جہلم کی رعنائیاں کہاں گئیں؟

ارض کشمیر پر رب العالمین کی کچھ خاض نظرِ عنایت ہوئی ہے۔ یہاں کی خوبصورتی کی نظیر نہیں ملتی۔ ہر ایک شئے میں اللہ کے وجود کا ظہور نمایاں نظر آتا ہے۔یہاں کی خوبصورتی کو اور نکھارنے اور سنوارنے میں دریائے جہلم اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔دریائے جہلم کا آغاز ویری ناگ سے ہوتا ہے اور بہت سے مراحل طے کر کے دریائے چناب (پاکستان) سے جا ملتا ہے۔
دریائے جہلم کے کنارے صدیوں سے آباد بستیاں ہر روز اس دریا کا مشاہدہ کس نہ کسی صورت میں کرتی رہتی ہیں اور اس کی اہمیت و افادیت سے زیادہ تر یہی لوگ واقف ہیں۔ آج بھی ایک وسیع آبادی کا حصہ دریائے جہلم سے فیضیاب ہورہا ہے وہ چاہے پانی کی صورت میں ہو یا ذریعہ معاش کی صورت میں۔
میں بھی اْن خوش بختوں میں سے ہوں جنہوں نے اپنا بچپن دریائے جہلم کے گردونواح میں گزارا ہے اور آج بھی بہت ساری یادیں میرے ذہن میں گردش کر رہی ہیں۔ ماضی میں وقت گزارنے کا ایک حسین سامان دریائے جہلم بھی ہوا کرتا تھا۔ سیر و تفریح کے بہانے ماہی گیری کا شوق ہمیں دریائے جہلم کی طرف لے آتا اور اکثر دریائے جہلم کا انتخاب ایک پسندیدہ مقام ہوا کرتا تھا۔ ماہی گیری بھی ایک فن ہے۔ صبر اور خوشی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ۔ مثلاً گھنٹوں تک ایک مچھلی کا کانٹے میںپھنس جانے کا انتظار کرنا اور کڑی مشقت کا ثمر(مچھلی )  ملنے پر خوش ہونا ایک الگ ہی احساس ہوتا تھا۔ پھر کبھی کبھار خالی ہاتھ بنا ثمر (مچھلی ) حاصل کئے واپس لوٹ آنا قوت برداشت کو بڑھانے کا ایک بہترین قدرتی ذریعہ بھی ہوا کرتا تھا جو آج کل کی نئی نسل میں نا کے برابر ہے حتیٰ کہ آج کل کے اکثر بچے مچھلی کھانا بھی پسند نہیں کرتے جبکہ مچھلی ایک بہترین غذاہے۔ پوری دنیا میں مچھلی  پسندیدہ غذاتصور کی جاتی ہے۔ چنانچہ طب نبویؐ میں مچھلی کے طبی فوائد کا ذکر ملتا ہے۔مچھلی میں غیرسیرشدہ چکنائی کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے جو کہ کولیسٹرول کے تناسب کو خود بخود کم کر دیتی ہے۔ مچھلی کا گوشت اورتیل امراضِ دل، موٹاپا، ڈپریشن، کینسر، جلد، زخم اور دوسرے بہت سے امراض میں مفید ہے۔ مچھلی کے تیل میں موجود اومیگا دل کے امراض میں مفید چیز ہے۔ حمل کے دوران مچھلی کے تیل کی سپلیمنٹس بچے کی آنکھوں اور دماغ کی نشوونما اور اعصابی ہم آہنگی کو بہتر بنانے میں معاون ہیں۔امام احمد بن حنبلؒ نے اور ابن ماجہؒ نے اپنی سنن میں حضرت عبداللہ بن عمرؓکی روایت میں کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’تمہارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کر دئیے گئے ہیں۔ رہے دونوں مردار تو وہ مچھلی اور ٹڈی ہے اور رہے دونوں خون، تو وہ جگر (کلیجی ) اور تلی ہے ۔(بحوالہ سنن ابن ماجہ 3314)،(بحوالہ مسنند احمد 7314)
مچھلی کو ذبح کرنے کی ضرورت ہی نھیں پڑتی کیونکہ مچھلی جیسے ہی پانی سے باہر آتی ہے تو اسکے پورے جسم کا نظام اللہ کے خاص نظام کے تحت چینج ھو جاتا ہے۔ اسکے جسم کا سارا خون اسکے پانی سے باہر آتے ہی اسکے منہ میں جو ایپی کلاسٹ ہوتے ہیں ان میں جمع ہو جاتا ہے اور اسکے جسم کا سارا گوشت جراثیم سے پاک صاف ہو جاتا ہے، اس لئے مچھلی کو ذبح کی ضرورت ہی نھیں پڑتی۔
مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب ہم فارغ وقت میں دریائے جہلم سے ہانجیوں کے توسط سے نکالی جانے والی ریت کے ساتھ بھی کھیلا کرتے تھے جو دریائے جہلم کے کناروں پر ایک کثیر تعداد میں جمع ہوا کرتی تھی جو کھیل کے ساتھ ساتھ ورزش کا بھی کام دیتی تھی۔
تبدیلی قدرت کا قانون ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمارا رہن سہن بھی بدلتا گیا ۔اب ہماری ترجیحات بھی زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتی گئیں۔ اب دریائے جہلم میں نہ وہ مچھلیاں رہیں اور نہ وہ صاف پانی، ریت تو سونے کے بائو بک رہی ہے۔ ہم نے دریائے جہلم کو آلودہ کرنے میں کوئی کثر باقی نہ رکھی۔ جتنا بھی گھروں سے کوڈا کرکٹ نکلتا ہے وہ ہم جہلم برد کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ مردہ جانوروں کو دفنانے کے بجائے جہلم میں رات کی تاریکیوں میں پھینک دیتے ہیں۔
 حکومت کی جانب سے کوئی پختہ لائحہ عمل نہ ہونے کے سبب دریائے جہلم دن بہ دن زوال کی طرف گامزن ہو رہا ہے۔ ڈل جھیل کی پرانی تصویر دیکھ کر خود اندازہ لگایئے کہ یہ جھیل کتنا پھیلا ہوا اور وسیع تھا،لیکن ناجائز تعمیرات، ناقص حکومتی نظام،کچھ خود غرض عناصر اور اخلاقی شعور کی کمی کی وجہ سے یہ جھیل اپنی روداد آپ بیان کر رہا ہے اور اگر اب بھی ہم نے پختہ اقتدام نہ اْٹھائے تو آنے والے کچھ برسوںمیں دریائے جہلم کی بھی یہی صورت حال ہوگی اور کئی جگہوں پر تو ہو بھی گئی ہے۔بقول امجد اسلام امجد دریائے جہلم پکار پکار کرکہہ رہا ہے  ؎
مجھے اپنے جینے کا حق چاہئے
زمیں جس پہ میرے قدم ٹک سکیں
اور تاروں بھرا کچھ فلک چاہئے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہئے
نعمتیں جو میرے رب نے دھرتی کو دیں
صاف پانی ہوا بارشیں چاندنی
یہ تو ہر ابن آدم کی جاگیر ہیں
یہ ہماری تمہاری کسی کی نہیں
مجھ کو تعلیم صحت اور امید کی
سات رنگوں بھری اک دھنک چاہئے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہئے
نہ ہوا صاف ہے نہ فضا صاف ہے
وہ جو آب بقا تھا وہ ناصاف ہے
زمیں ہو سمندر ہو یا آسماں
اک ذرا سوچئے اب کہ کیا صاف ہے
موت سے پر خطر ہے یہ آلودگی
دوستو دل میں تھوڑی کسک چاہئے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہئے
پتہ۔ پاندریٹھن سرینگر حال اومپورہ ہاؤسنگ کالونی
فون نمبر۔ 9205000010 
ای میل۔[email protected]
�����