جنید الاسلام کی تصنیف

ایک جواں سال دینی طالب علم و داعی جناب جنید الاسلام کی طرف سے تالیف کی گئی پہلی تصنیف حال ہی میں منظر عام پر آگئی ہے۔جنید الاسلام کا تعلق ضلع بڈگام سے وابستہ خانصاحب نامی ایک خوبصورت قصبہ سے ہے ۔ قصبہ خانصاحب ابتداء سے ہی ادباء شعراء دانشوروں سخن وروں دینی عالموں اور قلم کاروں کا مسکن رہا ہے ۔جنید الاسلام کا بچن سے ہی رجحان دینی تعلیم حاصل کرنے دینداری کو پروان چڑھانے اور دعوت دین کو عام کرنے کی طرف رہا ہے۔دینی درسگاہوں کا قیام عمل میں لانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے اور ان درس و تدریسی مکاتب میں تعلیم حاصل کرنا اور تعلیم فراہم کرنا آپ نے اپنی زندگی کا مقصد حیات بناکے رکھا ہوا ہے۔موقع ملے تو بعض مساجد میں وعظ و تبلیغ فرمانے کی سعادت کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔تبلیغی جماعت کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرنے کے بعد کریہ کریہ اوربستی بستی جاکر دعوت دین میں آپ ہمیشہ پیش پیش رہا کرتے ہیں۔ علم قرآن وحدیث کے علاوہ بلا لحاظ فرقہ و مسلک معروف اسلامی اسکالروں اور دانشوروں کی تصانیف سے فیض حاصل کرنااور ڈاکٹر سرمحمداقبال ؒ کے ساتھ ساتھ حضرت جلال الدین رومیؒ اور حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ کی شاعری کاعلی الخصوص مطالعہ کرناآپ کی زندگی کا خاص شیوہ بن چکاہے۔اردو کے علاوہ انگریزی زبان میں دستیاب اسلامی تاریخی اور ادبی لٹریچر کو بھی آپ بڑے شوق سے پڑھا کرتے ہیں۔اگرچہ کسی تعلیمی ادارے سے انہوں نے کوئی اعلیٰ ڈگری یا سند حاصل نہیںکی ہے تاہم مسلسل لٹریچر اور بعض اہم کتابوں کا مطالعہ کرنے کے سبب آپ کو بڑی حد تک انگریزی اور اردو زبانوں کے استعمال پر عبورحاصل ہوچکا ہے۔ماشاء اللہ آج کی تاریخ میں جنید صاحب ا ن دونوںزبانوں میں قلم اُٹھانے کی ہمت بھی دکھا رہے ہیں جو کہ اپنے آپ میں ایک قابل تحسین کارنامہ ہے۔ جنید صاحب شعر و ادب کے میدان میں بھی بڑی دلچسپی رکھتے ہیں۔ پُر نم کشمیری آپ نے اپنا قلمی نام رکھا ہوا ہے ۔بعض ادبی اور ثقافتی تنظیموں کے ساتھ بھی ان کا تعلق کئی سالوں سے رہاہے ۔ جیسا کہ خاکسار عرض کرچکا ہے کہ محترم جنید الاسلام نامی اس نوجوان دینی طالب علم کی طرف سے جوپہلی انگریزی تصنیف منظر عام پر آگئی ہے وہ ہے RETURN TO ALLAH BEFORE IT IS TOO LATE… A true Motivational Stories Based Book For Youth…  ۔ اسی تصنیف پر صاحب کتاب نے خاکسار کو مختصر سا تبصرہ قلم بند کرنے کا موقع فراہم کیا ہے جس کیلئے میں اُن کا بے حد شکر گزار ہوں۔ ورق گردانی کے دوران جو اس نا چیز کو کتاب ھٰذا کے بارے میںسمجھ میں آیا، وہ آپ کی خدمت میں ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں حاضر ہے۔
جی ہاںقارئین کرام تالیف ھٰذا میں صاحب کتاب کی طرف سے کم و بیش ۴۰ ۔ایسے مختصر مضامین درج کئے جاچکے ہیں جن میں عام مسلمان کو بلعموم اور نوجوان نسل کو بطور خاص روح پرور اور ایمان افروزاسلامی تعلیمات دینی واقعات اور تاریخی معلومات پر مبنی سبق آموز حالات سے روشناس کئے جانے کی کوشش کی گئی تاکہ دور جدید میں بود و باش کرنے والا ایک مسلم نوجوان جو مختلف سماجی خرافات بد عات رسومات اور غلط سنگت میں پڑکر اپنے مستقبل کو تاریک بنانے اور اپنی عاقبت کو خراب کرنے کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے۔ جو نوجوان بری صحبت میں پڑ کر بارگاہ الٰہی کی فضیلت شفیق پیغمبرحضرت رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت اوراعلیٰ اسلامی اقدارسے دور بھاگ چکا ہے یا پھربھاگنے کی کوشش کر رہا ہے۔جو نوجوان اسلامی معاشرت سے دوری اختیار کرنے کی وجہ سے نا امیدی اور مایوسی کے بھنور میں دھنس چکا ہے اور روز افزوں دھنستا ہی چلاجارہا ہے۔جو نوجوان نام نہاد جدیدیت اور مادیت نامی اندھے گھوڑے پر سوار ہوکر بد کرداری بد اخلاقی بے حیائی عیاشی ہائو بھائو اور نفسانفسی کو اپنا طرز حیات بنانے کے در پئے ہوچکا ہے۔ جس نوجوان نے اپنی ناکامیوں اور غلطیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے منشیات قمہار بازی بے راہ روی اور بد تہذیبی کو اپنا سہارہ بناکے رکھا ہوا ہے۔جو نوجوان زندگی جینے کے اصل مقصد کو بھول کر غلط راستے پر چل کر اندھیری وادیوں کے تہہ خانوں میںگم ہو چکا ہے۔جو نوجوان خواب غفلت میں سوکر تباہ کن مستقبل کو اپنے پاس آنے کی کھلے عام دعوت دے رہا ہے۔جو نوجوان اللہ کی رحمت سے نا امید ہوکر شیطانی وسوسوں اور روگردانی میں مبتلا ہوچکا ہے۔ 
مزید یہ کہ تصنیف ھٰذا میں صاحب کتاب نے ایسے حساس مضامین شامل کرنے کو ترجیح دی ہے جن سبق آموز اسباق میںراہ راست سے بٹک چکے مایوس نوجوانوں کو اپنے اسلاف کے نقشہ راہ پر چلنے کی تعلیم و تربیت فراہم کی جاتی ہے نیز اُن کویقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ اللہ کی واحد ذات سے رشتہ قائم کرنے سے ہی انکا حال اور مستقبل دونوں سدھر سکتے ہیںاور ساتھ ہی ساتھ انکی زندگی اور عاقبت سنور سکتی ہے۔ان کو درپیش مسائل و مشکلات کا حل دین سے دوری اختیار کرنے میں نہیں بلکہ دین کے ساتھ دوستی بنائے رکھنے میں ہی پوشیدہ ہے۔اس جہان فانی کی یہ رنگینیاں شوخیاں اور بدمستیاں صرف اور صرف بربادیوںکا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ شیطانی وسوسے اور حرص و لالچ ایک انسان کی زندگی کو جہنم زار بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ہیں۔اطمینان کی دولت حاصل کرنے کیلئے ایک نوجوان کو اپنی زندگی جینے کے طریقے میں کس طرح کی تبدیلیاں لانی چاہئے اس طرح کی نصیحتوں پر مبنی باب شامل کتاب کرنے کی طرف صاحب کتاب نے خاص توجہ دی ہے۔انسانیت اور انسان دوستی جس کو دنیا کا سب سے بڑا مذہب تصور کیا جاتا ہے اس مذہب کو اپنانے میں ہم سب کو کس طرح سے پہل کرلینی چاہئے۔ صاحب کتاب موقع غنیمت جان کر اپنی تالیف میں کئی ایسے خوبصورت دعا اور احادیث شامل کرچکے ہیں جن کو اپنی روزمرہ زندگی میں آزمانے اور بروئے کار لانے سے ایک انسان بطور خاص ایک نوجوان کی زندگی مہک سکتی ہے سنور سکتی ہے۔شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ اور بعض دوسرے عالمی شہرت یافتہ شعراء  حضرات کے چند خوبصورت اشعار جن سے ایک نوجوان کی زندگی میں انقلاب ولولہ اور جوش پیدا ہوتا ہے کو بھی کتاب کا حصہ بنا دیاگیا ہے۔ایسا کرنے سے یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ صاحب کتاب کا یہ تصنیف منظر عام پر لانے کا مقصد ایک خفتہ نوجوان کی مردہ روح کو جگانا ہے تاکہ وہ اس گلستان میں مسل بلبل بن کر جینے کی سعی کرے۔ مختصراََ یہ کہ تالیف ھٰذا میں صاحب کتاب نے بیش قیمتی لعل و جواہرات سمیٹ کر رکھ دئے ہیں جن کی مدد سے صاحب فکر اپنی زندگی میں روشنی کے دئے جلاسکتے ہیں۔جہاں تک صاحب کتاب کی طرف سے مذکورہ تصنیف کو ضبط تحریر لانے کیلئے انگریزی میڈیم کا انتخاب کرنے کا تعلق ہے وہ شاید اسکے علاوہ کچھ نہیں ہوگا کہ اُن کی محنت کا فیض مقامی سطح سے لیکر عالمی سطح تک کے پڑھے لکھے اور زیر تعلیم طالب علم حاصل کر پائیں۔چناچہ موجودہ دور کو انٹرنیٹ دور سے تعبیر کیا جاتا ہے اور انٹرنیٹ سروس کی مدد سے پوری دنیا ایک گلوبل گائوں کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔دور حاضر میںہم انٹرنیٹ سروس کے مختلف پلیٹ فارموں کو بروئے کار لاکر اپنی تصانیف و تحاریر کو ان پلیٹ فارموں پر دستیاب رکھ کر عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ نوجوانوںکیلئے میسر رکھ پارہے ہیں تاکہ شمع سے شمع جلتے رہیں اور بلند و بالا روشن مینار تعمیر ہوتے رہیں۔
محترم سید احمد کٹاریہ (کے اے ایس)جو فی الوقت خانصاحب میں ایس ڈی ایم کی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں نے اس کتاب کے حوالے سے جو نکتۂ نظر پیش کیا ہے وہ صاحب کتاب نے شامل تالیف کردیا ہے۔کتاب ھٰذاکی خصوصیت اہمیت اور افادیت کو لیکر جناب سید صاحب نے جو آرائیں پیش کیں ہیں اُن سے کتاب کی گہرائی کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اس تصنیف کی اشاعت وغیرہ میں جن محبوں دوستوں اور رفیقوں نے صاحب کتاب کو قلمی سخنی قدمی اور درہمی امداد فراہم کی ہے اُن کا دل کی عمیق گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا جنید صاحب نہ بھولے۔ خاکسار نے اس خوبصورت کتاب کو اطمینان کے ساتھ پڑھا اور پڑھنے کے دوران بہت ہی زیادہ لطف اور لذت محسوس کیا ۔میری ذاتی رائے ہے کہ تمام نوجوانوں کواس کتاب کا مطالعہ اور اس سے فیض حاصل کرلیناچاہئے۔یہ انٹرنیٹ سروس کے مختلف پلیٹ فارموں پر بھی دستیاب ہے۔
(خانصاحب،بڈگام،رابطہ۔7051223329)