے دین کا ایک عملی سچا نمونہ پیش کریں۔