چلبلی فلمی حسینہ نے تو بڑے جسمانی نخرے دکھاتے کہا تھا جگر ما بڑی آگ ہے اور اس جگری آگ سے وہ بیڑی جلانے کا کام کرتی تھی۔ اپنے مودی مہاراج نے کہا میرے دل میں بھی وہی آگ ہے جو آپ کے تن بدن میں لگی ہے۔وہ تو کہتے ہیں کہ یہ آگ سیکورٹی اہل کاروں کی موت کے سبب لگی ہے ۔ہو نہ ہو آگ زبردست ہو اور اندر ہی اندر جھلسا رہی ہو ، جبھی تو اس کا اظہار کر نے الیکشن جلسے میں آئے۔کیا پتہ الیکشن جلسے میں اندر کی آگ بجھنے کا چانس زیادہ کارگر ہو یا یوں کہئے کہ اپنے اندر کی آگ اپنے لئے ووٹ مانگ کر جلائی۔شاید اس لئے کہ چلو سپاہی تو مارے گئے اس افسوس ناک واقعے کے بطن سے ایک آدھ الیکشن جیت ہی بٹور لیں۔اسی لئے تو بیڑی کے بدلے اپنے اندر کی آگ سے مودی جی وہ میزائل جلا کر اُڑانے کی کوشش میں ہیں جس سے وہ مملکت ِخدادا کو چٹکیوں میں جوش دکھانے سبق سکھانے والے ہیں۔اس بات پر تو بھگت جن اس قدر اُوتاولے ہیں کہ لگتا ہے کہیں مودی برانڈ میزائل کے بدلے خود نہ اُڑ اُڑ جائیں۔بھگت جن اس قدر اُچھل رہے ہیں لگتا ہے جوش میں آکر ہوش کھو کر سرحد کے اوپر فلمی چھلانگ مار کر پاسپورٹ ویزا کے بغیر مملکت خداداد میں کو دجائیں اور سرجیکل اسٹرائیک کر کے فلمی ہیرو کی طرح بغیر خراش واپس لوٹیں۔ یہ ہوئی نا سیاست دانوں والی چال ڈھال کہ بھگت جن مودی سرکار کے راستے میں نچھاور ہی ہو جائیں۔واہ مودی جی واہ!پچاس اہل کا روں کا بلیدان، اُن کے اہل ِخانہ غم والم کے آتش فشاں ، ان کے چہیتے آنسوؤں کا بحر بیکراں ، غم وغصے کے آتش فشاں ،بھلا کیوں نہ ہوں ،اپنوں کے چلے جانے کا صدمہ تو اپنے ہی جانتے ہیں ۔اس لئے ر و رو کر نڈھال ہو رہے ہیں ۔ چیخ چیخ کر جانے والوں کو یاد کر رہے ہیں، تڑپ تڑپ کر ان کی مر تیو کا سوگ منا رہے ہیں مگر سیاست کا پروانہ مودی جی اس آگ کو خود الیکشن مدعے میں بدل کر اوروں کو بلیدانی رَتھ پر سیاست نہ کرنے کا مفت مشورہ دے رہے ہیں۔شاید اس لئے کہ اس پر جذباتی سیاست کھیلنے کے جملہ حقوق مودی شاہ پرائیویٹ لمیٹڈ کے پاس محفوظ ہیں۔جبھی تو اس پرائیویٹ کمپنی کے شریک کار امت شاہ نے آسام میں ببانگ دہل اعلان کردیا کہ آسام کو کشمیر نہیں بننے دیں گے۔مطلب ہم نے اپنی سیاست کے طفیل کشمیر کو جہاں جنت سے جہنم میں تبدیل کردیا کہ روز آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ، ایسا آسام کو نہیں بنائیں گے،کیونکہ الیکشن جیتنے میں جتنا خون بہانے کی ضرورت ہے وہ کوٹا ہم کشمیر سے ہی پورا کردیں گے۔ وہ جو مودی مہاراج نے جادو کی جھپی اور پیار کی پپی کی بات کی تھی ،وہ ترشول برداروں کی ٹھپی میں بدل دی۔ مطلب مودی شاہ کمپنی کے پاس رام مندر اور خون خرابہ والے دو آپشن موجود تھے کہ استعمال کرکے الیکشن جیت میں بدل دیں، لیکن قسمت نے لیتہ پورہ پلوامہ کا واقعہ مہیا کردیا تو اس سے فائدہ کوئی سیاسی نابالغ ہی نہ اُٹھائے۔ کسے نہیں معلوم کہ الیکشن کی آمد آمد ہے ؎
سرحد وںپر تنائو ہے کیا
پتہ کرو چنائو ہے کیا
بھکت جن چیختے ہیں بہت
ناگپور سے دبائو ہے کیا
چڈی والوں کا آرڈر ہے
ہندو مسلم کو لڑائو ہے کیا
اس بیچ بھارت وَرش جہاں میزائل وغیرہ کی بات سننا چاہتے تھے ،وہ لال ٹماٹر کی خبریں سننے پر مجبور ہوگئے یعنی کہاں سب سے بڑا رپبلک ، پھر بنانا رپبلک سے نیچے اُتر کر ٹماٹر رپبلک کی کہانی سننے کو ملی۔جب تک جیش کے خلاف کاروائی نہ ہو، مملکت خدادا کو لال ٹماٹر نہیں ملیں گے۔مطلب ہم بھارت پاک جنگ نمبر پانچ سے متعلق سوچ کر ہی ڈر جاتے تھے ،وہ جنگ ٹماٹر تک سمٹ گئی۔کیا پتہ ہدف، غوری، ترشول، آکاش، براہموس وغیرہ سوچتے تھے ،وہ بدل گئے تو بوفورس توپوں کے اندر لال ٹماٹر ڈال کر اُڑا دیں گئے۔کیا پتہ جلد ہی لال ٹماٹروں کی بارش سے جیش وغیرہ کے ہیڈ کوارٹر نیچے دب جائیں۔پھر میجر آریہ سوال پوچھے گا کہ اہل کشمیر کے گال تو سرخ ہیں ہی لیکن جیش لشکر والوں کے سارے بدن لال کیسے ہوگئے؟میجر صاحب جواب صاف ہے کہ لال رنگ بھارت وَرش سے ہی الاٹ ہو ا ہے ؎
بدلا لینا ہے ہم کو
داغ دو گولے مارٹر کو
پاکستان تو تڑپے گا
ترسے گا لال ٹماٹر کو
اصل میں الیکشن ایک بڑی مہلک بیماری کا نام ہے جو جہاں جہاں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ،وہاں عام ہے لیکن بر صغیر میں زیادہ ہی خطرناک تصور کی جاتی ہے۔اگرچہ بھارت وَرش میں یہ بیماری ۱۹۵۲ سے معرض وجود میں آئی لیکن پہلے پہل یہ بیماری اس قدر جان لیوا نہ تھی بلکہ ہلکا سا اثر کرتی تھی اور متاثر ہ افراد مزیدار انداز میں گھر گھر گھومتے ، دوستی کا ہاتھ بڑھاتے، سلام دعا سے کام چلا کر اپنا علاج کروانے میں کامیاب ہوتے۔تاہم کچھ برسوں سے اس بیماری کا علاج بہت مشکل ہوگیا ہے ۔اس بیماری کے آثار چنائو کی تاریخ نزدیک آتے آتے واضح ہوجاتے ہیں۔یہ بیمار ی عام طور پر سیاسی مشٹنڈوں کو لپیٹ میں لیتی ہے لیکن خاص طور پر سیاست دانوں پر حملہ کرتی ہے اور اس میں خطرناک دورے پانچ سال بعد کچھ زیادہ ہی مہلک معلوم پڑتے ہیں۔اس بیماری کے سبب منہ اور زبان پر واضح علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ منہ آدھا کڑوا آدھا میٹھا اور زبان دراز ہوجاتی ہے۔زبان سے بیان بازی کے ایسے شعلے نکل آتے ہیں کہ مخالفین پر بم بارود کی بارش محسوس ہوتی ہے۔اس مہلک بیماری کا کوئی کارگر علاج آج تک اہل علم و دانش و ماہر طبیب ڈھونڈھ نہ پائے، البتہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے سے حد درجہ افاقہ ہوتا ہے اور فقط اسی علاج ومعالجہ کو آج تک کارگر مانا گیا ہے ۔اس بیماری کے دوران بیمار شخص اپنے دائیں بائیں سبھی ان چیزوں پر چڑھ بیٹھتا ہے جن کے سبب اُسے یہ لگے کہ اقتدار کی کرسی تک پہنچنا مشکل ہوگا ۔اس دوران ممکنہ مخالفین کے تئیں اس قدر شاکی نظر آتا ہے کہ اس کی کمزوریوں کی تحقیق میں جی جان لگا دیتا ہے اور اس کا کچا چٹھا بیچ بازار کھول دیتا ہے ۔غیبت کو چھوڑ سچ جھوٹ عوام کے سامنے لے آتا ہے کیونکہ کرسی کے بغیر یہی دوسرا علاج ہے اور اسی علاج کے سبب کچھ حد تک افاقہ محسوس ہوتا ہے۔ووٹروں کو مختلف زمروں میں اس بیماری کا شکار شخص بانٹ دیتا ہے اور ایک دوسرے کے درمیان لڑانے کی سعی کرتا رہتا ہے جس کے سبب بھی بیماری میں تھوڑی بہت آسانی محسوس ہوتی ہے اور اگر نفرت کی دیوار ذرا مضبوط بن گئی تو قوت ِمدافعت بڑھ جاتی ہے اور واضح فرق دکھتا ہے۔نفرت کی دیوار کے اپنی طرف رہنے والے عوام کو اس بیماری کے دوران متاثرہ شخص پر آئو بھگت اور کھانے پینے کا انتظام کرنے میں ذاتی دلچسپی لینے کا دورہ پڑ جاتا ہے۔اس مہمان نوازی میں شراب و شباب کا انتظام ، روپے پیسے کی ریل پیل جاری رکھنے میں قرض لینے سے بھی نہیں گھبراتا کیونکہ بیماری کا حتمی علاج یعنی اقتدار کی کرسی تک پہنچنے میں یہی راہ آسان دکھتی ہے۔یہ تو الیکشن کی ہی دین ہے کہ لیتہ پورہ حملہ ہوا تو اَٹوٹ انگ کے رہے سہے تار ہی ٹوٹ گئے۔ادھر تار ٹوٹے ادھر جموں میں تار ونار ایسے جڑ گئے کہ جگہ جگہ آگ کے شعلے بھڑک اُٹھے جیسے تینتیس ہزار وولٹ کی ترسیلی لائن میں شاٹ سرکٹ کے سبب آگ نمودار ہو ۔اس زعفرانی آگ کی لپیٹ میں کشمیری تو کشمیری وطن کی نمبر پلیٹ والی گاڑیاں آگئیں،اردو نیم پلیٹ والی دوکانیں نشانہ بن گئیں۔ اس پر بجرنگ بھائیوں کادل نہ بھرا تو چننی ٹنل سے چتلی قبر تک ، دریا گنج سے دیرہ دون تک میجر آریہ کی آنکھ میں کھٹکتے سرخ گال والے شکنجے میں پھنس گئے۔کہیں سرخ گالوں پر چاقو چلے، کہیں کارگو پتلونوں پر قینچی۔نتیجہ یہ کہ ملک کشمیر ہمارا ہے ،اس پر فرقہ پرستوں کی دو دھاری آری چلی ۔حد یہ کہ بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو نعرہ لگانے والے ظلم کے پیادے تشد د زادے کنول چوڑیاں پہنے ، ساڑھیاں زیب ِتن کئے اپنی مردانگی کا خود مذاق اُڑاتے رہے اور یہ جوکشمیر کی بیٹیاں نڈر دلیر بچیاں ہیں نا ،انہی کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کالج ہوسٹل آکر راؤن کو بھی شرمندہ کیا ،مگر داد دیجئے ان دلیر ونڈر بیٹیوں کی ، وہ بھی مشٹنڈوں کے حصار میں مردانہ وار مقابلہ کرکے بزدل وباؤل حملوں سے خود کو بچاتی رہیں۔ اورہم بھی کبھی وہم وگمان کی وادیوں میں گم ہوتے تھے کہ آخر آگرہ کا پاگل خانہ مشہور اور اتنا بڑا کیوں ہے۔اب کی بار وہاں جو ہوٹل والوں نے بورڈ چسپاں کر دئے کہ کتوں کو اندر آنے کی اجازت ہے پر کشمیریوں کو نہیں، تو گتھی آپ سے آپ سلجھ گئی کہ مالکان ِ ہوٹل جب انسان نما سگ ہوں تو باہر کے سگانِ شہر کو دعوتِ شیراز کیوں نہ دیں ۔بات صاف ہے جس ہم جنس کو اجازت ملی وہ اندر داخل ، جس غیر جنس پر ممانعت وہ باہر۔ اب سمجھے آگرے کا پاگل خانہ تاج سے زیادہ مشہور کیوں ہے ؟واہ بھگت جن واہ !فرقہ پرست جنگجوؤں کی صف میں ایک گورنر بہادر بھی شامل ہوا۔ امرناتھ یاترا پر دو سال روک لگائو،کشمیری مصنوعات مت خریدو ۔بے چارہ یہ نہیں جانتا کہ اَدھ ننگے یاتری مفت کا لنگر کھاتے ہیں ۔اپنے علاقے کی بے کرایہ بسوں میں آ دھمکتے ہیں ۔اگر کچھ ملک کشمیر کو کچھ دیتے ہیں تو آلودگی میں اضافہ، کثافت میں بڑھوتری اور ساتھ میں یہاں کے کوتوالوں منشیوں کو یاترا ڈیوٹی کے نام پر چھ ماہ دردِسر دیتے ہیں ۔ ابھی تک تو ہوا نہیں کہ پشیمان ہو کر اپنے بیان کو بدل دے لیکن اس بیچ مرکزی وزیر پیوش گوئل نے توڑ مروڑ شروع کردی۔منسٹر صاحب کو کشمیری طلباء و طالبات پر کوئی حملے دکھائی نہ دیئے اور کشمیری شال فروشوں دوکانداروں کی مار پیٹ بھی دِکھی نہیں۔اب کوئی کیا کہے، اس حساب سے تو لیتہ پورہ والا حملہ ہوا ہی نہیں بلکہ یہ آن لائن پروپیگنڈا کا فان درفان کہلائے تو ہرج ہی کیا؟بھکت جن تو اب اور زیادہ ٹی وی اسکرین اور سوشل میڈیا پر اُچھلم کودم کریں گے کہ اب انہیں کوئی بھی سرحد پر جا کر لڑنے کے لئے نہیں کہے گا ۔چڈی والی ناگپوری ٹولی کو اب تین دن میں سوتنتر سینا نی ترتیب دینے کی ضرورت بھی نہیں رہی کیونکہ ایک لڑاکو نیوز چینل پر اعلان ہوا ہے کہ چمبل کا شیر ڈاکو ملکھان سنگھ اپنے سات سو ساتھیوں کی مدد سے پاکستان سے بدلہ لے گا اور خیالی سر جیکل اسٹرائیک کر کے باہوش باجوش واپس لوٹے گا، جیسے پار کے خانوں نے جوہری خوان اور تیر کمان کو تاحیات روزے پر رکھے ہیں۔ خیال اپنا اپنا!
دیکھ اتنا نہ بے تکلف ہو
کچھ ذرا احتیاط کر بھائی
چھوڑ قصہ ڈرؤن حملوں کامگر
دال قیمے کی بات کر بھائی
……………………
رابط ([email protected]/9419009169)