ریاست کے مختلف علاقوں میں جنگلی جانورں کی طرف سے بستیوں کی جانب یلغار کرنے کی خبریں گزشتہ چند ہفتوں سے تواتر کے ساتھ آرہی ہیں، جو اس بات کا غماز ہے کہ انسان اور جانوروں کے درمیان تصادم آرائی کے واقعات میںدن بہ دن تیزی کےساتھ اضافہ ہوتا جارہاہے۔ دو روز قبل ہی فقیر گجری ہارون میں ریچھوں کا ایک جھنڈ کھیتوں میں کام کر رہے شہریوں پر حملہ آور ہوا جن میں کئی ایک زخمی ہوگئےاور بعد اذاں ایک شہری دم توڑ بیٹھا۔ اسی دن ہائن کنگن میں بھی ریچھ کے ذرریعہ ایک نوجوان کوزخمی کرنے کی خبر آئی جبکہ اس سے ایک روز قبل ہی اننت ناگ کے ایک گائوں میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ یہ سلسلہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ جنگلی جانوروں اور انسانوںمیں ٹکراؤایک معمول بنتا جارہاہے ۔حالیہ برسوں میں وادی کے اندر خاص کر کنڈی کے علاقوں میں چھوٹے بچوں سمیت متعدد افراد تیندؤں اور ریچھوں کے حملوں کے شکار ہوکر جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔پہاڑوں اور جنگلات کے متصل علاقوں میںجانورں کے غول کے غول غذا کی تلاش میں بستیوں کے نزدیک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا اگرچہ ماضی میں موسم سرما کے دوران ہی دیکھنے کو ملتا تھا،لیکن اب یہ صورتحال تواتر کے ساتھ سال بھر پیش آتی رہتی ہے۔ چونکہ عام لوگوں کو قدرت کی ان مخلوقات ، جو عام طور پر بے ضرر ہوتی ہیں اور چھیڑ چھاڑ کے بغیر کسی پر حملہ آور نہیں ہوتے، کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا، لہٰذا جب یہ بستیوں کا رْخ کرتے ہیں تو لوگ بدحواس ہوکر میسرآلات ضرب لے کر ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ،جس کی وجہ سے اکثر یہ وحوش لوگوں پر حملہ آر ہوتے ہیں اور تصادم آرائی میں خود بھی زیادتیوں کاہوجاتے ہیں اور بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ غذانہ ملنے کے سبب وہ بستیوں میں بھٹک کر راہ گیروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب کوئی جانور اپنے اعصابی توازن سے محروم ہوتاہے تو وہ آدم خوری پر اْتر آتاہے اور ایسے حالات میں متعلقہ حکام ہی اْس وقت ایسے جانورکوبنی نوع انسان کے لئے نقصان دہ معلن کرکے اس کی ہلاکت کا حکم صادر کرسکتے ہیں مگر ماہرین اور جنگلی جانوروں سے مڈبھیڑ کا تجربہ رکھنے والے لوگوں کے مطابق ،جب کوئی جانور غذا کی تلاش میں کسی بستی کی طرف نکل پڑتاہے تو لوگوں کی اجتماعی بدحواسی کے ردعمل میں ان حیوانوں کا وحشیانہ پن اْبھر کر سامنے آتاہے جو بعض اوقات انسانوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتاہے۔ ایسے واقعات میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران کئی ہلاکتیں پیش آئی ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر جنگلات کے متصل علاقوں میں آباد لوگوں کو فطرت کے اصولوں کے مطابق جنگلی حیات کے ساتھ بقائے باہم کی مناسب معلومات اور تربیت فراہم کی جائے تو یقینی طور پر ان تصادموں کو روکنے یا انہیں کم کرنے کی کوئی سبیل پیدا ہوسکتی ہے۔آج کل تواتر کے ساتھ اخبارات میں مختلف پہاڑی علاقوں میں ریچھوں کی ہڑبھونگ اور تیندؤں اور بھیڑیوں کے حملوں کے حوالے سے بار بار خبریں شائع ہورہی ہیں۔ظاہرہے کہ ان علاقوں میں لوگوں کے اندر زبردست خوف وہراس بھی پھیل گیا ہے اورجس کی وجہ سے کئی جگہوں پہ لوگ اکیلے کھیتوں میں جانے سے احتراز کرتے ہیں،جب کہ اس سے شبانہ نقل وحمل بھی متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ جنگلی جانوروں کے بستیوں کی جانب بھٹکنے کے معاملے میں جنگلات اور ان کے گردونواح میں موجود اْن کی آماجگاہوں میں دن بہ دن کمی واقع ہونے کا رْجحان کلیدی طور پر کارفرماہے۔جنگلاتی علاقوں میں انسان کے تجاوزات خواہ وہ زرعی سرگرمیوں ، تعمیروترقی یا سیکورٹی کیمپوں کے قیام کے حوالے سے ہورہے ہوں ، اپنی آماجگاہوں سے بے دخلی کا سبب بن جاتے ہیں ،نتیجتاً ان کا رْخ بستیوں کی جانب ہو جاتاہے۔اس تصادم آرائی کو کم کرنے کے لئے محکمہ وائلڈ لائف نے ماضی میں عوامی بیداری کے لئے اخبارات میں اشتہار بھی شائع کروائے تھے،جس میں کئی ہدایات درج تھیں،تاہم صرف اخبارات میں اشتہارات کی اشاعت سے دْور دَراز علاقوں میں بیداری پیداہونے کی توقع رکھنا عبث ہے ،لہٰذا متعلقہ محکمہ کو زمینی سطح پر اس کے لئے متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی ساتھ جنگلی جانوروں کی آماجگاہوں کے تحفظ کو سنجیدگی کے ساتھ لے کر ، ایسے علاقوں کو انسان کی دست برد اور دخل اندازی سے محفوظ کیا جائے وگرنہ ماحولیاتی عدم توازن میں مزید سنگینی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ، جو کم ازکم کائناتی اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ آج بھی اگر تاریخی مخطوطات کا مطالعہ کیا جائے تو بھارت کی راجدھانی دِلّی کے پرانے شہر کے قرب وجوار میں انواع واقسام کے خوبصورت جنگلی چرندوں وپرندوں کی موجودگی کا وافرذکر ملتاہے ،لیکن آج وہاں ان مخلوقات کو دیکھنے کے لئے چڑیا گھر کا رْخ کرنا پڑتاہے۔ جموںوکشمیر جو صدیوں سے قدرت کی ان مہربانیوں سے مالامال رہاہے ، میں بھی آئندہ ایام میں ایسی ہی صورتحال پیدا نہ ہو ، اس کے بارے میں یہاں کی حکومت اورعوام کو سنجیدگی اوردردمندی کے ساتھ غور وفکر کرنا ہوگا۔