سرینگر //جموں وکشمیر میں چھوٹی نجی گاڑیوں کی تعداد بے تحاشا طریقے سے بڑھ رہی ہے لیکن سڑکیں وہی ہیں جو 1947میں تھیں۔چند مخصوص علاقوں کو جانے والی سڑکوں کو کشادہ کرنے کی کبھی کبھار کوششیں کی گئی ہیں لیکن مجموعی طور پر سڑکوں کو کشادہ کرنے اور انہیں قابل آمد و رفت بنانے کے لئے سبھی سڑک منصوبوں کے دعوے صرف کاغذات تک ہی محدود رہے۔سیول لائنز سرینگر میں نٹی پورہ میں 200فٹ کی مسافت گھنٹوں میں طے ہوتی ہے ، کیونکہ یہاں متعلقہ محکمہ کی جانب سے سڑک کو کشادہ کرنے کی ذرا سا بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی، حالانکہ ایسا صرف چند روز کے اندر کیا جاسکتا تھا اور یوں ہزاروں مسافروں، ملازمین، خواتین ، طلاب اور دیگر سفر کرنے والے لوگوں کو روزانہ کوفت اٹھانے سے چھٹکارا مل جاتا۔اسی طرح کی صورتحال صنعت نگر مارکیٹ میں پیش آتی ہے جہاں ایک ساتھ دو گاڑیاں سڑک تنگ ہونے کی وجہ سے نہیں چل سکتی۔یہاں ہر روز کی ٹریفک جام کی صورتحال درد سر بن گئی ہے۔بٹہ مالو میں ٹریفک جام کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ پلوامہ قصبے میں ٹریفک جام کی نا قابل برداشت صورتحال لوگوں کیلئے مقدر بن چکی ہے۔ضلع انتظامیہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔اننت ناگ قصبے میںبھی اسی طرح کی حالت ہے۔شوپیان ، کولگام، گاندربل، ترال،ہندوارہ، کپوارہ، بارہمولہ، بیروہ، بڈگام اور دیگر قصبوں میں مختلف حالت نہیں ہے۔اب صرف اتنا ہی درد سر نہیں ہے بلکہ شہر میں داخل ہونے کے بعد کارپارکنگ کی عد م دستیابی بھی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔جموں وکشمیر جہاں ٹریفک مسائل میں ڈوب رہا ہے۔برسوں سے یہاں جو منصوبے شروع ہوئے ان کا کام یا تو تشنہ تکمیل ہے یا پھر شروع ہی نہیں ہو سکا ہے۔ یہاں کی تنگ اور دشوار گزار سڑکوں پر گاڑیوں کی بڑھتی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال جموں وکشمیر میں 70ہزار گاڑیوں کی رجسٹریشن ہوتی ہے۔ جموں وکشمیر میں گاڑیوں کی کل تعداد قریب 18لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔محکمہ ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ ہر سال صرف وادی میں 40سے 50ہزار نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن ہوتی ہے اور جموں میں بھی 20سے25ہزار گاڑیاں سالانہ خریدی جاتی ہیں ۔محکمہ ٹریفک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سرینگر شہر کی سڑکوں پر روزانہ 85ہزار گاڑیاں چلتی ہیںاوریہاں کی سڑکوں کے اطراف کا 44 فیصد حصہ پبلک ٹرانسپورٹ جبکہ 36 فیصد حصہ ہی عام گاڑیوں کیلئے ہے۔ذرائع نے بتایا کہ محکمہ کے پاس ایسا کوئی بھی منصوبہ یا قانون نہیں ہے کہ وہ ان گاڑیوں کی روک تھام کیلئے کوئی اقدامات اٹھا سکے جبکہ کئی سال پرانی اور کنڈم گاڑیوں کو سڑکوں سے ہٹانے میں بھی محکمہ ٹرانسپورٹ مکمل طور پر ناکام ہے ۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کے ا عداد وشمار کے مطابق مارچ 2018تک وادی میں 6,60,627گاڑیاںرجسٹرکی گئی ہیںجن میں سرینگر شہر میں 3,15,797گاڑیاں بھی شامل ہیںاور پچھلے تین برسوں میں 3لاکھ کے قریب گاڑیوںمیں اضافہ ہوا ہے ۔ شہر سرینگر میں ایک دن میں اوسطاً 30سے 40گاڑیوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے اور سال میں اوسطاً10ہزار سے 12ہزار گاڑیاںصرف شہروں میں رجسٹرہوتی ہیں۔ ایسی گاڑیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو ملک کے مختلف حصوں سے خریدی گئی ہیں اور ان گاڑیوں کی کوئی بھی تفصیل محکمہ کے پاس موجود نہیں ہے ۔ سرینگر ڈیولپمنٹ اٹھارتی کے پاس شہر میں صرف 5 کار پارکنگ جگہیںہیں جبکہ دو ملٹی کار پارکنگ کا کام شیخ باغ اور پریس کالونی میں چل رہا ہے، جن کے مکمل کرنے کا ہدف 2022 رکھاگیا ہے۔قصبہ جات میں تو کہیں کار پاکنگ ہے ہی نہیں۔ گاڑیوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے حادثات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ہر سال جموں وکشمیر میں 3ہزار سے زائد سڑک حادثات رونماہوتے ہیں۔