گزشتہ کئی مہینوں میں انسانی بستیوںکے اندر جنگلی جانوروں کی گھس بیٹھ کے متعدد واقعات پیش آئے، جن میں کئی شہری زخمی ہوگئے جبکہ کئی ایسے معاملے بھی پیش آئے جن میں ان جانوروں کو زندہ پکڑ کر محکمہ وائلڈ لائف کے سپرد کیا گیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ دو روز قبل میڈورہ بیروہ کے علاقہ میں پیش آیا، جہاں دو تیندوے بھٹک کر بستی کی جانب نکل آئے تھے تاہم مقامی نوجوانوں نے ہمت اور حوصلے سے کام لیکر محکمہ وائلڈ لائف کے عملے کو بھر پور تعاون دے کر دونوں تیندئوں کو زندہ پکڑنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس طرح جنگلی حیات کے تئیں نئی نسل میں سنجیدگی اور نزاکت طبیعت کی مثال پیش کی۔ اس سے پہلے بھی چند ماہ قبل کنگن علاقہ میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جب تیزی کے ساتھ نایاب ہورہے ہانگل کے ایک بچے کو، جو زخمی حالت میں تھا، کو زندہ پکڑ کر اسکی مرہم پٹی کرکے اُسکو بچالیا۔ ایسا کرکے ان نوجوانوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ابھی ہمارے سماج میں ایسے نفوس موجود ہیں جنہیں من حیث المجموع کرۂ ارض پر ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کےلئے ان بے زبانوں کی ضرورت اور موجودگی کا احساس ہے ۔ حالانکہ کئی معاملات میں دو طرفہ ہڑ بڑا ہٹ کے ماحول میں طرفین کی طرف سے ایک دوسرے پرحملے بھی ہوتے ہیں تاہم ایسے واقعات نے ایک نئی طرح کا احساس اُجاگر کیا ہے۔ اسی طرح خطہ چناب کے کئی دیہات میں بھی رواں موسم کے دوران متعدد حوش کو قابو کرکے متعلقہ حکام کے حوالے کیا گیا، جنہوں نے بعد اذاں انہیں واپس اپنی آماجگاہوں میں چھوڑ دیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ پہاڑی علاقوں میں انسانی مداخلت سے ان وحوش کے لئے غذا کے وسائل محدود ہو جاتے ہیں اور وہ قریبی بستیوں کی طرف رُخ کرتے ہیں۔یہ صورتحال ماضی میں بھی پیش آتی رہی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں ان واقعات کی تعداد میںکافی اضافہ ہوا ہے اور تواتر کے ساتھ جنگلی حیات کی انسانی بستیوں کے اندر آمد و رفت سے دو اہم سوال اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ کیا جنگلات کی صورتحال اس قدر زبو ں ہوگئی ہے کہ فطرت کے توازن کا ایک اہم ستون گردانے جانے والے ان وحشیوں کےلئے وہاں خوردونوش کی صورتحال دن بدن دگر گوں ہو رہی ہے یا پھر انسانی بستیاں اس قدر جنگلات کے قریب پہنچ گئی ہیں کہ یہ وحوش اپنی آماجگاہوں میں انسانی گھس پیٹھ سے برافروختہ ہو کر ایسے حالات پید اکر رہے ہیں۔ بہر حال دیکھا جائے تو دونوں صورتیں موجود ہیں۔ ایک جانب نہایت ہی سرعت کے ساتھ جنگلاتی اراضی سکڑتی جارہی ہے اور اس کے لئے ذمہ دارعوامل سے ہم مسلسل غفلت کے مرتکب ہوتے آئے ہیں۔ دوسر ی طرف انسانی آبادیاں بھی بہت تیزی کے ساتھ پھیل کر جنگلات سے متصل علاقوں سے رینگتے ہوئے جنگلات کی زیلی اراضی کے اندر گھستی جارہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں انسانوں اور وحوش کا متصادم ہونا لازمی ہے۔اول الذکر صورتحال کے لئے جنگل سمگلروں اور زمین دلالوں کے مافیا، جس میں سیاستدانوں اور انتظامی اہلکاروں کے مفادات مسلم ہوتے ہیں،پیش پیش ہوتے ہیں جبکہ بڑے ترقیاتی پروجیکٹوں کے حوالے سے بے محابہ تعمیراتی سرگرمیوں اور سلامتی کےلئے جنگلوں کے اندر سیکورٹی فورسز کی آمدو رفت سے ان وحوش کے مساکن متاثر ہوتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر انہیں اپنی آماجگاہوں سے منتقل ہونا پڑتا ہے۔ثانی الذکر صورت میں انسانی بستیوں کے بے ترتیب اور غیر منصوبہ بند پھیلائو نے جہاں زرعی اراضی کو بے بیان تباہی سے دو چار کر دیا ہے وہیں اب جنگلات سے متصل زیلی اراضی کو بھی زیر کرنے کا عمل جاری ہے ، جو بالآخر بچے کھچے جنگلات کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگلی جانوروں کی آماجگاہوں کے تحفظ کو سنجیدگی کے ساتھ لے کر ، ایسے علاقوں کو انسان کی دست برد اور دخل اندازی سے محفوظ کیا جائے وگرنہ ماحولیاتی عدم توازن میں مزید سنگینی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ، جو کم ازکم کائناتی اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔جنگلاتی اراضی سے قبضے ہٹانےکے عہد کا اظہار کیا ہے، مگر عملی طور پر ایسا کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگلات سے متصل علاقوں میں اراضی کی باز یابی کو ترجیح د ی جائے تاہم اس میں شہروں کے متصل بر سہا برس سے موجود اُن بستیوں کو ،جو دہائیاں قبل جنگلات کا حصہ رہی ہیں، نشانہ بنا کر جنگلات کی بحالی کے نام پر سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش نہیں ہونی چاہئے، جیساکہ سابق سرکار میں کچھ عناصر نے کیا تھا۔ جموں وکشمیر جو صدیوں سے قدرت کی ان مہربانیوں سے مالامال رہاہے ، میں بھی آئندہ ایام میںتباہی کی صورتحال پیدا نہ ہو ، اس کے بارے میں یہاں کی حکومت اورعوام کو سنجیدگی اوردردمندی کے ساتھ غور وفکر کرنا ہوگا۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمہ گیر سطح پر ایک متوازن دنیا کےلئے جنگلی حیات کی ضرورت کو اُجاگر کرنے کےلئے عوامی بیداری پیدا کی جانی چاہئے۔