جموں و کشمیر میں حد بندی:تجویز کردہ اپروچ | نشستوں کے بٹوارہ میں رقبہ جداگانہ پیمانہ نہیں

1۔اس سلسلے کے پہلے تین حصوں میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی نشستوں کی تقسیم میں کوئی تضادیا امتیاز نہیں ہے۔ خاص طور پر عمومی تاثر کے برعکس جموں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ "ایک شخص ایک ووٹ" کے اصول پر بھی ، یہ یہ اتنا صحیح ہے کہ جہاں کشمیر میں فی حلقہ 1لاکھ49 ہزار،749 ووٹرہیں وہیں جموں کے ایک حلقہ میں 1لاکھ45 ہزار366 افراد ہوسکتے ہیں۔ دراصل ہم کتنا ہی اعدادو شمار کو کیوں نہ ٹٹولیں ،دونوں صوبوں کے درمیان ووٹروں اورحلقوں کی تقسیم حیران کن طور پر بالکل منصفانہ اور مساویانہ ہے۔
 2۔آخری قانون ساز اسمبلی میں وادی کشمیر کی آبادی کا 55 فیصد اور 53 فیصد نشستیں تھیں۔ آبادی میں 43 فیصد حصہ داری کے ساتھ جموں کو قانون ساز اسمبلی کی نشستوں کا 42.5 فیصد حاصل تھا۔
 3۔ 5اگست کی تنزلی اور انحطاط کے بعد نئی حقیقت یہ ہے کہ آبادی میں کشمیرصوبہ کا 56 فیصد حصہ ہے جبکہ جموں کا حصہ 44 فیصد ہے۔ جموںصوبہ کا رقبہ اب 62 فیصد ہے جبکہ کشمیر کا رقبہ38 فیصد ہے۔یہی وجہ ہے کہ جموں پر متمرکز سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے رقبہ کو حد بندی کے معیار کے طور پر استعمال کرنے پر زور دیاجارہا ہے۔
 4۔تاہم انتخابی حلقوں کے لئے حد بندی کے لئے عالمی سطح پر قبول شدہ اور قومی سطح پر عملیا جانے والا اصول آبادی کا حجم ہے۔ تقریباً نصف ممالک آبادی کو حد بندی کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ دوسرا ایک تہائی حصہ رجسٹرڈ ووٹرز کا استعمال کرتے ہیں ، جو آبادی کا ایک سب سیٹ ہے۔ باقی ممالک حدبندی کیلئے شہری آبادی کا استعمال کرتے ہیں ۔کہیں بھی یہ رقبے کی بنیاد پرحدبندی نہیں ہوتی ہے۔
5۔بلاشبہ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کہتا ہے کہ2011 کی مردم شماری پر حد بندی کی جائے ۔ اس میں دفعہ 60 (2) (بی) میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ "تمام حلقے جہاں تک قابل عمل ہیں ، جغرافیائی طور پر کمپیکٹ علاقوں میں ہوں گے ، اور ان کی حدبندی عمل میںطبعی خصوصیات اور انتظامی اکائیوں کی موجودہ حدود کے بارے میں بات کی جانی چاہئے۔آپریٹو حصہ" طبعی خصوصیات "ہے جس میں قدرتی حدود بھی شامل ہیں جو غالب ٹو پو گرافیکل خصوصیات کے ذریعہ پیدا کی گئی ہیں جیسے پہاڑی سلسلے یا دریا۔
6۔یہ ایکٹ کے ذریعہ فراہم کردہ رہنمائی ہے جو حد بندی کے بارے میں ہمارے تجویز کردہ نقطہ نظر کی بنیاد بناتا ہے۔ "کمپیکٹ" انتخابی حلقوں کی تشکیل میں علاقوں کی مشترکہ طبعی خصوصیات ، ان کی مشترکہ نسل ، مذہب اور زبان یعنی "باہم دلچسپی رکھنے والی جماعتوں" کو حد بندی کابنیادی اصول بنناچاہئے۔ پوری دنیا میں یہ بات اچھی طرح سے مسلم ہے کہ اگر انتخابی حلقے "مشترکہ مفادات پر مشتمل جماعتوں" پر مشتمل نہیں ہوں تاہم اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس ورتحال میں نمائندوں کے لئے اس حلقے کی اچھی طرح سے خدمت کرنا مشکل ہے۔
 7۔ عام طور پر حد بندی مشق میں تین مرحلے ہوتے ہیں۔ پہلا جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں نشستوںکی کل تعداد کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ یہ پہلے ہی جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کے سیکشن 60 (1) کیا جا چکا ہے۔ دوسرا ، آبادی کی بنیاد پر ریاست کے اندر ان انتخابی حلقوں کی تقسیم۔ تیسرا ، بڑھائے گئے سات حلقوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے اسمبلی حلقوں کی سرحد وںکے حدود کی نشاندہی کرنے یاسرنو تقسیم کرنے کیلئے کارٹو گرافی سے کام لینا
 8۔اس تفہیم کو دیکھتے ہوئے حد بندی کمیشن کو انتخابی حلقوں کی سرنو تقسیم کس طرح کرنی چاہئے؟ حد بندی کمیشن کے لئے نقطہ آغاز جموں ڈویژن اور کشمیر ڈویژن کے مابین نشستوں کابٹوارہ نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی یہ ہوسکتا ہے ۔وہ اس عمل کا حتمی نتیجہ ہونا چاہئے۔ یہ دونوں نہ تو ریاست میں اسمبلی حلقوں کی حد بندی کی وجہ اور نہ ہی عقلیت ہیں۔ صوبہ جموں و کشمیر ڈویژن ، دونوں انتظامی صوبے ہیں ، انتخابی حلقے نہیں۔ یہ تقسیم یا تضاد، جو اب دو طرفہ ہوچکا ہے ، انتظامی فیصلوںیا پالیسی سازی کے لئے متعلقہ ہوسکتا ہے لیکن نمائندگی کے مقاصد کے لئے نہیں۔
 9۔گرائونڈ س اپ اپروچ پر عمل کرکے حد بندی کمیشن اس حقیقت کو تسلیم کرکے اچھا کرے گا کہ جموں و کشمیر ہر ممکن طریقے سے متنوع ہے: جغرافیائی ، ماحولیاتی ، ثقافتی ، نسلی ، مذہبی اور لسانی اعتبار سے متنوع ہے۔اس کے ساتھ ، عالمگیررویہ "دلچسپی رکھنے والی جماعتوں" کے اصول پر عمل کرتے ہوئے آج کا جموں و کشمیر چار الگ الگ خطوں پر مشتمل ہے: وادیٔ جہلم (جنوبی کشمیر ، وسطی کشمیر اور شمالی کشمیر) ، وادی چناب (کشتواڑ ، ڈوڈہ ، رام بن اور ریاسی) ، پیر پنچال (راجوری اور پونچھ) ، اور توی طاس یا میدانی جموں(جموں ،سانبہ، کٹھوعہ اور ادھم پور)۔
 10۔ان چاروں خطوں میں نشستوں کی تقسیم کے لئے ، یہاں دو معیار استعمال کیے گئے ہیں۔ سب سے پہلااور بنیادی طریقہ کار ہر خطہ کاآبادیاتی تناسب ہے۔دوسرا مخلوط اور جامع طریقہ کار ہے جورقبہ اوررآبادی کو بامقصداور عملی طور جوڑتا ہے ۔ آبادی کو 67 فیصد وزن دیکر ہم نے اسے آبادی کے حجم کے ساتھ جوڑ دیا ہے جس کو 33 فیصدوزن دیاگیا ہے۔ آبادی کے حجم کا استعمال یہ یقینی بناتا ہے کہ مقامی طور پر منتشر علاقوں میں لوگوں کی بہتر نمائندگی کی جائے۔ ساتھ والے خاکہ سے پتہ چلتا ہے کہ زمینی صورتحال کیا ہے۔
11۔ ماڈل نمبر 1 میں نشستوں کی سابقہ تقسیم کے مقابلہ میں وسطی اور شمالی کشمیر کو 2 ، جنوبی کشمیر ، جموں کے میدانی علاقوں اور پیر پنچال کو ایک ایک اضافی نشست ملتی ہے۔ ماڈل نمبر2میں وادی چناب،جو یونین ٹریٹری کے مجموعی رقبہ کاایک تہائی حصہ بناتا ہے،کودو اضافی نشستیں ملتی ہیں۔ شمالی کشمیر اور پیر پنچال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کم رقبہ اور زیادہ آبادی والے وسطی کشمیر اور جموں کے میدانی علاقوں میں کو کچھ اضافی نہیں ملتا ہے اور نہ ہی ان میں کچھ کمی ہوتی ہے۔
12۔یہاں تجویز کردہ دونوں ماڈلز کے درمیان اہم فرق یہ ہے کہ ماڈل II خطوں میں غیر مساوی مقامی تقسیم سے نمٹنے کے لئے آبادی کی حجم کوالٹا استعمال کرتا ہے۔حجم کا عنصر رقبہ کے لئے متعلقہ سروگیٹ کا کام کرتا ہے کیونکہ کم حجم زیادہ وزن رکھتا ہے۔
13۔ وادی کشمیر ، پیر پنچال خطہ اور جموں کے میدانی علاقوں میں ایک بھاری اکثریت ہے ، بنیادی تنازعہ کا علاقہ وادی چناب ہوگا۔ اس خطے میں متعصبانہ سرنو تقسیم کے خطرات اس کے تین اضلاع ریاسی ، ڈوڈہ اور کشتواڑ کے ساتھ زیادہ ہیںجن کی مخلوط آبادی کی شرح بالترتیب 50:50 ، 54:46 اور 58:42 ہے۔ اس سے یہ سیاسی مہم جوئی کے قابل علاقہ بن جاتا ہے۔ اس خطے کی حدبندی کیلئے ایک جراح کے پاس سیاسی بصیرت اور دانشورانہ سالمیت کے ساتھ ساتھ پیشہ وارانہ ہنر ہونا چاہئے!
 14۔ان تین اضلاع میںحدبندی کچھ اس طرح کرنا ممکن ہے کہ اقلیتوں کو نسبتاًکچھ حلقوںتک مرکوز کیا جائے اور انتخابی تسلط کو کم کرنے کے لئے انتخابی حلقوں پر اکثریت پھیلا دی جائے۔
 15۔دیگر تین اہم معاملات ہیں جنہیں حد بندی کمیشن کودیکھنا چاہئے۔ سب سے پہلے انتخابی فہرستوں کے ڈیٹا بیس کی اعتباریت کو بحال کرنا ہے۔ یہ کل آبادی ، انتخاب کنندہ یا ووٹر ہوں۔ انتخابی اعدادوشمار کا نقشہ تیار کرنے کے لئے حد بندی کمیشن کے پاس ایک مضبوط  اور جامع انتخابی فہرست ہونی چاہئے۔ جموں و کشمیر میں انتخابی فہرستوں کے اعداد و شمار نے ہمیشہ بہت سے تضادات ظاہر کئے ہیں۔ہر انتخاب کے دوران علاقائی سطح پر ووٹروں کی شرح فیصدبدلتی رہتی ہے۔ بعض اوقات جموں کا خطہ کشمیر کے خطے کے مقابلے میں زیادہ ووٹروںکا اندراج کرتا ہے اور بسا اوقات کشمیر کا خطہ جموں کے علاقے سے بھی زیادہ درج کرتا ہے اور اسی طرح آبادی کے سائز میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔
 16۔ریاست کے 2002 کے انتخابی اعدادوشمار کے مطابق جموں خطے میں کشمیر کے خطے سے دو لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز زیادہ تھے۔ لیکن ہندوستان کے الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کشمیر خطے میں جموں خطے کے مقابلہ میں2014اسمبلی انتخابات میں قریب 2.50 لاکھ زیادہ ووٹر تھے۔
17۔دوم ، ان تمام حلقوں کی صف بندی کرنا جن کی اراضی کا رقبہ دو یا زیادہ اضلاع کے تحت آتا ہے۔ ایسا اس لئے ہوا ہے کیونکہ 2006 میں ریاست میں آٹھ نئے اضلاع کی تشکیل کے بعد کوئی حد بندی نہیں ہوئی ہے۔
 18۔او تیسرا اہم مسئلہ جو حد بندی کمیشن کوحل کرنا چاہئے، وہ ہے درجہ فہرست ذاتوں (ایس سی) اور درجہ فہرست قبائل (ایس ٹی) کی آبادی کے لئے نشستوں کا ریزرویشن (اور اس کی گردش)ہے۔ اس کو آئین ہند کی دفعہ 334 کے ذریعہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔
 19۔گوکہ سات اسمبلی نشستیں ریاست کی ایس سی آبادی کے لئے مختص ہیں ، اگرچہ 1996 کے بعد سے ان کوگھمایانہیں گیا ہے، ریاست میں 12 فیصد ایس ٹی آبادی کے لئے کوئی سیٹ مخصوص نہیں ہے۔ ایس ٹی آبادی کی اکثریت پیر پنچال خطے میں مرکوز ہے۔ لہٰذا راجوری یا پونچھ میں ایس ٹی کی مخصوص نشست کا قوی امکان ہے۔ زیادہ امکان راجوری میں ہے۔
20۔اس تناظر میں یہ قطعاًممکن ہے کہ حد بندی کمیشن کشمیر ڈویژن میں ایک مخصوص حلقہ کی حد بندی کرنے کے پرانے منصوبے کو بحال کرے۔اترپردیش ، بہار اور مغربی بنگال میں مسلمانوں کی نمائندگی کم کرنے کیلئے مسلم اکثریت والے علاقوں میںاسمبلی حلقوں کو مخصوص کرنے کی حد بندی کمیشنوں کی پاس تاریخ موجود ہے ، جیسا کہ سچرکمیٹی نے بھی بتایا تھا۔کشمیر کے معاملے میں یہ ترجیح مذہبی کے بجائے زیادہ نسلی اور ثقافتی ہوسکتی ہے۔ دیر سے اب یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کشمیری ایک یکجا کمیونٹی نہیں ہیں،وہ اگر متضاد مفادات اور وابستگیوں سے متصادم تو نہیںہیں لیکن مختلف ضرور ہیں۔ اب اس کا استعمال نمائندگی کی سیاست میں ہوسکتا ہے۔
 (یہ جموں و کشمیر میں حد بندی سے متعلق سیریز کا چوتھا اور اختتامی حصہ ہے)