قارئین کرام! یہ جنوری کا مہینہ چل رہا ہے اور اس میں ایک دن انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اور وہ ہے یوم جمہوریہ۔ یوم جمہوریہ کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ ۲۶/ جنوری، ۱۹۵۰ء کو ہندوستان پر ایک جمہوری نظام، ہندوستانی آئین اور دستور کی صورت میں ہندوستان پر نافذ ہوا۔ یہ جمہوری نظام اور یہ دستور ایک منصفانہ دستور تھا، جس میں ہر مذہب، ہر قوم، ہر انسان کی رعایت کی گئی تھی اور سب کو برابری کا درجہ دیا گیا تھا۔ مگر دھیرے دھیرے اس جمہوریت سے اس کا منصفانہ مزاج چھیننے کی کوششیں ہونے لگیں اور اس کی روح سے چھیڑ چھاڑ ہونے لگی، یعنی کہ جمہوریت سے کھلواڑ کیا جانے لگا۔ جمہوریت کا نام تو باقی رہ گیا مگر اس کا نام لے لے کر بے حد ظلم و زیادتی ہونے لگی۔ کمزوروں اور غریبوں کو کچلا جانے لگا۔ فرقہ پرستوں نے فسادات مچانے شروع کیے اور مسلمانوں کو ظلم کی چکی میں دھکیلا جانے لگا۔ کئی بار آئین ِ ہند کو داغ دار کیا گیا، کئی بار انصاف کے چہرے کو کالا کردیا گیا کئے اور اپنے ساتھ بے عدلی، نا انصافی اور طرف داری کا نام جوڑ ڈالا۔ ظالموں کو مرتبے ملنے لگے اور مظلوموں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جانے لگا، جو دبے ہوے تھے ان کو اور دبایا جانے لگا بلکہ دُھنسانے کی کوشش کی گئی، جبکہ جن کے پاس کوئی عہدہ تھا، کوئی منصب تھا، کوئی سرمایہ تھا، انہیں سر پہ بٹھایا جانے لگا اور آسمان کی طرف اُچھالا جانے لگا۔ گویا کہ امن اور چین ان کے لیے خاص ہونے لگا ،جن کے پاس منصب اور سرمایہ ہو جبکہ کمزوروں اور مظلوموں کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔ ؎
ہر کوچہ شعلہ زار ہے ہر شہر قتل گاہ
یکجہتی حیات کے آداب کیا ہوئے
لیکن اب اگر ہم غم بیان کریں تو کس سے کریں اور کیوں کر کریں۔ اِن بگڑے ہوے حالات میں اہلِ سیاست، سیاست کے نام پر دھبہ ہیں، جہاں دیکھو غداری ہے، دغا بازی ہے، مکر و فریب اور جھوٹ ہے۔ ؎
مغرب کی تیز و تند ہواؤں میں گُم ہوئیں
مشرق میں اب خلوص کی پروائیاں نہیں
خوشبو نہیں بزرگوں کے ایثار جیسی اب
تہذیب ِنو کی فکر میں اونچائیاں نہیں
حضرات! اب ہمارے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آئین ِہند کو جانیں اور اس کی حفاظت کریں، ہم سب مل کر فتنۂ و فساد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، مظلوموں کی مدد کریں، کمزوروں کا ساتھ دیں، غریبوں کا سہارا بنیں اور اگر کہیں ہندوستانی جمہوریت کے خلاف کوئی اقدام ہو تو ہم اسے شدت کے ساتھ باطل اور نا کام کریں، جمہوریت اور اس کی روح کی حفاظت کریں، بھارت کے قوانین و ضوابط کی پاس داری کرتے ہوے چھوٹے بڑے، امیر و غریب ہر قسم کے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلیں اور کہیں پر مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر ظلم و ستم بالکل نہ ہونے دیں۔ پھراِن شاءاللہ انصاف کا بول بالا ہوگا۔ ظلم و جور کی ظلمت چھَٹے گی اور عدل و انصاف کا نور آئے گا، کیوں کہ حد سے زیادہ اندھیرا صبح روشن کے قریب ہونے کی دلیل ہوا کرتا ہے۔؎
نہ ہمت پست کر تعمیر ِ نو کی سعی کرتا جا
ارادوں کی توانائی بسا دیتی ہے ویرانی
رابطہ۔ ممبئی